اقبال نے کہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ حقیقت ہے کہ عظیم شخصیات صدیوں بعد کہیں پیدا ہوتی ہیں ۔ایسی ہی ایک ہمہ
جہت شخصیت مقصود الزماں کی تھی جو صرف گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے ۔مقصود
الزماں نے ۱۹۶۳ء میں لاہور میں جنم لیا ۔بعد ازاں فیصل آباد میں رہائش
اختیار کر لی ۔مختلف ملازمتیں کیں اور ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔دوران
تعلیم ہی شاعری کا آغاز کیا ۔حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں شرکت نے ان کو
انقلابی شاعر کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔آسی ضیائی سے اصلاح سخن لی اور سحر
تخلص اختیار کیا ۔۱۹۹۱ء میں جہاد کا عزم لیے مقصود الزماں افغانستان چلے
گئے جہاں ’’البدر ٹریننگ سینٹر‘‘ سے تربیت حاصل کی اور پھر معرکہ حق و باطل
میں عملاً کود گئے ۔مختلف لڑائیوں میں مجاہدین کے ساتھ اگلی صفوں میں رہے
۔۱۹۹۳ء میں فیصل آباد سے مقبوضہ کشمیر روانہ ہو گئے ۔وہاں بھی مختلف محاذوں
پر دشمن کے خلاف لڑتے رہے ۔سید علی گیلانی سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے
مقصود الزماں کو تلوار کے ساتھ قلم سے بھی جہاد کی ترغیب دی ۔یوں مقصود
الزماں نے قلمی ،فکری اور عملی جہاد کیا ۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک
گاؤں میں ۲۲ مئی ۱۹۹۳ء کو آخری سانس تک مقابلہ کیا اور دشمنوں کے سامنے آکر
سر پر گولی کھا کر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے ۔فیض نے شاید ایسے ہی
جان دینے والوں کے لیے کہا تھا:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
مقصود الزماں کی شہادت کے ایک سال بعد ان کے بھائی عتیق الزماں بٹ بھی
بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے ۔
’’ہمیں رکنا نہیں آتا‘‘ مقصود الزماں کا شعری مجموعہ ۱۹۹۴ء میں پہلی بار
منظر عام پر آیا ۔کتاب کا انتساب ’اس بلند حوصلہ اور عالی ہمت والدکے نام
ہے جس کی خمیدہ کمر کو دوجوان بیٹوں کی شہادت نے فخر و انبساط سے سیدھا کر
دیا ‘۔
پیش لفظ محبوب زماں بٹ کا تحریر کردہ ہے ۔انھوں نے ہی مقصود الزماں کے کلام
کو یکجا کر کے مختلف احباب کے تعاون سے شائع کرایا ۔پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر
مفکر احمد نے مقصود الزماں کے مہد سے لحد تک کے حالات ،ان کی جدوجہد اور
عزم و حوصلہ کو نہایت جامع انداز سے بیان کیا ہے ۔’’شعر شہید ‘‘ کے عنوان
سے نعیم صدیقی نے موشگافی سے ان کے فکر و فن کا جائزہ لیا ہے ۔اس شعری
تخلیق کی ابتدا حمدیہ کلام سے ہوتی ہے جس میں شاعر بارگاہ الہی میں استدعا
کررے ہیں کہ اے میرے خدا مجھے ایسا آئینہ عطا کر جس میں مجھے آپ کے سوا کچھ
دکھائی نہ دے ۔
وہ یہ دعا بھی مانگتے ہیں کہ بے شک میں بہت گنا ہ گار ہوں لیکن آپ تو
مہربان ہیں ۔غفور الرحیم ہیں ۔مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا ۔میرا دل
اپنی طرف ایسے موڑ دے کہ میں ہر وقت تیرے ذکر میں مشغول رہوں ۔
قلب و نظر کی ایسی صفائی سے پناہ طلب کرتے ہیں جو خوف خدا ختم کردے ۔اس
دولت سے بھی پناہ چاہتے ہیں جسے پا کر انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے اور
