بیگ صاحب ہمارے پانامہ لیکس کی طرح بنے ہوئے تھے،،،ان کا
ہاتھ ہماری
شیروانی سے مجال جو لمحہ بھر بھی اِدھر اُدھر ہوا ہو،،،
مرغے کی اک ٹانگ ،،،اور،،،ملّا جی کی توند بنے ہوئے تھے،،،
ہم نے دنیا جہان کا حوصلہ جمع کیا اور بولے،،،دیکھو،،،میرے چاند،،،بس ہماری
تعریف بھی ان کو کہاں پسند آنی تھی،،،جھٹ سے بولے،،،ارے ،،،واہ،،،واہ،،،ہم
اگر
سر سے گنجے ہیں،،،تو کیا اب تم مجھے چاند بولو گے،،،
ہم اپنا سر پیٹ کے رہ گئے،،،گیگھیا کر بولے،،،جناب،،،محترم،،،قبلہ،،،حضرت،،
معزز شریفِ پاکستان،،،دیکھیے اگر آپ اس شیروانی کے ساتھ اپنا کرتا بھی
سوکھانے کے لیے ڈال دیتے،،،تو ہم نے آج وہ کرتا بھی زیب تن کیا ہوتا،،،
قبلہ معاف کیجئے گا،،،غلطی سراسر آپ کی ہی ہے،،،ہم نے انکی گرفت کو
اپنی ہی چوری شدہ یا اغواہ شدہ شیروانی پر ہلکا پڑتا دیکھا،،،تو جھٹ سے
اگلا
وار کیا،،،
کرتے کی موجودگی میں ہم جھٹ پٹ شیروانی آپ کے حوالے کردیتے،،،
ویسے بھی آج ہم اس عظیم چند افراد پر مشتعمل مشاعرے کے بعد بڑی
عزت اور شکریہ کے ساتھ یہ شیروانی آپ کولٹا دیتے،،،مگر ہماری التجا ہےکہ
پلیز آئندہ ایسی نامعقول قسم کی حرکت نہ کیجئےگا،،،بس سوٹ پورا ہونا
چاہیے،،
بیگ صاحب نےاک حسرت بھری نظر اپنی اکلوتی شیروانی پر ڈالی،،،اور نیچے جاکر
دھرنا دے دیا،،،
کالو کے ابا کے رخِ روشن پر نظر پڑتے ہی کئی آدم زادوں کی چینخیں نکل
گئیں،،،
کالو کے ابا نے رقعہ نکالا ،،،اور جھٹ سے کسی بھی ڈھیٹ شاعر کی طرح بولے،،،
اے ون چپس بائے ون ،،،گیٹ تھری،،،آل فری،،،
ہم بندر سے بھی تیزی سے انکے پاس گئے،،،ناک پر ہاتھ رکھا،،،لوگ سمجھے جیسے
ہم دریا میں ڈوبنے والے ہیں،،،
جھٹ سے ہم نےچپس کا پیکٹ انکے ہاتھ سے چھین لیا،،،ہم بولے،،،شعر والا
رقعہ نکالیے،،،
کالوکے ابا ہم سے الجھنے ہی والے تھے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا،،،
دوسری جیب سے پوئٹری پیج نکالا،،،
آج ہماری گل افشانی کا موضوع ہے،،،‘‘مہنگائی‘‘،،،عرض کیا ہے،،،
نیچے سے آواز آئی،،،بھونکو،،،بھونکو،،،ہم نے کان بند کرلیے ،،،یہ آواز مرزا
کی تھی،،،
کالوکے ابا کسی کو خاطر میں نہیں لائے،،،ویسے بھی کالوکے ابا کوئی معمولی
انسان نہ تھے،،،بلکہ اپنی بیوی سے بار بار کے ڈسے ہوئے انسان تھے،،،
کیا ظالم مہنگائی ہے
بارہ بچوں سے دو پر لائی ہے
بیوی ہو یا ماں ہو
ہراک نےہمیں مار لگائی ہے
مہنگائی کرتا ہے وہ
پٹ جاتے ہیں ہم
دیکھیے کیاکیارسوائی ہے
آلو بھنڈی ،،،کیا پیاز
ہر چیز آسمان کو چھوآئی ہے
ہم آخر کہاں کوجائیں
ہر جگہ رسوائی ہے
بیوی دیتی ہے تھالی بھرپیسے
چیز بس مٹھی بھر ہی آئی ہے
وہ سمجھتی ہے ہم نے سودے میں
ڈنڈی لگائی ہے
بس پھر کیاجوتی اس کی
اڑ اڑ کے آئی ہے
بیٹھنا ہوگا مشکل
ایسی جگہ چوٹ کھائی ہے
بس جان لو
ہر سو رسوائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|