میری پچیس سالہ ازدواجی زندگی میں تین دن ایسے آئے ہیں جب
مجھے بیوی کی اہمیت کا احساس اتنی شدت سے ہوا کہ اب میں خود کو اس کے بغیر
نامکمل تصورکرتا ہوں - اب مجھے ان تمام لوگوں کے جذبات کا شدت سے احساس
ہوتا ہے ٗ جن کے جیون ساتھی انہیں تنہا چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے -
قرآن پاک میں بالکل سچ لکھا ہے کہ عورتیں انسان کا لباس ہیں ٗ ان کے بغیر
انسان واقعی خود کو ادھورا اور نامکمل محسوس کرتا ہے -
وہ تین دن میری پچاس سالہ زندگی پر بھاری ہیں جب میری بیگم عابدہ مجھے چھوڑ
کر ایک شادی میں شرکت کے لئے ملتان روانہ ہوئی - اپنے ماموں زاد بھائی محمد
سلیم خان اور بھتیجے اعجاز احمد خان کی شادی میں شرکت کی تمنا تو مجھے بھی
تھی لیکن عین انہی دنوں پولو ٹورنامنٹ کے انعقاد کی وجہ سے مجھے نہ چاہتے
ہوئے بھی لاہور میں رکنا پڑا -
حالانکہ بیگم میری دیکھ بھال کے لئے سب سے بڑے بیٹے شاہد کو چھوڑ گئی تھی -
جس سے مجھے اتنی محبت ہے کہ میں اسے اپنی رگوں میں دوڑنے والا خون قرار
دیتا ہوں - اس کے باوجود نہ جانے کیوں بیگم کے بغیر میری بے قراری میں حد
درجہ اضافہ ہوتا چلا گیا - اس کی کمی شاید مجھے اس لئے زیادہ شدت سے محسوس
ہوئی کہ جب سے وہ میری زندگی میں آئی ہے اس نے ( بالخصوص علیحدہ گھر میں
منتقل ہونے کے بعد ) کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑا اور نہ ہی میں کبھی اس کے
بغیر رہا - دکھ سکھ ٗ غم اور خوشی میں ہم ساتھ ساتھ رہے یہی وجہ ہے کہ اس
کی موجودگی میں مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہوہ مجھ سے کبھی جدا بھی ہوسکتی
ہے اس کی محبت اور چاہت میری سانسوں میں کس قدر رچ بس گئی تھی میں سوچتا
تھا کہ یونہی چلتے چلتے زندگی کی شام ہوجائے گی لیکن جسے میں اپنے گھر میں
ایک عام یا فرد تصور کرتا تھا اس کے بغیر اپنی ذات کو نامکمل پاتا ہوں -
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ 12 فروری 2004 کی صبح جب اس نے مجھے الوداعی
نظروں سے خدا حافظ کہا تو میرے د ل کی دھڑکنوں نے بالکل الٹ سمت کیوں
دھڑکنا شروع کردیا - حالانکہ پہلے میں دفتر پہنچ کر گھر کے معاملات سے لا
تعلق ہوجاتا تھا شاید ہی کبھی میں نے گھر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہو
لیکن 12 فروری کا د ن بے قراری کے اعتبار سے اپنے عروج پر تھا - سارا دن
مجھے اس بات کا شدت سے احساس رہا کہ آج بیگم گھر میں نہیں ہے شام ڈھلے جب
دفتر سے چھٹی ہوئی تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ گھر کس کے لئے جاؤں وہ جو
ہمیشہ بے تابی سے میرا انتظار کرتی تھی آج گھر پر نہیں ہے کیا اس کے بغیر
گھر مجھے کاٹنے کو نہیں دوڑے گا ؟ اس وقت میری زبان پر بار بار ایک ہی غزل
کے اشعار آرہے تھے :
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لئے
جس دھوپ کے دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بجھتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لئے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لئے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے ٗ میں ناز اٹھاؤں کس کے لئے