خود کو بڑا تصور کرنے لگتا ہے ۔حالاں کہ بڑائی کی حق دار صرف خدا کی ذات ہے
۔
دولت کے ڈھیر پر جو کھڑا ہے بڑا وہ وہ
رب کریم ایسی بڑائی نہ دے مجھے
’’میں نعت کیسے لکھوں‘‘ کے عنوان سے دو اشعار میں نہایت عاجزانہ اور معذرت
خواہانہ انداز اختیار کیا ہے کہ جب بھی نعت کہنے کی کوشش کرتا ہوں میرا
کردار مجھے شرمندہ کر دیتا ہے ۔رباعی ملاحظہ کریں کس قدر منکسر المزاجی ہے
۔
آرزو تھی کہ کروں مدح سرائی ان کی
فیض سے جن کے میں ایماں کا عملدار بنا
جب بھی لکھا ہے نعتِ رسول عربی
میرا کردار مری راہ کی دیوار بنا
غزلیات میں مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی ترغیب نظر آتی ہے ۔وہ خود بھی
ایک مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھے اور اپنی منزل مراد کو پاکر اس درجے پر
فائز ہو گئے جو کسی کسی خوش نصیب کو حاصل ہوتا ہے ۔وہ اس بات کی تلقین کرتے
ہیں کہ حصول مقصد کے لیے نیند قربان کر دیں کیوں کہ سوئے رہنے سے کچھ حاصل
نہیں ہو گا اور ویسے بھی مرنے کے بعد قیامت تک سونا ہی ہے ۔
یاد رکھ حشر تلک زیر زمین سونا ہے
جاگتے رہنا کہ مقصد کا زیاں ہیں نیندیں
یہ فلسفہ اقبال کے کلام میں بھی کئی بار ملتا ہے جیسا کہ
کس قدر گراں تم پہ صبح کی بیداری ہے
ایک اور جگہ کہتے ہیں
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
ایک اور شاعر کے ہاں بھی بالکل اسی طرح کا مضمون ملتا ہے ۔
صبح روشن کی طلب ہے تو امید نو سے اٹھ
کہ سوئے رہنے سے خوابوں کی تعبیریں نہیں ملتیں
وہ خود کو بھی اس بات پہ مائل کرتے ہیں کہ اگر سحر خیزی تمھاری راسخ عادت
ہو جائے تو وہ دن دور نہیں جب تم اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جاو گے۔
ایک دن چمکے گا مقصود مقدر تیرا
صبحِِ کاذب کو اگر تجھ پہ گراں نیندیں
مقصود الزماں کی شاعری ان کے جذبات کی ترجمان ہے ۔ان کی شاعری سے اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر دلیر اور بہادر شخص تھے ۔ان کے شورشِ جہاد
نے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لایا ۔انھوں نے فیض کے اس شعر کے مصداق
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اپنا سفر جاری رکھا۔سمندر اور پہاڑ بھی عبور کرنے کا جذبہ لیے وہ آگے بڑھتے
رہے ۔
سجا کر شان ماضی اپنے سر پر پھر سے نکلا ہوں
مری پرواز جاری ہے سمندر یا پہاڑ آئے
ایماں کی دولت پہ کفر کا شب خون اور اس پر امیر شہر کی بے حسی انھیں الم
میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ان کی تڑپ اشکوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔وہ خود
کو اس صدا کی مانند قرار دیتے ہیں جو غربت میں سنی نہیں جاتی ۔اس کے باوجود
ان کا دل ایمان کی روشنی سے منور رہتا ہے ۔وہ روشنی جسے کوئی ختم نہیں کر
سکتا ۔
پڑا ہے دولت ایماں پہ کفر کا شبخون
امیر شہر کی مقصود بے حسی نہ گئی
انھیں زندگی کی قدر تھی وہ جانتے تھے کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اسی لیے
ان کی خواہش تھی کہ اس زندگی کو فضول کاموں میں گزارنے کی بجائے احکام
الہیٰ کے مطابق گزاریں ۔جیئں بھی خدا کی مرضی کے مطابق اور جان بھی اس کی
راہ میں دیں۔
متاع زیست گرچہ قیمتی ہے
