اعلانِ من کنت مولا فھذا علی مولا واقعہ خم غدیر پر ایک نظر-حصہ اول

 ہجرت کا دسواں سال تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور دیا کہ مدینہ اور اسکے اطراف قبائل میں اعلان کروایا جائے کہ اس سال نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی حج ادا کرنے مکہ جائیں گے۔ اس اعلان نے مسلمانوں کے دلوں کو شوق اور جذبے سے لبریز کر دیا اور ہزاروں افراد مدینہ کے اطراف خیمے لگا کر حج کی خاطر پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفر کیلئے نکلنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ انکے ساتھ اس عظیم اجتماعی اور سیاسی عبادت میں شرکت کر سکیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 26 ذی القعدہ کو 60 قربانیوں کے ہمراہ مدینہ کو ترک کیا۔ ذو الحلیفہ پہنچنے پر مسجد شجرہ میں احرام باندھا اور 4 ذی الحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ اس دوران امیرالمومنین علی علیہ السلام یمن میں تھے۔ وہ بھی اس خبر سے آگاہ ہو گئے کہ اس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حج میں شرکت فرما رہے ہیں۔ لہذا وہ بھی حج کی نیت سے مکہ کی طرف عازم ہو گئے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام بھی اپنے ہمراہ 34 قربانیاں لئے ہوئے تھے۔ مکہ پہنچنے پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکا استقبال کیا اور پوچھا کہ "یا علیؑ آپ نے حج کی نیت کس طرح سے کی ہے" امیرالمومنین علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی نیت کے مطابق نیت کی ہے اور کہا ہے "اللھم اھلالا کاھلال نبیک" پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ پس آپ بھی جب تک قربانی انجام نہیں دیتے اپنے احرام پر باقی رہیں۔ سب مسلمانوں نے عمرہ انجام دیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور دیا کہ مکہ سے باہر ان کیلئے ایک خیمہ لگایا جائے۔ 8 ذی الحج کا دن تھا۔ تمام مسلمان عرفات کی جانب گامزن تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس دن جو "یوم ترویہ" کہلاتا ہے، منیٰ کے ذریعے عرفات کی طرف چل پڑے۔ آپ 9 ذی الحج کی صبح تک منیٰ میں تھے۔ وہاں سے عرفات کی طرف چلے اور نمرہ نامی جگہ پر جہاں آپﷺ کیلئے ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا قیام کیا۔

حجة الوداع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تاریخی خطاب
9 ذی الحج جو "یوم عرفہ" کے نام سے مشہور ہے عرفات میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان موجود تھے جنہوں نے ظہر اور عصر کی نماز آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں ادا کی۔ اسکے بعد نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے سب کو یہ افسوسناک خبر دی کہ یہ انکا آخری سال ہے اور وہ دعوت حق کو لبیک کہنے والے ہیں۔ اسی طرح اس خطبے میں آپ نے اسلام کے بنیادی اصول اور تعلیمات کی طرف اشارہ کیا۔ تمام مسلمانوں کو اسلامی برادری اور بھائی چارے، مساوات، عدالت، ایکدوسرے کےساتھ مہربانی، شیطان کی پیروی سے پرہیز، خواتین کا احترام اور انکے حقوق کی رعایت اور جاہلیت کے زمانے کے عقائد کو ترک کرنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یوم عرفہ کے غروب تک عرفات میں قیام پذیر تھے۔ جب سورج نظروں سے اوجھل ہو گیا اور کچھ حد تک تاریکی چھا گئی تو آپ نے وہاں سے کوچ کیا اور رات کا کچھ حصہ مزدلفہ میں گذارا۔ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک کا وقت مشعر میں رہے اور 10 ذی الحجہ کو منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے وہاں پر آپﷺ نے رمی جمرات، قربانی اور تقصیر انجام دی اور حج کے باقی اعمال انجام دینے کیلئے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ احادیث اور تاریخ کی بعض روایات میں اس تاریخی سفر کو "حج وداع" یا "حج بلاغ" یا "حج اسلام" کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اکثر مورخین کی رائے میں یہ خطبہ 9 ذی الحجہ کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دیا گیا لیکن بعض مورخین کی نظر میں یہ خطبہ 10 ذی الحجہ کے دن دیا گیا۔

دین کی تکمیل:
شیعہ علماء کی نظر میں خلافت ایک خدائی عہدہ ہے جو خداوند عالم کی طرف سے قوم کے بافضیلت، لائق اور دانا ترین فرد کو عطا کیا جاتا ہے۔ نبی اور امام کے درمیان واضح ترین فرق یہ ہے کہ نبی شریعت کا بانی، وحی الٰہی کا مخاطب اور کتاب اللہ رکھنے والا ہے جبکہ امام اگرچہ ان میں سے کسی چیز کا حامل نہیں لیکن حکومت اور زمامداری کے علاوہ دستورات خداوندی کے اس حصے کو بیان کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے جسکو پیغمبر مناسب فرصت کے نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کر سکے ۔لہٰذا مکتب تشیع کے نزدیک خلیفہ نہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا زمامدار ہے بلکہ قوانین کا اجراءکرنے والا، حقوق کا محافظ اور ملکی سرحدوں کا نگہبان بھی ہے۔ اسکے علاوہ مذہب کے مشکل اور پیچیدہ نکات کو واضح کرنے والا اور ان دستورات اور قوانین کی تکمیل کرنے والا بھی ہے جو کسی بھی وجہ سے مذہب کا بانی بیان نہیں کر پایا۔