اب شہر میں اس کا بدل نہیں ٗ کوئی ایسا جان غزل نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے ٗگلدان سجاؤں کس کے لئے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا ٗ سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر ٗ اب شمع جلاؤں کس لئے
جب یہ خیالات شدت سے مجھ پر غلبہ پانے لگے تو میں سوچنے لگا کہ اب وہاں
جاؤں جہاں پہلی سی محبتیں اور چاہتیں مل سکیں یہ سوچ کر جان بو جھ کر میں
نے وہ راستہ اختیار کیا جس پر میری ماں کا گھر پڑتا تھا اس گھر اور علاقے
سے مجھے بڑ ی انسیت ہے کیونکہ میری زندگی کے چالیس سال اسی گھر میں گزرے
تھے اس گھر میں میری پیاری ماں کی مہکی مہکی خوشبو رچی بسی ہے مگر اب اس کے
پاس سے گزرتے ہوئے اس لئے وحشت ہونے لگی کہ ماں بھی تمام اہل خانہ سمیت
شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے ملتان گئی ہوئی تھیں
یہی وجہ ہے کہ وہ گھر ویرانہ دکھائی دے رہا تھا جس گھر میں ہر وقت بچوں کی
گہما گہمی اور سرگوشیاں گونجتی تھیں آج وہاں خاموشی کا پہرہ تھا جو مجھے
کاٹنے کو دوڑ رہی تھی -
میں تو پہلے ہی تنکوں کی طرح بکھر چکا تھا اب میری روح بھی تحلیل ہونے لگی
نہایت بیزاری سے موٹر سائیکل چلاتا ہوا گھر پہنچا ٗ دستک پر بیٹے شاہد نے
دروازہ کھولا جس چولہے پر ہمیشہ بیگم ہمارے لئے کھانا تیار کرتی نظر آتی
تھی آج وہ چولہا ویرانی کا وحشت ناک منظر پیش کررہا تھا چار مرلے کے گھر
میں شاہد ہی نظر آیا ٗ باقی ہر طرف سناٹا تھا - بیٹی تسلیم اور چھوٹا بیٹا
زاہد بھی ملتان دیکھنے کے شوق میں اپنی والدہ کے ہمراہ گئے ہوئے تھے جن کی
موجودگی گھر میں رونق کا باعث ہوتی تھی - شاہد جو میرے پاس تھا وہ اپنی ہی
ذات میں گم تھا بے شک اس نے میرے لئے پہلے سے پکائے ہوئے کھانے کا اہتمام
کیا لیکن جتنی محبت سے بیگم مجھے کھانا دیتی اور خود بھی میرے ساتھ بیٹھ کر
کھاتی تھی ٗ آج تنہاکھانا کھاتے وقت اس کی شدید کمی محسوس ہورہی تھی -
میں سوچنے لگا کہ کیا بیگم میرے لئے اتنی اہم ہے کہ اس کے بغیر مجھے اپنا
وجود ہی نامکمل محسوس ہونے لگا ہے یہ کامیابی اس نے کب ٗ کیسے اور کیونکر
حاصل کرلی ٗ جب میں اس کی چاہتوں بھرے ماضی میں جھانکنے لگا تو اس کی
چاہتوں کے سمند ر میں اترتا ہی چلاگیا مجھے اس کی ذات سمندروں کی گہری اور
پہاڑوں سے بلند دکھائی دینے لگی - ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں ٗ ہر
گھنٹے میں 60 منٹ اورہر منٹ میں 60 سیکنڈ اگر بیگم کے ساتھ گزارے ہوئے پچیس
برسوں کا حساب لگایا جائے تو کروڑوں منٹ اور لاکھوں گھنٹے بنتے ہیں -
ظاہر ہے بیگم مجھے کیوں یاد نہ آئے ؟ اس نے ان پچیس برسوں کے دوران قدم قدم
پر میرے لئے بے حد آسانیاں فراہم کیں اور اپنے دکھ بھو ل کر میرے لئے سکھ
پیدا کئے -صبح اٹھوں تو وہ مجھ سے پہلے بیدار ہو کر خود بھی نماز پڑھتی ہے
اور میرے لئے بھی آسانی پیدا کرتی ہے سر پر رکھی جانے والی ٹوپی سے لے کر
مصلی تک مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑاتی ہے - سردیوں میں اگر میں جائے نماز کے
نیچے بھاری چادر یا کھیس بچھانا بھول جاؤں تو اسے اس وقت تک قرار نہیں آتا
جب تک مصلے کے نیچے کچھ بچھا نہ دے - یہ اہتمام وہ اس لئے کرتی ہے کہ فرش
