مسئلہ کشمیر بدستور جوہری جنگ کے خطرات کا پیش خیمہ ہے،جب
کہ بھارت سے تعلقات کا راستہ صرف کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے اس میں کوئی بائی
پاس نہیں، کشمیر میں بھارتی فوج کا ظلم اور پاکستان کی طرف جنگی ہیجان واضح
ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور پاکستان کے خلاف رویہ اس کی
مثال ہے، مسئلہ کشمیر کے حل سے جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن ممکن ہے،
پاکستان مسئلہ کشمیر کا پر امن حل چاہتا ہے،اسلام آباد میں بین الاقوامی
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر
محمود حیات نے ان الفاظ میں ساری دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو بڑے دو ٹوک
انداز میں ایک بار پھر پیش کرکے ساری قوم کے دل جیت لیئے۔ آج جنرل صاحب کے
خطاب کو سنتے ہوئے میرے الجھے ہوئے ذہن کے پردوں پر بھی مقبوضہ کشمیر کی
تاریخ اور یہاں کے باشندوں پر ہونے والے مظالم کی فلم چلنے لگی۔
ساڑھے چار ہزارسالہ طویل تاریخ کے حامل اس خوبصورت خطے نے تاریخ کے ان گنت
اتار چڑھاؤدیکھے، بانی قوم حضرت قائد اعظم نے کشمیر کی جغرافیائی صورتحال
کی روشنی میں کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا۔ وادی کشمیر کے دیدہ زیب
حسن، قدرتی مناظر بکھیرنے والے سرسبز و شاداب پہاڑوں و مستیوں کا سرور
برسانے والے موسموں کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ تاریخ، عمرانیات اور سماجیات
کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ہر دور میں اپنی ایک مخصوص
تہذیب اور ثقافت کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہا۔ یہاں کے حسین لوگوں
نے پے در پے مظالم ،ناختم ہونے والے المیوں اور مسلسل جبر کے ماحول میں بھی
اپنے حواس نہیں کھوئے۔1846 میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں
کو تاوان ادا کر کہ انگریز سرکارسے معاہدہ امرتسر کے تحت یہ ریاست حاصل کی
اور یہاں پر شخصی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد یہاں کے باشندوں
پرانسانیت سوز مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گزشتہ سات دہائیوں میں
ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں نے آزادی کی صبح دیکھنے کے لیے کیا کیا جتن
نہیں کیے۔ سیاسی جد وجہد سے ابتداء ہوئی ،سلسلہ دو چار آوازوں سے شروع ہوا
جو آگے چل کر قافلہ بن گیا۔ جب سیاسی جد وجہد کارگرہوتی دکھائی نہ دی تو
یہاں کے باشندوں نے اپنے گھائل جسموں کی ساری بچی کھچی توانائیاں کام میں
لاکر مسلح مزاحمت کی کوشش کی۔ وہ ظلم کی قوتوں کے ساتھ ٹکراتے رہے، کٹتے
رہے اور گرتے رہے ،گلستانٍ تحریک آزادی کو نوے ہزار سے زائد کشمیری جوانوں
نے اپنے خون جگر سے سیراب کیامگر آج تک ان کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو
سکا۔ برہان وانی کی شہادت نے اس تحریک آزادی کو ایک نئی روح پھونکی اور ہر
گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت آتی جا رہی ہے ، کشمیری نوجوان اس وقت جس جرات
اور بے خوفی کے ساتھ ہندوستانی ریاست کے تمام جبر اور وحشت کو للکار رہے
ہیں انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں،موجودہ صدی کو تہذیبوں
کی ترقی کی صدی کہا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی بات بھی اس عہد میں قدرے بلند
آہنگ کے ساتھ کی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب اقوام اور ممالک کے
رشتے معاشی بنیادوں پر قائم ہو ں گے۔ اب بہت سے ملکوں میں سفر کرنے کے لیے
سرحدوں کی غیر ضروری بندشوں کو ختم کیا جاچکا ہے لیکن سات دہائیوں سے
کشمیرمیں بہتی خون کی ندیاں اقوام عالم کو نظر نہیں آرہی ،کشمیریوں کوسیاسی
عمل کے ذریعے حق خود ارادیت دینے کا وقت آ گیا ہے ،اب دنیا کو جاگنا ہو گا۔ |