ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس مين لوگوں کے آپس کے
اتفاق اور اخلاقيات بلکل دم توڑ چکی ہیں اس تیز رفتار دور میں ایک دوڑ لگی
ہوئی ہے ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگا ہوا ہے جسکے بنا پر انسان
نےایک طریکا اپنا لیا ہے کامیابی کے لئے شارٹ کٹ کا راستا اسکے لئے وہ رشوت
لیتا ہے اور ضرورت پڑھنے پر رشوت دينا بھی مناسب سمجھتا ہے .رشوت معاشرے کی
ایک تلخ حقيقت اور لازمی جز بن گئ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے
جہاں رشوت کا دور دورہ ہے اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا .اب یہاں یہ
صورت حال ہے کے کسی سرکاری دفتر میں جائیں وہاں چپڑاسی سے لے کر کسی بڑے
عہدےدار تک ہمیں ایک مرحلے سے گزرنا پڑھتا ہے جو کے لین دین کا ہوتا ہے .رشوت
کے بنا کسی تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی .رشوت کتنی ہوگی اس کا فیصلہ ملاکات
کے بعد کیا جاتا ہے .ویسے ترقی کا راستہ اسی کو سمجھا جاتا ہے لیکن در
حقیقت یہ بربادی کا راستہ ہے .رشوت ،بدعنوانی ،كرپشن اسے جو بھی دیسی یا
ولایتی نام دے دیا جاۓ مگر پریشان کن بات یہ ہے کے ہم تباہ و برباد ہو چکے
ہیں اس ناسور کی جڑوں نے ہمیں مضبوطی سے جکڑ لیا ہے .جولوگ اس ملک کی
بربادی چاہتے ہیں وہ بلاشہ کامیاب ہوتے جا رہے ہیں دن بدن ان کی دولت میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے .
ذاتی طور پر میں رشوت سے اتنا ڈر اور سہم گیا ہوں کے اگر میں کسی کام میں
نقصان برداشت کر سکوں تو کچھ پیسے بچانے اور رشوت نہ دینے کی خاطر کسی
سرکاری دفتر کا رخ نہیں کرتا کہ دن بھر دھکّے کھانے کے بعد بھی اگر رشوت
دینے سے بہتر ہے کہ میں یہ نقصان برداشت کرلوں .
جس ملک کے نامور علماء سرکاری زمینوں پر قابض ہوں اور حکمرانوں کی کھیپ کی
کھیپ كرپٹ ہو یا کرپٹ لوگوں کے ساتھی ہوں اور جب موقع ملے رشوت طلب کریں تو
کیسے اس ملک میں ایک عام آدمی زندہ رہے اور سکھ کا سانس لے .
اگراس رشوت کی بیماری کا علاج ممکن بنانا ہے تو ہر فرد پر ایک زمیداری عائد
ہوتی ہے کے کم سے کم انسان اسے روکنے کا آغاز خود سے کرے نہ تو کسی سے رشوت
طلب کی جاۓ ور نہ ہی کسی کو رشوت دینے پر آمادہ ہو .
حکومت وقت کا اس میں بہت اھم کردار ہے حکومت کو علما کرام کے ساتھ مل کر
کچھ ایسے قوانین تشکیل دینے چاہئیں جس سے اس کی روک تھام ہو سکے عوام کو اس
کے رحم او کرم پر نہ چوڑا جاۓ پاکستان میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو
تمام لوگوں پر نظر رکھتے ہیں ان اداروں کو متحرک ہونا پڑیگا تاکے عوام کو
انکا حق مل سکے . |