کی ٹھنڈک کہیں مجھے بیمار نہ کردے وہ خود ہر صبح درجنوں چھینکیں مارتی ہے
لیکن میری ایک چھینک بھی اسے پریشان کرنے کے لئے کافی ہے اسے یہ دھڑکا لگا
رہتا ہے کہ اگر میں بیمار ہوگیا تو بچوں کے لئے کون کما کر لائے گا -
اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ گھر کے تما م اخراجات شوہر کی تندرستی
اور توجہ ہی سے پورے ہوتے ہیں وہ 9 بھائیوں کی بہن ہے اس کے بھائی ملازمت
کے لئے بیرون ملک بھی گئے ہوئے ہیں لیکن اس نے کبھی اپنے بھائیوں پر انحصار
نہیں کیا ٗ اس کا کہنا ہے کہ گھر بھائیوں کے بجائے شوہر کی کمائی سے چلتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ اس نے کبھی کسی بھائی سے فرمائش نہیں کی - جب بھی بات ہو
یہی کہتی ہے میرے شوہر کی محنت کا نتیجہ ہے اس نے اسی ملک میں رہ کر بیک
وقت تین تین ملازمتیں کرکے رزق حلال کمایا اور اپنے بچوں کے رہنے کے لئے نہ
صرف گھر بنایا بلکہ دنیا کی ہر خوشی انہیں فراہم کی -
میں سمجھتا ہوں کہ صابر و شاکر بیوی انہی خوبیوں کی حامل ہوتی ہے وگرنہ
مشاہدے میں کئی عورتیں ایسی بھی آئیں جو سسرال میں اپنے میکے کے بارے میں
ڈینگیں مارتی نہیں تھکتیں اور شوہر کی خدمات فراموش کرکے سارا اعزازاپنے
بھائیوں اور والدین کو دے دیتی ہیں - میری بیگم کے بقول جب کوئی عورت ماں
باپ کا گھر چھوڑ دے تو اس کی تمام تر توجہ کا مرکز شوہر کا گھر ہونا چاہیئے
جہاں اس نے زندگی بھر رہنا ہے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی محبت اپنی جگہ
لیکن بیساکھیاں بنا کر زندگی گزارنے والی خواتین ہمیشہ پریشان رہتی ہیں -
ایسی خواتین سے نہ تو شوہر خوش ہوتا ہے اور نہ ہی شادی کے بعد بہن بھائی
اسے اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں -
بہرکیف طلوع آفتاب کے بعد جب میں نماز اور وظائف سے فارغ ہو جاؤں تو بیگم
کی فرمائش پر سیر کرنے جاتا ہوں شادی سے قبل میں چند دوستوں کے ساتھ ہر صبح
سیر کرنے جاتا تھا لیکن جب سے بیگم کا ساتھ میسر آیا ہے دوستوں کا ساتھ
چھوٹ گیا ہے کیونکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ دوستوں کی نسبت بیگم کی رفاقت
سیر کے دوران زیادہ راحت فراہم کرتی ہے دوست اکثر شکوہ کرتے ہیں لیکن میں
انہیں یہ کہہ کر ٹال دیتا ہوں کہ اگر سیر کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ بھی اپنی
بیگمات کے ساتھ لبرٹی پارک میں سیر کے لئے آ جایا کریں
اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سیر کو جانے کے لئے مجھ سے زیادہ بیگم کی
جستجو شامل ہے وہ اگر کوئی کام کرنے کا ارادہ کرلے تو اسے پایہ تکمیل تک
پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے دورا ن سیر وہ درود پاک اور کلمہ طیبہ کا
ورد کرتی ہے اور میں بھی خاموشی سے چلتا ہوا ذکر الہی کرتا رہتا ہوں - جبکہ
دوستوں کے ساتھ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا- ایک آدھ بار عابدہ کے بغیر سیر
کرنے گیا تو وہ لطف نہ آیا جو اس کی موجودگی میں آتا ہے -
ایک دوست ڈاکٹر اظہار احمد خان اکثر یہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ مجھے اپنے
دفتر میں قالین اور کمپیوٹر سے آراستہ کمرہ فراہم کرسکتے ہیں تاکہ میں وہاں