رہ حق میں لٹانا چاہتا ہوں
وہ شہادت کے طلب گار تھے ۔ان کے کلام میں یہ خواہش بار بار دکھائی دیتی ہے
۔وہ خدا سے دعا کرتے تھے کہ اگر شہادت ان کا مقدر نہیں تو پھر انھیں کسی
شہید کے پہلو میں ہی جگہ دی جائے ۔
مرا نصیب شہادت نہیں گر اے مولا
کسی شہید کے پہلو میں ہی سلا مجھ کو
کہیں وہ اس دکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ لوگوں میں کٹ مرنے کی جستجو ہی
نہیں رہی ۔نہ جانے راہ حق میں جان لٹانے والے کس بستی میں جا چھپے ہیں
۔کیوں کہ یہاں لوگ تو موجود ہیں لیکن حق کی راہ میں مٹنے والے جذبات نہیں ۔
یہ اور بات کہ کٹنے کا شوق ختم ہوا
وگرنہ شہر شجاعت میں اب بھی سر ہیں بہت
انھیں اس بات کا شعور تھا کہ عرفانِ ذات کا ادراک یوں ہی نہیں حاصل ہوتا بل
کہ اس کے لیے اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے ۔اپنا محاسبہ کرنا پڑتا ہے تب جا
کر ذات کے عرفان کا سفر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔
اتنا آساں تو نہیں ذات کے عرفان کا سفر
دل کے صحرا کو کھنگالو ،ذرا کھودو خود کو
ان کے محکم یقین نے ان کے دل کو وہ روشنی عطا کی کہ ان کے راستے سے چھوٹی
تو کیا بڑی رکاوٹیں بھی دور ہو گئیں ۔
ذوق یقیں نے قلب کو بینائی بخش دی
در کیا ہے میری راہ سے دیوار ہٹ گئی
اقبال کے الفاظ میں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یہ ذوق یقیں مقصود الزماں میں موجود تھا جس نے انھیں ہر مشکل کا مقابلہ
کرنا سکھایا ۔غزلوں کے بعد نظمیں شامل ہیں ۔پہلی نظم ’’نذر اقبال‘‘ کا آغاز
خطیبانہ انداز سے ہوتا ہے ۔شاعر کے مخاطب اقبال ہیں ۔جنھیں وہ قوم کے فکر ی
راہبر ،ہر دور کے شاعر معتبر ،حق و صداقت کے پیامبر ،دور حاضر کے سب سے بڑے
دیدہ ور کہہ کر پکارتے ہیں ۔انھوں نے اپنی شاعری سے ملت اسلامیہ کو جس طرح
سے خواب غفلت سے بیدار کیا اس کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کے زمانے کا تقابل
وہ اپنے عہد سے کرتے ہیں
مرد مومن تو ہے پر غازی نہیں
یعنی اوصاف میں وہ حجازی نہیں
اب قلندر میں ایمان باقی نہیں
دل میں قاری کے قرآن باقی نہیں
مقصود الزماں کہتے ہیں اقبال کی آرزو تھی کہ قوم متحد ہو جائے لیکن اب قوم
بکھر چکی ہے ۔ایک وطن حاصل کر کے پھر اس کو بھی تقسیم کر دیا ۔نفرت کے بیج
بوئے جا رہے ہیں ۔اب قوم بھی تقسیم ہو رہی ہے ۔اس تقابل کے ذریعے مقصود
الزماں نے اپنے سماج کی خامیوں ،کمزوریوں اور ترک عمل پر گہرے رنج و الم کا
اظہار کیا ہے ۔
’’مرشدی مودودی‘‘ کے عنوان سے کہی گئی نظم میں اپنے مرشد کی عظمت ،ان کی
صفات اور خدمات کا ذکرکرتے ہوئے اپنا ہر لفظ ان کے نام کرتے ہیں ۔جو محبتوں
کا پیامبر ،نفرتوں کا رقیب ،ملتوں کا طبیب اور جس کا ہر لفظ کتاب حق کے
قریب تھا ۔
اندھیری راتوں میں جس نے تنہا چراغ علم وعمل جلائے
مرا ہر ایک لفظ اس کی خاطر ہے وہ ہی میرا نصیب ٹھہرا
’’چراغ آب بیتی‘‘ میں منفرد انداز میں چراغ کی زبان سے معاشرے کی بے عملی
کا جائزہ لیا ہے کہ اب کہاں قاسم اور غزنوی جیسے عظیم راہنماء عطار،رومی
اور اقبال جیسے عظیم المرتبت شاعر ملتے ہیں ۔وہ اقبال جس نے مردہ قوم کی
خودی کو جگا کر ان کے ایمان تازہ کیے ۔اقبال کے مصرع پر تضمین بھی کی ہے ۔