اہل سنت کی نظر میں خلافت ایک معمولی اور عام عہدہ ہے جسکا مقصد مسلمانوں کے دنیوی اور ظاہری مسائل کو حل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس نگاہ کے مطابق خلیفہ وقت عمومی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی، عدالتی اور اقتصادی امور کو چلانے کیلئے منتخب کیا جاتا ہے اور ایسے اسلامی دستورات جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئے کو بیان کرنے کی ذمہ داری مسلمان علماءاور دانشوروں پر ہے۔ یہ علماءاور دانشور ان مسائل کو اجتہاد کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ خلافت کی حقیقت کے بارے میں ان دو مختلف نگاہوں کی بنیاد پر مسلمانوں میں دو بڑے فرقے وجود میں آئے جنکے درمیان اختلافات آج تک باقی ہیں۔ پہلی نگاہ کے مطابق جو اہل تشیع سے مربوط ہے امام کچھ حیثیتوں میں پیغمبر کے ساتھ شریک ہے۔ لہٰذا جو شرائط پیغمبری کیلئے ضروری ہیں وہ امامت کیلئے بھی ضروری ہیں۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔ پیغمبر کا معصوم ہونا ضروری ہے، یعنی اپنی پوری زندگی میں وہ کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو اور اسلامی دستورات کو بیان کرنے اور لوگوں کے مذہبی سوالات کا جواب دینے میں بھی کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو،
۲۔ پیغمبر کو شریعت کے علم کے حوالے سے قوم کا دانا ترین فرد ہونا چاہئے اور دین کا کوئی نکتہ اسکی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے۔ امام بھی چونکہ دین یا شریعت کے اس حصے کی جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں کیا گیا تکمیل اور اسکو بیان کرنے والا ہے، لہٰذا دینی مسائل اور دستورات کی نسبت سب سے زیادہ عالم ہونا چاہئے۔
۳۔ نبوت ایک انتصابی عہدہ ہے نہ انتخابی۔ پیغمبر کو خدا مشخص کرتا ہے اور اسے نبوت کا عہدہ عطا کرتا ہے کیونکہ صرف خدا ہے جو یہ پہچان حاصل کر سکتا ہے کہ کون شخص معصوم ہے اور کون شخص معصوم نہیں ہے۔ صرف خدا اسکو پہچانتا ہے کیونکہ وہ خدا کی غیبی عنایات کی روشنی میں عصمت کے درجے تک پہنچ پایا ہے۔ امامت میں بھی چونکہ عصمت شرط ہے لہٰذا امام کو بھی صرف خدا ہی مشخص کر سکتا ہے اور اسکو اس عہدے پر نصب کر سکتا ہے۔ پس امامت بھی انتصابی ہے نہ انتخابی۔

اہل سنت کی نظر میں ان میں سے کوئی بھی شرط امام میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ نہ عصمت، نہ عدالت، نہ علم، نہ شریعت پر اسکا احاطہ اور نہ عالم غیب سے اسکا رابطہ۔ بلکہ اسکا اس قابل ہونا کافی ہے کہ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں اور مسلمانوں سے مشورے کی مدد سے اسلام کی عظمت کی حفاظت کر سکے اور قوانین کے اجراءسے خطے کی سلامتی کو قائم رکھ سکے اور جہاد کی طرف دعوت کے ذریعے اسلامی سرزمین کو مزید وسعت ” دے سکے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں۔ میں ان پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اے لوگو، من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ، و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار"۔ “ دے سکے۔
جانشینی پیغمبر ص انتصابی ہونی چاہئے یا انتخابی:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام ایک عالمی اور آخری دین ہے۔ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ تھے لوگوں کی رہبری اور رہنمائی انکے کندھوں پر تھی۔ آپ کی وفات کے بعد قوم کی رہبری ایسے فرد کو ملنی چاہئے جو سب سے زیادہ امامت اور خلافت کے عہدے کیلئے لیاقت اور شائستگی رکھتا ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کریں تاکہ اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آیا امامت یا خلافت ایسے شخص کو ملنی چاہئے تھی جسکو خدا نے اس عہدے پر فائز کیا تھا یا ایسے شخص کو ملنی چاہئے تھی جسکا لوگوں نے اس عہدے کیلئے انتخاب کیا تھا؟۔ اسلام کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو مدنظر رکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالات کی پیش نظر خدا کا خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انکا جانشین مشخص کرنا ہی بہتر تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف اسلامی معاشرہ روم، ایران اور اندرونی منافقین کی منحوس مثلث کی طرف سے ہمیشہ جنگ، اندرونی اختلافات اور فتنہ گری کے شدید خطرے سے روبرو تھا اور دوسری طرف قومی مصلحت کا تقاضا بھی یہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک سیاسی لیڈر کو مشخص کر کے ساری قوم کو بیرونی دشمن کے سامنے ایک صف میں متحد کر دیں اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کے ذریعے دشمن کے نفوذ کا راستہ بند کر دیں۔