بیٹھ کر کام کرنے کی حامی بھر لوں- کیونکہ ان کے نزدیک میں جس محلے میں
رہتا ہوں وہاں ہر دس منٹ بعد کوئی نہ کوئی چھابڑی فروش صدا لگاتا گزرتا ہے
پھر ہر گھر سے ٹیپ ریکارڈر پر اونچی آواز میں گانے یوں چلائے جاتے ہیں جیسے
کوئی مقابلہ موسیقی ہورہا ہو میرے دوست کے نزدیک تخلیقی کام کرنے والوں کو
اپنے کام کی سرانجام دہی کے لئے جس پر سکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے
میسر نہیں ہے -
میں نے پیش کش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بے شک آپ مجھے اپنے دفتر میں
ایک آراستہ کمرہ دے سکتے ہیں جہاں سکون اور خاموشی میسر ہو ٗ لیکن لکھنے کے
لئے مجھے صرف سکون اور تنہائی کی ضرورت نہیں بلکہ میری تخلیقی قوتوں کے
نکاس کا سبب میری بیگم کی وہ سرگرشیاں ہیں جو میرے کانوں میں ہمیشہ رس
گھولتی رہتی ہیں - اپنی میز پر کام کرتے ہوئے کبھی مجھے اس کی روٹیاں پکانے
کی مدھر آواز راحت پہنچاتی ہے - جس کی مثاکل میں کچھ اس طرح دیا کرتا ہوں
کہ رات کے سناٹے میں دوڑتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ
کھنک اور سوز میرے گھر میں وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بیگم روٹیاں پکانے کے
لئے اپنے ہاتھوں کو آپس میں ٹکراتی ہے - بیگم کا یہ انداز مجھے اتنا متاثر
کرتا ہے کہ میرے وجود کی تخلیقی قوتیں اس مدھر آواز پر مست ہو کر پہلے سے
زیادہ رواں ہو جاتی ہیں -
اسی طرح کسی صحرا میں رات کے وقت اونٹوں کا کوئی قافلہ محو سفر ہو اور
اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو رات کے
سکوت کو توڑتی ہوئی آواز ایک ایسا خوشنما منظر پیش کرتی ہے کہ شاعروں کے دل
بھی شعر کہنے کے لئے مچلنے لگتے ہیں -میری بیگم جب چاول پکاتے ہوئے دیگچے
میں چمچ چلاتی ہے تو اونٹوں کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیوں ( جرس ) جیسی آواز
پیدا ہوتی ہے جو مجھے کسی شاعر کی طرح نئے جذبوں اور نئے ولولوں سے ہمکنار
کرتی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ میں خود لکھتا ہوں تو یہ بات غلط ہے میرا قلم
چلتا ہی اس وقت ہے جب بیگم کی سرگرشیاں اور سرگرمیاں میرے تخلیقی وجدان سے
ٹکراتی ہیں -
ہانڈی پکاتے وقت بیگم اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز رکھتی ہے یہ خوبی اسے
دیگر خواتین سے ممتاز کرتی ہے اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اس کے ہاتھ
کا پکایا ہوا سالن اس سے محبت کرنے والے کھائیں گے یہی وجہ ہے کہ سالن اتنا
خوش ذائقہ ہوتا ہے بنک میں جب میں اپنا توشہ دان کھولتا ہوں تو سارا ماحول
خوشبو سے مہک اٹھتا ہے لوگ متوجہ ہوکر پوچھتے ہیں کہ لودھی صاحب آج بھابی
نے کیا پکا کر بھیجا ہے ؟
مجھے یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ بیگم کے ہاتھ کی پکی ہوئی دال
بھی ذائقے کے اعتبار سے مرغ مسلم سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے میرے دفتر میں
بالخصوص ہمارے وائس پریذیڈنٹ حاجی محمد اسلم نہ صرف بیگم کے ہاتھ کی پکی
ہوئی روٹی کھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہوئے وہ میرے گھر کا
پکا ہوا سالن بھی کھاجاتے ہیں کہ لودھی صاحب کی بیگم کے ہاتھ میں بہت ذائقہ
