مضبوط باوقار قوم کی تشکیل کیلئے صحت مند معاشرے کا
ہونا انتہائی ضروری ہے جہاں پر ہمارے معاشرتی نظام میں مذہبی اخلاقی
کمزوریوں کی ایک بڑی لہر پائی جارہی ہے تو وہیں پر ہم خود بددیانت عناصر
رکھنے کے باعث بیماریوں میں بری طرح مبتلا ہوکر خود کو پسپائی کی جانب
دھکیلنے میں برے پیمانے پر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہیں کچھ افراد جتھے
کا گروہ کو اس امر میں قصور وار ٹھہرانا بالکل بھی درست نہ ہوگا کہ جب
معاشرتی افراد کے بیشتر افراد اپنی عارضی اور چند لمحوں کی خوشی کیلئے
دوسروں کی زندگیاں چھیننے اور اپنے پورے نظام کو داو پر لگانے کیلئے تل چکے
ہیں اس بات کا اقرار کرنا کسی صورت غلط نہیں سمجھا جاتا کہ معاشروں کو
مضبوط اور منظم بنانے میں حکومت وقت کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ لیکن جن
قوموں میں بددیانتی اور کرپشن کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہوں تو حکومتی
عہدوں میں بیٹھنے والے افراد اسی قوم کا حصہ ہوں تو ایسے معاشروں کی تبدیلی
کا تصور بعض دفعہ نہ ممکن ہوجاتا ہے۔جب آپ کے نظام میں ایک دودھ بیچنے والا
فرد روزانہ کیمیکلز پانی اور دیگر طریقے سے بھر کر خدا کی نعمت کو زحمت میں
بدلنے کی بھرپور کوشش کرے اور چند روپوں کی خاطر سینکڑوں جانوں کو مشکلات
میں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہو جب ایک گھی بیچنے والا انتہائی گندہ اور
غیر معیاری گھی چند ٹکوں کی پرافٹ کے باعث اپنے ہی بہن اور بھائیوں کو
غلاظت سے بھرپور گھی کھلانے پر خوش ہو اور بڑے پیمانے پر بیماریوں کا سبب
بنے جب ایک بھائی مرچ میں مصالحے اینٹیں اور طرح طرح کی انسانی صحت کے خلاف
اشیاء کا استعمال کرکے اپنے بچوں کو خوش رکھنے کیلئے دوسروں کی زندگیوں سے
کھیلنے کے درپے ہو اور جب صاف پانی فراہم کرنے والا غیر معیاری جگہوں سے
پانی کی فراہمی کرکے صرف تھوڑی سی آسانی کیلئے قوم کے افراد کو ہیپاٹائٹس
اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کرنے کا خواہش مند ہو جب بیکری میں بننے والی
چیزوں میں بھرپور طریقے سے غیر معیاری اور انسان دشمن اشیاء کا استعمال
سرعام کیا جارہا ہو تو ایسے معاشروں کی بہتری کیلئے حکومت کو نہیں بلکہ قوم
کو خود اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ہم بطور قوم انتہائی کمزور رویوں کے مالک
ہوچکے اگر قانون اپنے شکنجے کو مضبوط کرے اور پاکستان کے ہر شہری کو
پاکستان کے اپنے ہی قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرلے تو پاکستان
کے 80%سے زائد شہری سزا اور جزا کے مستحق پائیں گے کرپشن کا عنصر چھوٹے
پیمانے پر موجود ہو یا بڑے اس کی سزا ایک ہی تصور کی جاتی ہے ہم اس بات پر
بڑے خوش ہوتے ہیں کہ پاکستانی قوم دنیا بھر میں نوجوان افراد ی قوت رکھنے
والا ایک انتہائی اہم ملک ہے لیکن ہمیں اس بات پر پشیمانی کا سامنا کیوں
نہیں ہوتا کہ ہمارے پچاس سال کا عرصہ کراس کرنے والے افراد چارپائیوں پر
لیٹ کر اپنی دوائیاں لینے سے مجبور ہوتے ہیں اور ان کی اولاد ان کے اخراجات
برداشت کرنے سے قاصر ہوجاتی ہے۔ پاکستانی قوم کے دس سال سے زائد عمر کے
افراد میں شوگر نظر کی کمزوری ہیپاٹائٹس سر میں درد اور دیگر بیماریوں کا
بڑے پیمانے پر جنم لینا ہمارے لیے لمحہ فکریہ کیوں نہیں ہم کیوں ہر معاملے
میں دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے یہ سب
سے بڑا سوال ہے جب تک قوم کا ہر فرد خود کو بدلنے اور اپنے بہن بھائیوں کو
مثبت باوقار اور صحت مند زندگی گزارنے کا تہیہ نہیں کرلیتا اس وقت تک
معاشرے کی بہتری کے اسباب ہونا مشکل ہے اور یہ سب صرف اور صرف دیانتداری
اور اسلام کا علم ہاتھ میں پکڑنے سے ہی ممکن ہوگا۔
|