ہاں اسی نے تو کہا تھا امتحان ہے زندگی
برتر از اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی
اقبال کے اس مصرعے کو تحریف کے ساتھ یوں شامل کیا ہے ۔
تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو
مقصود الزماں نے یوں کہا ۔
تھے تو وہ آبا تمھارے ہی مگر خود کیا ہو تم
معاشرے کی بے حسی پر اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے انھوں نے چراغ
کا سہارا لیا ہے ۔
جاوید نامہ میں شامل اقبال کے اس شعر کا مضمون بھی مقصود الزماں کے ہاں
ملتا ہے جس میں انھوں نے میر جعفر اور میر صادق جیسے وطن کے غدار وں کو ننگ
آدم ،ننگِ دیں اور ننگ وطن قرار دیا تھا ۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ آدم ،ننگِ دیں ،ننگِ وطن
مقصود الزماں بھی کہتے ہیں کہ ویسے ہی غدار چاروں طرف ہیں ۔
ننگ ملت ننگ دیں ننگ وطن ہیں چار سو
جعفر و صادق کے ہاتھوں میں ہے گھر کی آبرو
ایک اور نظم میں بھی انھوں نے دورِ نو کو موضوع بنایا ہے کہ صرف مجھے ہی اس
دور نے دکھ نہیں دیے بلکہ ہر کوئی دور نو کا بسمل ہے ۔عمر بھر کی محرومیاں
زندگی کا حاصل ٹھہریں ۔اس باطل کے نظام نے مجھ سے میری معصومیت چھین لی ۔
جس نے چھینا ہے بانکپن میرا
دور نو کا نظام باطل ہے
ہاں یہی دور جبر محرومی
میری معصومیت کا قاتل ہے
’’اسلامی جمعیت ‘‘کے نوجوانوں کے نام نظم ’’جذبوں کی صداقت زندہ ہے ‘‘ کا
ہر شعر مقصود الزماں کے دل کی پکار ہے جس میں وہ اقرار کرتے ہیں کہ جب تک
زندہ ہوں شہادت کا جنون مجھ میں سمایا رہے گا ۔اس نظم کا آخری شعر
حق بات کہے اور ڈٹ جائے پھر چاہے گردن کٹ جائے
جب خون بہے دشمن بھی کہے عزم جمعیت زندہ ہے
حق بات پر ڈٹ جانا مرد مومن کی نشانی ہے ۔
بہ قول اقبال :
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
’’نیک بنو نیکی پھیلاؤ‘‘ نظم میں وہ دین کا پرچم لہرا کر ساری دنیا پر چھا
جانے ،خدا پر بھروسا کرنے ،عشق نبی کو دل میں بسانے ،دین کی خاطر جینے
،مرنے ،علم و محنت کو اپنا شعار بنانے کا درس دیتے ہیں ۔
کشمیریوں کے عزم و ہمت اور ان کے حوصلے کو کئی بڑے شعرا نے داد شجاعت دی جن
میں اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے نام بھی ہیں ۔موجودہ دور کے شعرا بھی
اس موضوع پر اپنی بساط کے مطابق لکھتے ہیں ۔راولاکوٹ کے ممتاز ادیب کبیر
خان نے ’’تمھارے راستے میں روشنی ہو ‘‘ کے عنوان سے کشمیر کے حوالے سے لکھی
گئی نظموں کا ایک انتخاب بھی شائع کیا ہے ۔کشمیر کے حوالے سے لکھی گئی
نظمیں مقصود الزماں کی تڑپ ،ان کے درد اور کشمیریوں سے ان کی محبت کو ظاہر
کرتی ہیں ۔وہ کشمیریوں کے درد کو اپنے درد میں بساتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماؤں
کی آنکھوں سے اشک ختم ہو گئے ہیں لیکن ظلم کی رات طویل سے طویل تر ہوتی جا
رہی ہے ۔
جو روشنی کی تلاش میں نکلے تھے ان غیور نوجوانوں کی مائیں آج تک راہ تک رہی
ہیں ۔جو لوٹ کے بھی آئے تو ان کے سر سلامت نہیں آئے ۔
جہاد زیست سے لوٹے تو ماؤں نے دیکھا
بدن تو آگئے ،بیٹوں کے سر نہیں آئے
ایک نظم میں سید علی گیلانی کی جدوجہد کی ستائش کرتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر
