ہم بنے لکھاری

صاحب،،،پڑھنے سے ڈر نہیں لگتا،،،مگر لکھنے سے لگتا ہے،،،
جب سے ہم نے یہ ڈائیلوگ سنا،،،ہمیں لکھنے سے عشق سا ہو گیا،،،مگر مسئلہ
یہ تھا کہ ہم کیا لکھیں،،،
اپلی کیشن تک تو لکھنا آتی نہ تھی،،،ورنہ ڈاک خانے کے باہر بیٹھ کر خط وکتاب
عرضیاں ہی لکھ دیتے،،،

اک دفعہ ہم نے حکیم جلیبی خان کو جب وہ پچھلی صدی میں کالج میں ہوا کرتے
تھے،،،ان کے بے حد اصرار پر اک لو لیٹر لکھ کر دیاتھا،،،جب سے وہ ہم سے اب کچھ
نہیں لکھواتے،،،بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے،،،کہ ہمارے لو لیٹر کے جب نتائج
سامنے آئے،،،تو وہ مہینوں ہمیں جان سے مارنے کے لیے ڈھونڈتے رہے،،،
وہ تو ہم ریس میں جیمسن اولمپک چیمپئن سن بولٹ سے بس ذرا کچھ سیکنڈ
ہی سلو ہیں،،،اور حکیم جلیبی خان صاحب اپنے آلو نما جسے عرفِ عام میں جسم
کہا اور پکارا جاتا ہے،،،بلکہ لکھا اور پڑھا بھی شاید جسم ہی جاتا ہے،،،

جلیبی خان صاحب جب ہمیں کہیں دیکھ لیتے تھے،،،تو جان سے مارنے کو دوڑتے
تھے،،،اس دوران جب وہ دوڑنے کی کوشش کرتے تھے،،،تو ان کا پیٹ جسے لوگ توند
بھی کہتے ہیں،،،آگے پیچھے ہو جاتا تھا،،،
بلکہ حکیم جلیبی خان کا پیٹ وہی رہ جاتا تھا،،،حکیم صاحب خود آگے نکل جاتے
تھے،،،وہ بیچارے پھر پلٹ کر اپنا پیٹ اٹھانے جاتے تھے،،،
اس طرح سے ہم آج تک زندہ ہیں،،،ورنہ اب تک ہم جنتی ہو چکے ہوتے،،،
ہماری جنت اور دنیا کے درمیان بس یوں سمجھ لیجئے کہ حکیم صاحب کا پیٹ
آگیا،،،

بس قصہ کچھ یوں ہے،،،کہ حکیم ہم سے عمر،،،تجربے،،،وزن میں بہت ذیادہ ہیں،
مگر چونکہ ہم ان کی حکمت کے عظیم مگر جھوٹے قصے ہر خاص و عام کو
سناتے تھے،،،
اور کبھی جب پیسوں کی ضرورت ذیادہ ہوتی تھی،،،تو ہم ان کے دوا خانے کے اشتہار
سے پورے شہر کی دیواریں بھر دیا کرتے تھے،،،
حکیم ہمیں ہر کام کا کمیشن دیتے ہیں،،،اسی لیے ہمارے اور ان کے درمیان اک
کاروباری رشتہ بھی ہے،،،

ہاں یاد آیا،،،ہماری جان کے دشمن وہ کچھ اس طرح سے ہو گئے تھے،،،کہ جو
لو لیٹر ہم نے ان کو لکھ کر دیا ،،،جس لڑکی کو دیا وہ توحکیم پر دو لعنت بھیج
چکی تھی،،،مگر لڑکی کی خالہ جو حکیم کی شکایت کرنے ان کے گھر گئیں تھی
انہوں نے بہ نفسِ نفیس خود حکیم صاحب کو بارہ جوتے دو دفعہ مارے،،
کیا کہا دو دفعہ کیوں مارے،،،اب ایسا بھی نہیں کہ وہ بے حد ظالم تھیں،،،نہیں
بالکل بھی نہیں،،،
مگر مار کٹائی کی دھکم پیل میں ،،،کیونکہ حکیم کی ماں اور محلے کے چند
شرارتی بچے جن میں ہم بھی شامل تھے،،،سب کے سب حکیم کو جوتوں سے
نواز رہے تھے،،،

اس دوران لڑکی کی خالہ جو کہ اصل ظالم عورت تھی،،،وہ آٹھ کے بعد گنتی
بھول گئیں،،،پھر سے اک سے شروع کرنا پڑا،،،
قصہ مختصر بس اسی قربت میں لڑکی کی خالہ حکیم صاحب پر عاشق ہوگئی،
ہوتی بھی کیوں نا،،،وہ خط کس نے لکھا تھا،،،آجی ہم نے،،،بات ہے تو غرور کی
مگر قسم لے لیجئے،،،ہم نے جو کبھی تین گرام بھی غرور کیا ہو،،،

بس بات جوتے بازی سے آنکھ بازی تک پہنچ گئی،،،بس چٹ بیاہ اور پٹ چھ حکیم
نما بچے،،،
بولیے ہم رائٹر کیونکر نہ بنتے،،،کیا کمی ہے ہمارے لکھاری ہونے میں۔۔۔۔۔۔
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1194888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.