ہے اور اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی بھی عام روٹیوں سے خوب تر ہوتی ہے
اس پر میں از راہ مذاق کہتا ہوں کہ میری بیگم کا تعلق لکھنو کے ذائقہ دار
گھرانے سے ہے کیونکہ کھانا پکانے میں دہلی اور لکھنو کا نام ہمیشہ پیش پیش
نظر آتا ہے جب میں یہی بات بیگم کو گھر آ کر بتاتا ہوں تو وہ بڑی معصومیت
سے کہتی ہے " میں تو پکی لاہورن ہوں اور نسبت روڈ کے قریب واقع بھارت بلڈنگ
میں پیدا ہوئی ہوں فرق صرف یہ ہے کہ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی ہے
وہاں ایسی ماں موجود تھی جس نے مجھے اتنی اچھی تربیت دی کہ میں زندگی کے
تمام شعبوں میں کبھی ناکام نہیں ہوئی -
بیگم اپنی بات بڑھاتے ہوئے مزید کہتی ہے کہ " یہ معرکہ کیا کم ہے کہ میں نے
اپنے تمام بہن بھائیوں کے برعکس ایسے گھرانے میں زندگی کا بڑا حصہ نہایت
کامیابی سے گزار لیا جس کا رہن سہن ٗ ثقافت و تہذیب اور زبان یکسر مختلف
تھی " عابدہ کے بقول اس نے اپنے باپ کے کئے گئے اس فیصلے کی لاج اپنی محنت
ٗ جانفشانی اور ایثار سے رکھ لی اور اسی جذبے کی بدولت وہ سب بہن بھائیوں
سے بہتر زندگی گزار رہی ہے -
میں یہاں شادی کے فورا بعد رونما ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری
سمجھتا ہوں- " جب بیگم میرے پاس ہوتی تو میری زبان پر بے ساختہ خوشیوں کے
گیت رواں ہوجاتے اور میں گھر میں چلتے پھرتے حتی کہ غسل خانے میں نہاتے
ہوئے بھی گاتا رہتا بلند آواز میں گائے جانے والے ان گیتوں کی آواز نہ صرف
میرے گھر کے سبھی لوگوں تک پہنچتی بلکہ پڑوسی بھی میرے گیتوں سے محظوظ ہوتے
جونہی عابدہ اپنے میکے چلی جاتی تو حیرت انگیز طور پر میرے گیت بھی ساتھ لے
جاتی - کوشش کے باوجود میں گانے سے قاصر رہتا - خاموشی محسوس کرکے ایک دن
پڑوسن خالہ صغراں ہمارے گھر آئی اور ماں سے پوچھنے لگی کہ کیا عابدہ میکے
گئی ہوئی ہے ؟ ماں نے پوچھا کہ تمہیں اس بات کا کیسے پتا چلا ؟ پڑوسن خالہ
نے کہا کہ کئی دنوں سے اسلم کے گیتوں کی آواز نہیں سنی -اس کی خاموشی اس
بات کا پتہ دیتی ہے کہ بیگم کے جانے کے بعد اس کے ہونٹ تو خاموش ہیں ہی ٗ
دل بھی غمگین ہے -
کبھی میں سوچتا ہوں کہ بہت سے لوگ شادی سے پہلے محبت کے بلند بانگ دعوے
کرتے ہی اور ایک دوسرے پر مرمٹنے کی قسمیں کھاتے ہیں پھر شادی کے بعد ایسے
کئی لوگوں کی محبت پر اوس پڑ جاتی ہے لیکن لوگ شاد ی سے پہلے جس والہانہ
محبت کا اظہار کرتے ہیں وہ مجھے شادی کے بعد حاصل ہوئی یہ مقام حاصل کرنے
میں ہر سطح پر بیگم کی قربانیوں کا دخل ہے -
چھٹی کے دن میری اولین خواہش ہوتی ہے کہ میرا زیادہ سے زیادہ وقت بیگم اور
بچوں کے ساتھ گزرے - سردیوں میں دھوپ میں اس کے ساتھ بیٹھ کر کینو کھانے کا
مزہ ہی کچھ اور ہے دوپہر کا کھانا بھی اکٹھے کھاتے ہیں لیکن شام سے پہلے ہم
اپنی ایک عظیم محبت گاہ کی طرف اکٹھے سفر کرتے ہیں جس کا نام ( ماں کا گھر
) ہے ماں ہم دونوں کو اکٹھے دیکھ کر اتنا
خوش ہوتی ہے کہ سارے دن کی تھکاوٹ بھو ل جاتی ہے -
سچ تو یہ ہے کہ عابدہ کا کردار میری زندگی میں اتنا اہم بن چکا ہے کہ اب اس
کے بغیر میں زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا - رات کو نیند سے بیدار