سے قوم کو تیار کر رہے ہیں ۔دشمنوں کو للکار کر کہتے ہیں کہ تم جو چاہے کر
لو ہمارے حوصلے کم نہیں ہوں گے ۔
ہر اک جوان کے بعد آئے گا جواں اک اور
شہادتوں کا حسین سلسلہ نہ ٹوٹے گا
مقصود الزماں کہتے ہیں کہ اقبال کا شاہین بن کر ہی کشمیر کو آزاد کرایا جا
سکتا ہے ۔آزادی یوں ہی تو نہیں حاصل ہوتی اس کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی
ہیں ۔کشمیریوں کو حوصلہ بھی دیتے ہیں ۔
بن کے آزادی کی شمشیر ابھی آتے ہیں
غم نہ کر اے مرے کشمیر ابھی آتے ہیں
مقصود الزماں ظلم کے دشمن ،حق کے پرستار اور شہادت کے طلب گار تھے ۔
ہم ظلم کے دشمن ہیں مگر حق کے پرستار ہیں
اﷲ کے رستے میں شہادت کے طلب گار ہیں
مقصود الزماں ایک نظم میں کہتے ہیں کہ ہم مسلمان افکارکی جنگ لڑتے ہیں
۔درہم و دینار کی نہیں ۔کفر و اسلام کے معرکے ابد سے ازل تک جاری رہیں گے
۔جبر کے دور میں بھی ہم جرات اظہار کرتے رہیں گے ۔اسلام کے لیے ہماری جانیں
ہر دم حاضر ہیں ۔
ہم سے مانگو تو سہی خون جگر بھی دیں گے
نام اسلام کا آئے گا تو سر بھی دیں گے
کشمیریوں کے جوش و جذبے اور ان کی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے وہ پر امید ہو
جاتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیری
آزادی کا سورج طلو ع ہوتا دیکھیں گے ۔لیکن افسوس یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی
تعبیر نہ جانے کب ملے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
سر کٹے گا تو غلامی کی کڑی ٹوٹے گی
ان اندھیروں میں اجالے کی کرن پھوٹے گی
تین نظموں میں شہیدان کشمیر کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔’’البدر
ٹریننگ سنٹر‘‘ پر لکھی گئی نظم بھی اس کتاب میں شامل ہے جس میں اس ادارے کو
مجاہدوں کا کاررواں اور شہادتوں کا حسین سفر قرار دیا ہے ۔آخری نظم بہ
عنوان ’’منزل ‘‘ ہے جس کے ایک مصرعے سے اس کتاب کا عنوان لیا گیاہے ۔جذبات
سے بھرپور اس نظم میں کشمیر کے ساتھ برما کے درندوں کا بھی ذکر ہے ۔اس نظم
میں خود کو دریا سے تشبیہ دیتے ہیں جو اپنا راستہ خود بناتا ہے ۔راستے میں
رکاوٹ بننے والی ہر شے کو نیست و نابود کر دیتا ہے ۔
مقصود الزماں کی شاعری کا مرکزی محرک دین اسلام سے محبت اور جذبہ شہادت ہے
۔ان کی شاعری میں جو جوش و جذبہ ،جدوجہد ،درد و الم موجود ہے ۔وہ ان کے
ذاتی اور سچے جذبوں کی ترجمانی ہے اور فن وہی بلندی تک پہنچتا ہے جس میں
صداقت کا جذبہ موجود ہو ۔میں ان کے بارے میں مزیدکیا لکھوں جب عطا الحق
قاسمی جیسی شخصیت بھی رطب اللسان ہیں ۔’’جن لفظوں کی صداقت کی گواہی ابلتا
ہوا خون دے ۔ان لفظوں کی تاثیر کسی گواہی کی محتاج نہیں دیتی ۔چناں چہ ہمیں
رکنا نہیں آتا کا مطالعہ کرتے ہوئے میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔۔۔اس شاعر
کے سامنے مجھے اپنے سارے ڈرامے ،سارے کالم ،سارے سفر نامے اور ساری شاعری
بے وقعت محسوس ہوتی ہے ‘‘۔
تحسین فراقی ،سید ضمیر جعفری اور آسی ضیائی نے بھی مقصود الزماں کی شاعری
کے حوالے سے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔مقصود الزماں کے اس شعر پہ
مضمون ختم کرتی ہوں۔
جییں تو غازی جو مر جائیں تو شہید سحرؔ
ہمیں قبول نہیں کوئی درمیان کی بات |