حج کے ایام ختم ہو چکے تھے۔
مسلمان نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حج کے اعمال سیکھ چکے
تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ واپس جانے کا فیصلہ کر
لیا اور روانہ ہو گئے۔ جب آپ کا کاروان جحفہ سے تین میل دور "رابغ" کی
سرزمین پر پہنچا تو وہاں پر موجود خطے "غدیر خم" کے مقام پر جبرئیل امین
نازل ہوئے اور خدا کا یہ پیغام پہنچایا "اے رسول، وہ پیغام جو تم پر خدا کی
طرف سے نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو، اور اگر تم نے اسے لوگوں تک نہ
پہنچایا تو گویا خدا کی رسالت کو انجام نہیں دیا، اور خدا تمہیں لوگوں کے
شر سے محفوظ رکھے گا۔ خدا کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا"۔ (سورہ مائدہ،
آیہ 67)۔
اس آیہ شریفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے انتہائی اہم کام پیغمبر اکرم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپرد کیا تھا جو انجام نہ پانے کی صورت میں آپ کی
مکمل رسالت ہی انجام تک نہ پہنچ پاتی اور بے نتیجہ ہو جاتی۔ ایسا اہم کام
ایک لاکھ حاجیوں کے سامنے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت
کے اعلان کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا؟۔ لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے سب کو رک جانے کا حکم دیا جو افراد آپ کے کاروان سے آگے نکل
چکے تھے انکو واپس بلایا گیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا۔
ظہر کا وقت تھا اور شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ لوگوں نے اپنی عبا کے ایک حصے کو
سر پر اور دوسرے حصے کو اپنے پاوں کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے درخت پر چادر ڈال کر سایہ فراہم کیا گیا تھا۔
سب افراد نے ظہر کی نماز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت
میں ادا کی۔ نماز کے بعد تمام افراد دائرے کی شکل میں رسول خدا صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور آپ کیلئے اونٹوں کی پالانوں سے ایک
منبر بنایا گیا۔ آپ اس منبر پر تشریف لے گئے اور اونچی آواز میں لوگوں سے
خطاب فرمایا۔
غدیر خم کے مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ:
"حمد و ثنا خداوند عالم کےساتھ مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی
پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اور برے کاموں
سے اسی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ وہ خدا جسکے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور
رہنما نہیں ہے۔ جسکو وہ ہدایت دے اسکو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ میں گواہی
دیتا ہوں کہ اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ص اسکا بندہ اور رسول ہے۔
اے لوگو، میں جلد ہی دعوت حق کو لبیک کہنے والا ہوں اور آپ کے درمیان سے
جانے والا ہوں۔ میں مسﺅل ہوں اور آپ لوگ بھی مسﺅل ہیں۔ آپ لوگ میرے بارے
میں کیا سوچتے ہیں"۔ اس موقع پر سب کی طرف سے آواز بلند ہوئی کہ "ہم گواہی
دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور پوری کوشش کی۔ خدا آپ کو
اسکا اجر عطا فرمائے"۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "کیا آپ لوگ گواہی دیتے
ہیں کہ دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد ص اسکا بندہ اور رسول ہے اور بہشت و
دوزخ اور اگلے جہان میں ہمیشہ کی زندگی میں کسی قسم کا شک موجود نہیں ہے"۔
سب نے کہا جی ہاں یہ صحیح ہے اور ہم سب گواہی دیتے ہیں۔ اسکے بعد پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "میں آپ لوگوں میں دو گرانقدر
چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، آپ لوگ انکے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے"۔ اسی دوران
ایک شخص کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں پوچھا کہ وہ دو چیزیں کیا ہیں؟۔ رسول
خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "ایک خدا کی کتاب جسکی ایک طرف خدا
کے ہاتھ میں اور دوسری طرف آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اور دوسری چیز میرے
اہلبیت اور گھر والے ہیں۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی بھی
ایکدوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔ اے لوگو، میرے اہلبیت سے آگے نہ بڑھنا اور
دونوں پر عمل کرنے میں کوتاہی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے"۔ اس وقت پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ہاتھ
تھاما اور اسقدر اوپر کھینچا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو گئی اور
فرمایا "مومنین پر خود ان سے زیادہ حقدار کون ہے؟"۔ سب نے جواب دیا خدا اور
اسکا پیغمبر۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "خدا میرا مولا
اور میں مومنین کا مولا ہوں۔ میں ان پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اے
لوگو، من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و
احب من احبہ، و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ
حیث دار"۔
"جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے اس جملے کو تین بار دہرایا)، خدایا، جو بھی علی سے دوستی کرے تو اس
سے دوستی کر اور جو بھی علی سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر جو بھی علی سے
محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو بھی علی سے بغض و عداوت رکھے تو بھی اس
سے بغض و عداوت رکھ، جو اسکی مدد کرے تو بھی اسکی مدد کر جو علی کو ذلیل
کرے تو بھی اسکو ذلیل کر جہاں بھی علی جائے حق کو اسکے پیچھے پھیر دے"۔
” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام
کا ہاتھ تھاما اور اسقدر اوپر کھینچا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو
گئی اور فرمایا "مومنین پر خود ان سے زیادہ حقدار کون ہے؟"۔ سب نے جواب دیا
خدا اور اسکا پیغمبر۔ “
اسکے بعد آپ نے فرمایا "اے لوگو، ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے ہیں اور خدا
کی طرف سے یہ پیغام میرے لئے لائے ہیں "آج کے دن میں نے تم لوگوں کا دین
کامل کر دیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمت کو تمام کر دیا اور تمہارے لئے
اسلام کو دین کے طور پر انتخاب کر لیا"(سورہ مائدہ، آیہ 3)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس موقع پر اونچی آواز میں اللہ
اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا "خدا کا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور
اپنی نعمت کو تمام کر دیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی خلافت اور
جانشینی سے راضی ہو گیا"۔ اسکے بعد نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کو فرمایا
کہ اپنے خیمے میں بیٹھ جائیں تاکہ مختلف قبیلوں کے سربراہ اور اہم شخصیات
آپ کو مبارکباد دیں اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ
جن افراد نے سب سے پہلے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین بننے پر مبارک پیش کی اور انکے
ہاتھ پر بیعت کی وہ حضرت ابوبکر(رض)، حضرت عمر(رض) اور حضرت عثمان(رض) تھے۔
واقعہ غدیر کے بارے میں کچھ اہم نکات:
۱۔ اس تاریخی واقعہ کو تقریباً 110 اصحاب نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی
شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، البتہ یہ وہ افراد ہیں جنکا ذکر اہلسنت کی
کتابوں میں ہوا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں بڑی تعداد میں کتابیں بھی لکھی
گئی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تفصیل سے لکھی گئی کتاب "الغدیر" ہے جو
علامہ امینی نے لکھی ہے۔
۲۔ کچھ اہلسنت علماء نے اس حدیث کا اس طرح سے ترجمہ کیا ہے کہ اس میں لفظ
"ولی" کے معنی محبت کے ہیں نہ کہ حکومت اور خلافت کے۔ انسان اگر تھوڑی سی
توجہ کرے تو اس توجیہ کا ہلکا پن واضح ہو جاتا ہے۔ کیا یہ عاقلانہ ہے کہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنی شدید گرمی میں ایک لاکھ افراد
کے اجتماع میں لمبا چوڑا خطبہ بیان کرنے کے بعد لوگوں سے یہ کہیں کہ میرے
بعد علی علیہ السلام سے محبت کرنا؟اور کیا یہ عاقلانہ ہے کہ خداوند عالم کی
طرف سے یہ پیغام نازل ہو کہ اے پیغمبر اگر آپ لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ
میرے بعد علی علیہ السلام سے محبت کرنا تو تمہاری رسالت کامل نہیں ہے؟۔ کیا
یہ عاقلانہ ہے کہ مسلمانوں کی اہم شخصیات جیسے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور
حضرت عثمان (رض)صرف اس لئے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کریں اور انکے
ہاتھ پر بیعت کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے محبت
کرنے کا کہا ؟!!!۔
۳۔ اگر انسان بے طرف ہو کر سوچے تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ غدیر خم کے روز
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس اہم مسئلے کو بیان کیا اور جس
کے بغیر آپ کی رسالت ادھوری تھی اور جس کو بیان کرنے کے بعد اسلام کامل ہوا
وہ امام علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ تھا۔ رسول خدا صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو حیران و سرگردان نہیں چھوڑا تھا کہ
آپﷺ کی وفات کے بعد لوگ خلیفہ اور جانشین کی فکر کرنا شروع ہو جائیں بلکہ
آپ نے اپنی تمام زندگی میں اور رسالت کے پہلے دن سے آخری دن تک بیسیوں
مقامات پر یہ بیان کر دیا تھا کہ علی علیہ السلام انکے جانشین اور خلیفہ
بلا فصل ہیں۔ البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کام خدا کے
حکم پر کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کو امامت، خلافت اور رسول خدا کی
جانشینی کے عہدے پر فائز کرنے والا خود خداوند عالم ہے۔
تاریخ اسلام کی کئی ایک کتب میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوسفیان ایک مکارانہ چال چلتے ہوئے امیرالمومنین
علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انکے ہاتھ پر بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا
اور انکو خلیفہ وقت کے مقابلے میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ امام علی
علیہ السلام نے اسکی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا "خدا کی قسم تمہارا مقصد
فتنہ گری اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں۔ تم صرف آج ہی فتنہ گری کی آگ بھڑکانے
کے درپے نہیں ہو بلکہ ہمیشہ سے شرارت کرنے کی تاک میں رہے ہو۔ جان لو کہ
مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں"۔
قارئین کرام آپ کی آراء باعث رہنمائی ہو گی |