ہو کر وہ مجھ سمیت سب بچوں پر کمبل یا حسب ضرورت چادر اوڑھاتی ہے اسے یہ
فکر سونے نہیں دیتی کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی کو سردی نہ لگ جائے یا گرمیوں
میں مچھروں کی وجہ سے نیند نہ خراب ہوجائے - گھر میں رہتے ہوئے میرا کام
صرف کھانا اور سونا رہ جاتا ہے باقی تمام ذمہ داریاں بیگم نے سنبھال رکھی
ہیں - رات کے وقت اگر فون کی گھنٹی بجے تو بیگم میرے سکھ چین کو خلل سے
بچانے کے لئے تیزی سے خود اٹھتی ہے اور فون سننے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر
اسے دیر تک نیند نہیں آتی - کئی بار وہ مجھ سے شکوہ کرتی ہے کہ لوگوں کو
رات کے وقت بھی سکون نہیں آتا خود تو چمگادڑوں کی طرح جاگتے ہیں دوسروں کو
بھی سونے نہیں دیتے -
بیگم کی سب سے اہم اور بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہرحال میں میرے ساتھ خوش ہے
ہماری زندگی میں آٹھ دس سال ایسے بھی آئے کہ گھر میں آٹا اور سبزی خریدنے
کے لئے بھی پیسے نہیں تھے 23 مارچ 1985 کو جب گھر میں سب سے چھوٹا بیٹا
زائد پیدا ہوا تو زچہ کو گرمائش پہنچانے کے لئے دائی نے لکڑیوں کے بجھے
ہوئے کوئلے مانگے - تو کوئلے خریدنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں تھے بیگم کی
والدہ نے وہ بھی اپنی جیب سے منگوائے -
ماں باپ سے علیحدگی کے بعد اپنے گھر کی تعمیر تک ہم دونوں نے پیٹ پر پتھر
باندھ کر گزارہ کیا - میں تو مرد تھا لیکن اس نے عورت ہوتے ہوئے بھی کوئی
شکوہ نہ
کیا جب اس کے بہن بھائی بہترین کپڑے پہنتے اور شادی بیاہ میں شاہ خرچی کرتے
لیکن احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے بیگم میری مالی حیثیت سامنے رکھ کر
زندگی کا ہر فیصلہ کرتی - میں سمجھتا ہوں آج اگر ہم اپنے گھر کے مالک ہیں
اور ضرورت کی ہر چیز ہمارے پاس موجود ہے تو اس کی بڑی وجہ بیگم کا وہ بے
لوث تعاون ہے جو اس نے اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشکل دنوں
میں میرے ساتھ کیا - آـج اپنی بے لوث قربانیوں کی بدولت معاشی خوشحالی کے
اعتبار سے بیگم اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے بڑھ کر ہے جو لوگ اپنی
دولت کھانے پینے ٗ سیرسپاٹے اور فلم بینی پر اجاڑتے رہے آج ان کی پریشانی
دیکھی نہیں جاتی - عابدہ کی زندگی ایسے بے وقوف لوگوں کے لئے کھلی کتاب ہے
جس سے جو جتنا چاہے استفادہ کرسکتا ہے -
عابدہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کچھ برس سے بلڈپریشر ( فشار خون ) اور
الرجی ( حساسیت ) میں مبتلا ہے جب بلڈپریشر بڑھ جائے تو اسے رات بھر نیند
نہیں آتی - جب الرجی عروج پر ہو تو چھینکیں اس کے سانس کے نظام کو درہم
برہم کردیتی ہیں ان تمام بیماریوں اور پریشانیوں کے باوجود عابدہ نے مجھے
کبھی پریشان نہیں کیا - اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ مجھے صبح دفتر
جاکر مسلسل 9 گھنٹے کام کرنا ہے اگر میں رات نیند پوری نہ کرسکا تو اس کا
اثر میری دفتر ی کارکردگی پر پڑے گا یہ سوچ کر وہ اپنے دکھ اور پریشانیاں
اپنی ذات تک محدود رکھتی ہے -
اس کے باوجود کہ وہ رات جاگ کر گزارتی ہے اگلی صبح بیماری بھول کر میرے لئے
ناشتا بنانے میں مشغول ہوجاتی ہے برتن دھونے کے بعد وہ چولہے کے نزدیک یا
