22ستمبر وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوامِ متحدہ
کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس سے ملاقات میں مسلۂ کشمیر اور بھارتی غیر
قانونی دخل اندازی ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی دستاویز پیش کی۔
پاکستان کی طرف سے بھارتی جارحیت کے خلاف اقوامِ متحدہ میں اب تک پیش کی
گئی دستاویزات کی فہرست بہت طویل ہے۔حسرت ، خواہش ، اور تکمیلِ مقاصد ایک
بار پھر ناکام ہوئے، اور سیکرٹری جنرل نے دو میٹھے بول ، بول کر ٹرخا
دیا۔خود وزیرِ اعظم کی طرف سے کشمیریوں کی مضبوط نمائندگی کا جوہر نایاب ،وسیع
النظر حلقہ میں کسی کو نظر نہیں آیا۔اور سات سمندر پار ہونے والی اس ملاقات
کے دن ہی بھارتی درندگی جاگی، اور ایل او سی پر چار معصوم شہریوں شہید کر
دیا گیا۔
آزادی کشمیر کی جد جہد، اور قربانیوں کا سفر پرانا ہے۔ یہاں سب سے اہم بات
یاد رکھنے اور دنیا کو باور کرانے کے لئے اتنا کافی ہے، کہ پاکستان،اور
کشمیر کی ’’ ک ‘‘ میں تعلق بہت گہرا ہے۔اور یہ تعلق 23مارچ 1940، قرار دادِ
پاکستان کے پیش ہونے پر کھلا اعلان تھا، ’’ پاکستان کا وجودکشمیر کے ساتھ
ہی ممکن ہے۔‘‘ اقوامِ متحدہ کو قصے ، کہانیاں سناتے ایک زمانہ گزر چکا ۔
اور اگر یہی پس ماندہ تہذیب و تمدن، علم و حکمت سے عاری ہوکراپنے وجودِ
برحق کی صحیح پیروی نہ کی گئی تو ، کئی اور زمانے گزر جائیں گے۔آ ج کے ترقی
یافتہ دور میں ہم ہر گوشۂ زندگی میں اپنا لوہا منوانے، جدید ایجادات کر کے
عقل و خرد کو محو حیرت زدہ کرنے، سالوں کا کام منٹوں میں کرنے، اور سواحلِ
امت محمدیہ کو سکون و اطمنان دینے، قتل و غارت گیری، ظلم و سربریت سے
نکالنے کی سعی کرنے کی بجا ئے نِت نئے اختلافات کے سیلابوں میں بہے چلے جا
رہے ہیں۔ طوفانو ں کے بھنور میں ہیں۔آندھیوں کے نر غے میں ہیں۔امن و آتشی،
سکون و عافیت مفقود ہو چکی ہے۔اخلاق و پاکدامنی کا شدید فقدان ہے۔شرافت و
امانت نا پید ہو چکی ہے۔ وہ تمام اختلافات ، وہ ساری خرافات جس کا تصور ہی
محال ہے، امت اس میں لتھڑی ہوئی ہے۔
عالمِ کفر پسِ پشت یک جان یک قالب ہیں۔ دنیاوی فوائدو راحت کے سارے دروازے
مل کر کھولتے
ہیں ۔ تمام خطرات ، جو ان کی طبیعت پر گراں گزریں، ان کی نیندیں اڑا دیں،
بستر کانٹوں کی طرح چبھنے لگیں، اور زمین ان پر تنگ ہونے لگے، اپنے ترکش سے
تیر ایک ساتھ چلاتے ہیں۔وہ چاہے بابا ٹرمپ ہو، نیتن یاہو، ہو، پوتن اور
بشار الاسد ہو ، یا روہنگیائی مسلمانوں ِ کے خون میں نہائی سوچی ہو،۔ ان کا
با ہمی ربط و تعلق ، شیر و شکم ہونا ،ایک عرصہ سے ہے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر گیسا
ولی بان نے اپنی کتاب ’’ تمدنِ ہند ‘‘ میں ان مذاہب کو پوری طرح آشکار کیا
ہے ۔ یورپی مؤرخین اپنے مذہب کو الحادی مذہب کہتے ہیں ۔ لیکن تاریخ کا
مطالعہ کچھ اور بتاتا ہے، اور ان کی یاد گاریں کچھ اور منظر پیش کرتی ہیں۔
اس وقت پاکستا ن واحد اسلامی ایٹمی طاقت ، مسلمان دنیاکا دوسرا بڑا مذہب
ہیں ۔ مسلمانوں کو اس عظیم اور زبردست انقلاب کو یاد کرنا ہوگا ، جو رسول
اﷲ ﷺ کے دستِ مبارک سے رونما ہوا۔ پھر تاریخ انسانی کے مقفل ، قفل کھلتے
چلے گئے۔ اور امتِ واحد کا ظہور ہوا۔ وہ امتِ واحد جسے قرآنِ مجید مخاطب
کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یہ کہ کر چھوٹ
جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی، ہم نے تو ان سے پہلے
لوگوں کو خوب ازمایا ہے اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جان لے گاجو سچے ہیں اور
جھوٹوں کو ضرور معلوم کرے گا۔‘‘ ( العنکبوت آیتہ 2.3)
عالمِ انسانیت پر جس بہت بڑے انقلاب نے انسانوں کی کایا پلٹی وہ اسلام ہی
تھا۔اور مسلمان تمام خطرات ، آزمائشوں ومشکلات کا سامنا کرتے ، اتحاد و
اتفاق سے دشمن کے ہر کاری وار کو ناکام و نامراد لوٹاتے۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے
صدیوں پہلے عالمِ اسلام کے ما بین ، بین الاقوامی تفریق کی پیشن گوئی
فرمادی تھی، جو آج عرب و عجم ، کالے اور گورے کے درمیان پید اہو رہی ہے۔
آخری ایام میں امت کے غم میں نہایت ہی درد انگیز الفاظ میں قیامِ اتحاد کی
اپیل فرمائی۔ارشاد فرمایا :’’ اے لوگوں ! تم سب کا خدا بھی ایک ہی ہے اورتم
سب کا باپ بھی ایک ہی ہے لہذاٰ کسی عربی کو عجمی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر ،
کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی پیدائشی امتیاز حاصل نہیں ہوگا، ہاں افضل وہی ہوگا
جو پرہیزگاری میں افضل ہو ۔ ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے اور تمام مسلمان
ایک برادری ہیں۔‘‘
انتہائی افسوس ناک اور ناقابلِ یقین صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان اپنے سیاسی
اسلامی نصب العین پر کام نہیں کرتے۔ یہ وقت اتحاد و اتفاق کا ہے، اسلام اور
مسلمانوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں ۔عالمِ کفر مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کے
لیے ایک ہو چکا ہے، اور ہم ابھی تک فرقہ بندیوں ، طبقاتی امتیازات کے حصول
کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور مزید بکھرتے ، منتشر ہوتے بجا رہے ہیں۔ جس کا فائدہ
اسلام دشمن طاقتیں اٹھا رہی ہیں ، برما ، فلسطین ، کشمیر میں معصوم و بے
گناہ مسلمانوں کا خون بہا یا جا رہا ہے اور مسلمان مذہبی ، لسانی لحاظ سے
تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اسی کو بزبانِ شاعر یوں کہتا ہے،
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد ﷺ کا ہمیں پاس نہیں
|