انسان کے خواب پورے نہ ہوں اور بار بار خواب بس خواب سے
رہ جائیں،،،
نہ ہو تعبیر،،،نہ ہو اچھی تقدیر،،،تو بس خواب بھی نابینا سے ہو جاتے ہیں،،،
اور انسان جاگتے،،،یا سوتے خواب دیکھنا پسند نہیں کرتا،،،
جانے میں خواب کیوں دیکھتا ہوں
ہر خواب میں سیراب کیوں دیکھتا ہوں
جب ایسے لگتاہے کہ اب کوئی دعا قبول نہیں ہوتی،،،عبادت بس اک عادت کی
طرح سے محدود ہو کر خون میں شامل ہو گئی ہے،،،کوئی روحانی تسکین نہ مل
رہی ہو،،،پھر اپنا آنے والے سویرا بھی شام سا ہی لگتا ہے،،،روشنی اندھیرے
کی
دوست لگتی ہے،،،
انسان اپنے آپ میں گم ہو جاتا ہے،،،خوشی خوشی نہیں لگتی،،،مسکراہٹیں بےمعنی
سی خشک ہوا سی ہو جاتی ہیں،،،جو کپڑا تو اڑا دیتی ہے،،،مگر انسان کی روح کو
نہیں
جنجھوڑ پاتی،،،انسان کا دماغ منجمد سا ہونے لگتا ہے،،،
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود کو
نا جانے اب خود سے کب ملاقات ہو۔۔۔۔
اک دن ہم ایسے ہی لوگوں میں چلے گئے،،،جو وقت کے قیدی بن گئے تھے،،،ان کا
ماضی ہی حال اور آنے والا کل تھا،،،وہ گانا سناتے سناتے رونے لگتے،،،
عام سے دن کو عید کی طرح مناتے،،،اور عید کے دن صرف ماتم کرتے،،،
ہر اک کی اس حالت کے پیچھے اک کہانی تھی،،،یہ وہ لوگ تھے جو زخم کھا کھا
کر اب بینائی سے محروم نابینا خواب دیکھتے تھے،،،کوئی اب تک بچوں سا تھا،،،
اور کسی کو اپنے بچوں کا ہی نہیں پتا تھا،،،
کوئی ٹام کروز تھا،،،کوئی وحید مراد تھا،،،کوئی سلطان راہی،،،کوئی ابھی تک
ٹریفک پولیس کا حوالدار تھا،،،
اک صاحب جو لمز کے ڈگری ہولڈر تھے،،،وہ اپنے آپ جج تھے،،،اور کھٹا کھٹ
فیصلے سناتے تھے،،،پھر کسی ظالم سی حسینہ کا نام لے کر پھوٹ پھوٹ کر
رونے لگتے،،،
اک جگہ اک محترمہ ڈاکٹر بنی ہوئیں تھی،،،جو ہر اک کو مریض اور خود کو
مسیحا سمجھتی تھیں،،،پھر اک بوسیدہ سا ہینڈ بیگ اٹھا کر تیزی سے باہر
نکلنا چاہتی تھیں،،،کہ ان کے بچوں کی سکول کی چھٹی ہونے والی ہے،،،اور
وہ لیٹ ہو گئی ہیں،،،پھر لوہے کی گرل کو پکڑ کر زور زور سےچینخنے لگتی تھیں
کھولو،،،کھولو،،،میرا شوہر مجھے بہت مارے گا،،،اگر میں بچوں کو سکول سے
لیٹ لے کر آئی،،،
میں اس کی بیوی نہیں،،،نوکرانی ہوں،،،وہ روز مجھے یاد دلاتا ہے،،،
کھولو،،،کھولو،،،مجھے جانے دو،،،
میں انسان ہو کر اتنا ظالم کیوں ہوں
جب وہ بیوی تھی تو میں مالک کیوں ہوں۔۔۔۔
|