امن و ہم آہنگی کا بین الاقوامی دن 16نومبر

حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پوری انسانیت کی بھلائی عالمی امن اور سلامتی پر مبنی ہیں، دین اسلام کی تعلیمات مکمل ضابطہ حیات پیش کرتی ہیں اسلام کے امن، اعلیٰ اخلاق، مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کو عام کرنا موجودہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے، دنیا میں اپنا ایک الگ اور اعلی مقام بنانے کے لیے ہماری نوجوان نسل کو حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ، قرآن وسنت پر مبنی تعلیمات پرعمل کرنا ہوگا، مسلمان اسلام کے تقاضوں پر اگر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا دوسری تہذیبوں میں وقار بلند نہ ہو اور منفی پروپیگنڈا کا خاتمہ نہ ہو مسلمانوں کی اکثریت اغیار کے طریقے اپنا کر مذہبی خوبیوں سے ناآشنا ہورہی ہے۔افسوس ازحد افسوس مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے اسوۂ حسنہ کے بجائے مغربی مخرب اخلاق طریقوں کو مہذب سمجھ کر اپنا یا ہوا ہے اسلام کے امن وسلامتی کے پیغام سے نہ تو آشنا ہیں نہ اس پر عمل پیرا ہیں اسلام کی قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ہم دیگر تہذیبوں میں اسلام کی عظمت کو باور کراسکتے ہیں ۔موجودہ دور کے علماء کرام پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات سے مکمل روشناس کروانے کے لیے علمی وقلمی جہاد کریں اسلام کے امن اور مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے نوجوانوں کی درس گاہوں میں خصوصی لیکچر یا نشست کا اہتمام باقاعدگی سے کرنا بھی موجودہ دور کے اہل علم اور علماء کے لیے ضروری ہے ۔ موجودہ دور میں فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات، انتہا پسندی، دہشت گردی، جنونیت، بنیاد پرستی اور پسماندگی و جہالت کے خلاف بہت بڑی تعداد صف آرا ہوچکی ہے۔ اب انسانی حقوق، امن، جمہوریت، ترقی پسندی، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی کے ایجنڈے پر اکٹھے ہونے پر زوردیا جارہا ہے۔اسلام ایک امن پسند، فطرت سے ہم آہنگ مذہب ہے اس میں نرم پالیسیوں، انسانیت کے احترام اور بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اسے دین انسانیت کہا جاتاہے اور اس کی پوری تاریخ انسانیت کے احترام ان کے حقوق کی رعایت اور انسانی اقدار کی حفاظت سے بھری پڑی ہے۔امن و ہم آہنگی کا بین الاقوامی دن دنیا بھر میں ہر سال 16 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یونیسکو کی جانب سے 1995 میں اس دن کوعالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں برداشت یا ہم آہنگی کو نہ تو خوشی اور نہ ہی ہمدردی کے فقدان سے جوڑا گیا تھا۔ اسے دنیا بھر کے لوگوں کی تہذیب اور طرز زندگی کے لیے عزت اورباوقار شناسائی قرار دیا گیا ۔ اسلام میں دہشت گردی انتہاپسندی اور ناجائز سخت گیری کا کوئی جواز ہی نہیں ملتا ۔ اسلام کے ہر شعبے میں امن و سلامتی، انسانیت پسندی اورحقوق پر زور دیا گیا ہے حقوق العباد پر سب سے زیادہ زور دیا گیا جس کا مقصد امن وسلامتی ، رحمت اوراحترام انسانیت ہے اسی بنیاد پر اسے دین رحمت بھی کہاجاتا ہے۔وطن عزیز پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے جہاں مذہبی و سماجی ہم آہنگی اور مکالمے کے فروغ کے لیے مختلف ادارے اور افراد کام کر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد امن و آشتی اور محبت و احترام کے فروغ کوعام بنانا ہے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی بلا تفریق مسلک و مذہب مدد کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا اور باہم مل کر مذہبی تہواروں کو مشترکہ طور پر منانے، باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے اور سماجی و مذہبی تنازعات کو حل کرنے میں ہر مسلک کے علماء اورمذہبی رہنماؤں کو اپنا قائدانہ کردار اداکرنے پر زور دینا ہے۔پاکستان میں گزشتہ تقریباََ سترہ برس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ نادیدہ قوتوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے عبادتگاہوں، پارکوں و دیگر مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا لیکن ہماری پاک افواج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے اب ان دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اب بیرونی طاقتوں اور دہشت گردوں کو یہ سمجھ آچکی ہے کہ پاکستانی ایک باشعور قوم ہے، یہ اب مسلک یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونگے بلکہ یہ سب متحد ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی ہم سب کوتوفیق دے کہ ہم دین اسلام کے محبت اور امن کے پیغام پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو مضبوط بنائیں اور دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کریں کہ یہاں سب بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اکھٹے رہتے ہیں٭٭٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.