پاکستان اسٹیل ایک قومی اثاثہ ہے۔ اس نوعیت کے عظیم الشان
صنعتی منصوبے کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان اسٹیل وطن عزیز میں اپنی نوعیت کا واحد فولادی صنعت کا ادارہ ہے۔
پاکستان اسٹیل جیسے عظیم صنعتی منصوبے کے پیچھے طویل منصوبہ بندی اور وطن
عزیز کا مفاد پوشیدہ ہے۔ پاکستان اسٹیل سینکڑوں ایکڑ اراضی پر قائم ہے،
ہزاروں ایکڑ زمین ذیلی صنعتی منصوبوں اور ملازمین کے رہائشی منصوبوں کے لیے
مختص ہے۔ پاکستان اسٹیل کے پیدواری عمل کے آغاز سے لے کر موجودہ وقت تک ،
اسٹیل مل کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے۔ لیکن ہر دفعہ اسٹیل مل ، اپنے
ملازمین کی انتھک محنت و وفاداری اور انتظامیہ کی مثبت و ٹھوس منصوبہ بندی
سے ہر بحران سے نکل آئی۔
موجودہ بحران کا آغاز 2008 ء سے ہوا ، جو تاحال برقرار ہے۔ مالی سال 2007 ء
تا 2008ء تک پاکستان اسٹیل منافع پر منافع کے ریکارڈ قائم کررہی تھی اور
ملازمین تنخواہوں ، سہولیات میں ا ضافے کے ساتھ چار چار بونس تک وصول کررہے
تھے۔ یقیناااس کامیابی کی پشت پرا ہل قیادت و انتظامیہ اور ملازمین کی
شبانہ روز محنت شامل حال تھی۔ پاکستان اسٹیل جب بحران کا شکار ہوئی تو اس
بحران کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیاا ور ارباب اختیار کا یہ بیانیہ منظر عام
پر آیا کہ پاکستان اسٹیل کے بحران کی وجہ عالمی کساد بازاری ہے۔ بحران سے
نمٹنے کے دعوے بھی کیے گئے ا ور منصوبے بھی بنائے گئے لیکن سارے دعوے اور
منصوبے ، زبانی و عبوری ثابت ہوئے۔ بحران سے نمٹنے کے لیے، اگر ماضی کی طرح
مثبت و ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمت عمل اپنائی جاتی تو پاکستان ا سٹیل ، اس
بحرانی کیفیت سے کب کی نکل آئی ہوتی۔
رواں ماہ کے عشرہ اول میں پاکستان اسٹیل جوائنٹ ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے ،
مل کی بحالی کے لیے ٹرین مارچ اور اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تین روزہ
کامیاب علامتی بھوک ہڑتال کی۔ علامتی بھوک ہڑتال سے قبل مزدور رہنماؤں نے
چیدہ چیدہ وزراء اور بااثر ممبران قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کی اور ٹرین
مارچ اور علامتی بھوک ہڑتال کے مقصد سے آگا ہ کیا اور علامتی بھوک ہڑتال
میں شرکت کی دعوت دی۔ بھوک ہڑتالی کیمپ میں قائد حزب اختلاف سمیت تمام
سرکردہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور جہاں اپنے تعاون کی یقین
دہانی کروائی ، وہیں حکومت وقت پر بھی زور دیا کہ وہ جلد ازجلد پاکستان
اسٹیل اور اس کے ملازمین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ بھوک ہڑتال
کے آخری دن وفاقی وزیر نجکاری ، محترم دانیال عزیز بھی ہڑتالی کیمپ میں
تشریف لائے اور حکومت کی طرف سے پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کے مسائل
کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
جب سے اسٹیل مل بحرانی کیفیت کا شکار ہے، اس وقت سے لے کر اب تک لاتعداد
دفعہ وفاقی حکومتوں اور متعلقہ وزیروں کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی
کروائی جاچکی ہے کہ حکومت سٹیل مل کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھتی ہے اور
جلد ہی اس کا کوئی قابل عمل حل ڈھونڈ لیا جائے گا، لیکن حل اب تک نہ ڈھونڈا
جا سکا ہے ۔ اسٹیل مل اور اسکے ملازمین کے معاشی مسائل اور حالات دن بدن
بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اس لیے، اس تحریر کے ذریعے حکومت وقت کی خدمت میں چند
تجاویز اور گزارشات پیش کی جارہی ہیں ، جو جوائنٹ ایمپلائز ایکشن کمیٹی کی
تجاویز اور گزارشات سے گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ کسی بھی ادارے کو ہموار خطوط
اور مستحکم بنیادوں پر چلانے کے لیے کل وقتی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے ، اس
لیے حکومت کو اولین فرصت میں پاکستان اسٹیل کے لیے اہل و قابل کل وقتی
سربراہ مقرر کرناچاہیے اور بورڈ آف ڈائرکٹرز کی از سر نو تشکیل کرنی چاہیے۔
پاکستان اسٹیل کی تعمیر و ترقی میں روس کا اہم کردار ہے ، اب جب کے پلانٹ
کے بیشتر حصے اپنی عمر مکمل کرچکے ہیں، ان کی بحالی کے لیے اسٹیل کی صنعت
کے تجربے کے حامل ممالک سے حکومتی سطح پر شراکت کا معاہدہ کرنا بھی،
پاکستان اسٹیل کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر
افسران کی تقرری کی جائے اور تجربہ کار و اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ
ملازمین کی خدمات کنٹریکٹ پر حاصل کی جائیں۔ پاکستان اسٹیل جو نیشنل بنک
اور سوئی ناردرن کے قرضوں کے بو ج تلے دبی ہوئی ہے ، ان قرضوں کو طویل مدتی
قرضوں میں تبدیل کیا جائے اور منافع یا سرچارج کی رقم کو کم کیا جائے۔
پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بنایاجائے اور پاکستان
اسٹیل کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے پر غور کیا جائے۔ مل کی بحالی و توسیع کے
لیے ذیلی منصوبوں کے لیے مختص صنعتی زمین کو پہلے سے قائم ذیلی منصوبوں این۔
آئی۔ پی اور خصوصی اقتصادی زون کو لیز پر دیا جائے اور ان افراد کا بھی
احتساب کیا جائے ، جن کی وجہ سے پاکستان اسٹیل بحران کا شکار ہوئی۔ قوی
امید ہے کہ اگر حکومت وقت نے ان تجاویز اور گزارشات پر عمل کیا تو اسٹیل مل
کی بحالی اور توسیع کا عمل بخوبی انجام کو پہنچے گا۔ |