الف)۔ روم کی سلطنت: اس منحوس مثلث کا ایک ضلع روم کی سلطنت تھی۔ یہ بڑی طاقت جزیرة العرب کے شمال میں واقع تھی اور ہمیشہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ کا مرکز رہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری دم تک روم کے حوالے سے پریشانی کا شکار تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ رومیوں کی پہلی جنگ 8 ہجری میں پیش آئی۔ اس جنگ میں اسلام کے تین اعلی کمانڈرز جعفر طیار، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گئے۔ سپاہ کفر کے مقابلے میں لشکر اسلامی کی عقب نشینی انکی جرات کا باعث بنی اور ہر لحظہ یہ خطرہ موجود تھا کہ روم اسلامی مرکز یعنی مدینہ منورہ پر حملہ ور ہو جائے۔ اسی بات کے مدنظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 9 ہجری میں ایک عظیم لشکر لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے جس میں مسلمانوں نے سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ روز قبل ہی اسامہ کی کمانڈ میں ایک لشکر ترتیب دیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ شام کی طرف روانہ ہوں۔

ب)۔ ایران کی سلطنت: ایران کی سلطنت اس منحوس مثلث کا دوسرا ضلع تھی۔ ایرانی حکمرانوں کی دشمنی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حاکم وقت خسرو پرویز نے غصے کی شدت سے پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نامہ مبارک پھاڑ دیا اور آپ کے بھیجے ہوئے سفیر کو توہین آمیز انداز میں باہر نکال دیا اور یمن کے والی کو خط لکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نعوذ باللہ گرفتار کر کے اسکے سامنے پیش کرے اور مزاحمت کی صورت میں انہیں قتل کر دے۔

ج)۔ اندرونی منافقین: اسلام اور اسلامی معاشرے کو درپیش تیسرا خطرہ انکے اندر موجود منافقین کا ٹولہ تھا جو بظاہر تو مسلمان ہونے کا اظہار کرتے تھے لیکن انکے دل اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کینہ و عداوت سے مالا مال تھے۔ انہی کے بارے میں خدا کی طرف سے ایک مکمل سورہ نازل ہوئی جو "سورہ توبہ" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسلام ہمیشہ اس ٹولے کی طرف سے خطرے سے روبرو رہا ہے حتیٰ کہ اس ٹولے نے کئی بار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی کوشش کی جسکی ایک مثال تبوک سے مدینہ واپس آتے ہوئے نبی اکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قاتلانہ حملہ ہے۔ یہ افراد سمجھتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر کے وہ اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔ کیا ان تمام دشمنوں کی موجودگی میں صحیح تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک نئے وجود میں آنے والے اسلامی معاشرے کیلئے اپنا دینی اور سیاسی جانشین مقرر نہ کرتے؟۔ عقل کا تقاضا تھا کہ نبی مکرم اسلام اسلامی معاشرے کیلئے ایک رہبر اور زمامدار کومتعین کر کے ہر قسم کے اختلاف کی روک تھام کرتے اور اسلامی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے۔ ان دلائل کے علاوہ ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے جاری ہوئی ہیں اور اہل تشیع اور اہل سنت کے نزدیک صحیح اور یقینی ہیں اور ان میں واضح انداز میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت کے دوران کئی بار اپنے وصی اور جانشین کو مشخص فرمایا اور امامت کو انتخاب اور عوامی رائے سے مبرا کیا۔ انہوں نے نہ فقط اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنے جانشین کو مشخص فرمایا بلکہ اپنی رسالت کے آغاز پر ہی جب مسلمانوں کی تعداد سو سے بھی کم تھی اپنے وصی اور جانشین کا اعلان فرما دیا۔ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف خدا کی طرف سے دستور آیا کہ اپنی عزیز و اقارب کو اسلام کی دعوت فرمائیں۔ آپ نے بنی ہاشم کے 45 سربراہوں کو اپنے گھر جمع کیا اور فرمایا "آپ لوگوں میں سے جو بھی میری دعوت کو سب سے پہلے قبول کرے گا میرا بھائی، وصی اور جانشین قرار پائے گا"۔ جو فرد سب سے پہلے اٹھا اور آپ کی آواز پر لبیک کہی وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت تھی۔ نبی مکرم اسلام نے تمام حاضر افراد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "یہ جوان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے"۔ اس حدیث کو مورخین اور محدثین کے نزدیک "حدیث یوم الدار" اور "حدیث بدﺅ الدعوة“ کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں مختلف مقامات پر، سفر اور حضر میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی کو واضح طور پر بیان فرمایا لیکن ان تمام احادیث میں سب سے زیادہ واضح، باعظمت اور دو ٹوک حدیث "حدیث غدیر" ہے۔

جاری۔۔۔۔قارئین کرام آپ کی آراءباعث رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122449 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More