برآمدے میں چٹائی بچھاتی اور وہاں شیو کا سامان قرینے سے سجاتی ہے شیو کرنے
کے بعد جب میں فارغ ہوجاؤں تو میر ے لئے ایک روٹی پکاتی ہے میں نے اسے کہہ
رکھاہے کہ موٹاپے سے بچنے کے لئے ناشتے میں صرف ایک روٹی کھاؤں گا وہ بڑی
معصومیت سے کہتی ہے ڈاکٹر بو بلاوجہ ہر کسی کو ڈراتے رہتے ہیں بھلا کوئی
روٹی کھانے سے بھی موٹا ہوتا ہے ؟ ڈاکٹر بھی عجیب ہیں کولیسٹرول کی زیادتی
سے خوف زدہ کرکے خدا کی نعمتوں کو حرام قرار دے دیتے ہیں اگر ڈاکٹروں کی
بات مان بھی لی جائے تو کیا انسان کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے ؟ میری تسلی
کے لئے وہ اکثر کہاکرتی ہے کہ کھانے پینے سے کوئی نہیں مرتا اور جو رات قبر
میں آنی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا -
حالانکہ بیگم خود بھی بلڈپریشر کی مریض ہے اور اکثر و بیشتر اس کا بلڈ
پریشر شوٹ کرجاتا ہے جب میں اسے قریبی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں تو وہ
اس کی وین میں ٹیکہ لگا کر بلڈپریشر کنٹرو ل کرتا ہے ڈاکٹر اکثر بیگم
کونصیحت بھرے لہجے میں از راہ مذاق کہتا ہے کہ آپ سفر نہ کیاکریں اور نہ
کسی شادی بیاہ یا مرگ میں جایا کریں کیونکہ آپ کی طبعیت شور شرابے ٗ ہلے
گلے اور رونے دھونے کو برداشت نہیں کرتی اور اگر کہیں جانا بہت ضروری ہو تو
مجھے بھی بحیثیت ڈاکٹر ساتھ لے جایا کریں اس پر بیگم مسکرا دیتی ہے لیکن اس
نے کبھی نمک ملا سالن کھانے سے انکار نہیں کیا اگرچہ میں ٹوکتے ہوئے ڈاکٹر
کی نصیحت یاد کروا دیتا ہوں لیکن وہ یہ کہہ کر خاموشی سے کھانے میں مصروف
ہوجاتی ہے کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا -
چند سال پہلے الرجی کے مرض نے اسے نڈھال کررکھا تھا بہت علاج کرانے کے بعد
جب افاقہ نہ ہوا تو مجھے اسے لے کر ورلڈ ہیلتھ سنٹر ( الرجی سنٹر ) اسلام
آباد جانا پڑا - تشخیص کے بعد اسے ویکسین دے دی گئی ہے ڈاکٹر نے ویکسین
تجویز کرتے وقت یہ نصیحت کی تھی کہ بڑا گوشت اور چاول ہرگز نہ کھائیں بیگم
نے ڈاکٹر کے روبرو نہایت ادب سے حامی بھر لی اور ڈاکٹر کی نصیحت پر
عیدالاضحی سے پہلے کسی حد تک عمل بھی کیا لیکن جب عیدالاضحی پر اپنے سمیت
تمام گھروں میں بڑا گوشت ہی پکا تو عابدہ سے رہا نہ گیا اس نے یہ کہہ کر
بڑا گوشت کھالیا کہ کبھی کبھار کھانے سے فرق نہیں پڑتا ویسے بھی نصیحت کرنے
والے ڈاکٹر اسے کب دیکھ رہے ہیں جب بھی وہ ڈاکٹر کی نصیحت کی خلاف ورزی
کرتی ہے تو میں ایک
لمحے کے لئے اسے یاد ضرور کروا دیتا ہوں لیکن یاد کرانے کے باوجود کرتی وہ
اپنی ہی مرضی ہے -
بہرکیف یہ تو وہ باتیں ہیں جو کسی بھی مرض کا شکار مریضہ اکثر و بیشتر کرتا
رہتا ہے کہنے کی بات تو یہ ہے کہ جب صبح سویرے وہ مجھے دفتر کے لئے روانہ
کرتی ہے تو مجھے دور تک نہ صرف جاتا ہوا دیکھتی رہتی ہے بلکہ اپنی
مسکراہٹوں سے ہمیشہ مجھے الوداع کہتی ہے میں نے اکثر یہ بات اس کی زبان سے
سنی ہے کہ شوہر جب گھر سے باہر کمانے کے لئے جاتا ہے تو اس کا ذہن گھر سے
مطمئن اور پرسکون ہونا چاہیئے کیونکہ انسان کو ذریعہ معاش میں کتنی ہی
دقتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر گھر کے معاملات ہی ذہن پر
سوار رہیں تو دفتر میں کام پوری دلجمعی سے نہیں کیا جاسکتا بہرکیف اس کا یہ
فلسفہ غلط بھی نہیں ہے -
جونہی شام کو میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میرا
استقبال کرتا ہے اکثر اوقات وہ بچوں کو بھی لڑنے جھگڑنے سے منع کرتی ہے کہ
باپ تھکا ماندہ گھر آیا ہے اس کے لئے بچوں کا لڑائی جھگڑا ناگوار گزر ے گا
اس نے بچوں کو یہ بھی تاکید کررکھی ہے کہ گھر میں آتے ہی باپ کو بجلی ٗ گیس
یا ٹیلی فون کا بل نہ دکھایا جائے کیونکہ بلوں کی رقم اکثر انسانوں کو
پریشان کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ڈاکٹر مریضوں کو بے ہوش کرنے کے لئے
دوائی نہیں دیتے بلکہ کوئی نہ کوئی بل دکھا دیتے ہیں جس سے مریض بے ہوش
ہوجاتا ہے - میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بیویوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے- گھر آنے
کے بعد شام گئے تک وہ کبھی میرے لئے کھانا تیار کرتی ہے کبھی زبردست چائے
بنا کر پلاتی ہے اور میرے ساتھ خود بھی پیتی ہے اور رات کو سونے سے پہلے اس
کی وجہ سے دودھ کا گلاس مجھے تیار ملتا ہے -جب یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو مجھے
وہ یاد آتی ہے اور اس کی کمی مجھے شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے -
اس کو ایک شکوہ مجھ سے ضرور ہے کہ اگر اس کے سونے سے پہلے میں سو جاؤں تو
میرے خراٹے اسے نیند میں اترنے نہیں دیتے بہت دیر تک برداشت کرنے کے بعد جب
وہ خود کو بے بس محسوس کرتی ہے تو ہاتھوں کی جنبش سے مجھے ہلا کر اس سے لئے
جگا دیتی ہے کہ اس طرح کچھ دیر کے لئے میرے خراٹے بند ہوں گے اور جب تک میں
دوبارہ خراٹوں کا سلسل شروع کروں گا اس وقت تک اسے بھی نیند آچکی ہوگی
دروازوں پر تالے لگانے سے پانی والی ٹینکی بھرنے تک ہر ذمہ داری اس نے اپنے
سر پر لے رکھی ہے اگر کبھی وہ موٹر چلا کر مجھے یہ کہہ دیتی ہے کہ ٹینکی
بھر جائے توموٹر بند کردینا یا تو میں اکثر بھو ل جاتا ہوں اور اگر یاد رہے
تو انتظار کا ایک ایک لمحہ میرے لئے اذیت بن جاتی ہے لیکن اس کو اب اتنا
تجربہ ہوچکا ہے کہ ٹینکی بھرنے کا اسے خود بخود پتہ چل جاتا ہے -
شاید اس نے میر ے لئے گزشتہ پچیس سالوں سے جو اتنی ساری آسانیاں پیدا
کررکھی ہیں اس کی وجہ سے ہی وہ مجھے اپنے وجود کا حصہ دکھائی دیتی ہے اس
جدائی سے پہلے میرا یہ خیال نہیں تھا کیونکہ میں نے کبھی خود کو اس کسوٹی
پر پرکھا نہیں تھا لیکن یہ تین دن جو تین صدیوں پر محیط دکھائی دیتے ہیں ان
کے بعد اس کی ایک ایک خدمت میرے لئے سندکا درجہ حاصل کرچکی ہے اس کی وفائیں
میرے دل میں پیوست ہوچکی ہیں میرے دوست افتخار مجاز نے کیا خوب کہا ہے کہ
اگر مائیں اپنی اولاد پر جان نچھاور کرتی ہیں تو اچھی او رنیک سیرت بیویاں
بھی اپنی وفاؤں سے شوہروں کو نئی زندگی اور توانائی عطا کرتی ہیں بے شک
میری بیوی بھی ایسی ہی نیک سیرت بیویوں جیسی ہے جس کی تمام تر توجہ کا مرکز
صرف اور صرف میں ہوں اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں صرف میری ہی تصویر بسی
ہوئی ہے جس کا مشاہدہ میں ہر روز اور ہر لمحے بذات خود کرتا رہتا ہوں میری
دعا ہے کہ اس کی یہ رفاقت زندگی کی شام ہونے تک مجھے یونہی حاصل رہے - |