مقابلہ تو میرے دل ناتواں نے خوب کیا

2012میں TAX ADAPTATION ACT کے بعد گلگت بلتستان میں وقتاً فوقتاً نت نئے ٹیکسز کا اجراء اور نفاز ہوتا گیا ۔ نام نہاد گلگت بلتستان کونسل اپنے تفویض کردہ اختیارات کے مطابق وفاق میں متعارف شدہ تمام ٹیکسز کو گلگت بلتستان تک ’توسیع ‘ دیتے گئے۔ حالانکہ ان کے اختیار میں توسیع کے علاوہ ترمیم بھی موجود ہے لیکن کم از کم موجودہ جی بی کونسل کسی صورت بوجھ سے کم نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان میں ٹیکسز کے نفاز کے خلاف یہ پہلی یا دوسری نہیں تیسری بڑی احتجاج ہے ۔ اس سے قبل عوامی ایکشن کمیٹی نے پہلی مرتبہ مختلف مکاتب فکر کے جماعتوں کے یکجا کرکے مہدی شاہ حکومت کے آخری دنوں میں تاریخی دھرنا دیا تھاان کے اہم مطالبات میں ٹیکسز کی واپسی کا مطالبہ بھی تھا۔ اس کے بعد کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے ’اینٹی ٹیکس موومنٹ ‘کے نام پر تحریک چلاکر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو اعتماد حاصل کیا تھا اس تحریک کا یک نکاتی مطالبہ گلگت بلتستان میں عائد غیر آئینی ٹیکسز تھے ۔ اگرچہ دونو ں تحریکوں میں ’خامیاں ‘تھیں مگر عوام کے جذبات موجود تھے ۔خاص کر کنٹریکٹر ز ایسوسی ایشن کی سربراہی میں اینٹی ٹیکس موومنٹ وزیراعلیٰ سے صر ف ایک ملاقات پر تمام دعوے ، وعدے ، اعلانات اور عزم و ہمت PWDکی فائل بن کر واپس آگئے ۔

انجمن تاجران گلگت بلتستان کی کال پر ہونے والی احتجاج وزیراعظم پاکستان کے دورہ سکردو سے ہی شروع ہوا تھا ۔ جب گلگت بلتستان میں نت نئے ٹیکسز کو توسیع دی جاتی رہی ۔ مرکزی انجمن تاجران گلگت بلتستان نے وزیراعظم کے دورہ سکردو ، جو کہ جی بی کونسل کے 11ویں اجلاس کے حوالے سے تھا، کے موقع پر احتجاج ریکارڈ کرانا تھا لیکن صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے یقین دہانی پر اسے منسوخ کرنا پڑا ۔ وزیراعظم پاکستان نے مذکورہ میٹنگ میں ٹیکس عارضی طور پر منسوخی کا اعلان کردیا لیکن انجمن تاجران نے احتجاجی تحریک کی منسوخی کو ٹیکس معطلی کے نوٹیفکیشن سے مشروط کردیا ۔ اور اس کے لئے 13نومبر تک کی ڈیڈلائن دیدی ۔ 25اکتوبر سے 13نومبر تک کا دورانیہ نوٹیفکیشن کے لئے کافی تھا لیکن جاری نہیں ہوسکا ۔ مجبوراً انجمن تاجران گلگت بلتستان نے شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دیدی۔ کسی حکومت کے لئے اس سے مشکل کوئی کام یا قدم نہیں کہ وہ مشتعل اور مظاہرے پر تلی ہوئی عوام کو سنبھالے ۔ انہی دنوں میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سرکاری دورے پر لندن میں تھے ۔ وزیراعلیٰ کی غیر موجودگی میں سینئر صوبائی وزیر حاجی اکبر خان تابان نے قائمقام وزیراعلیٰ کا انچارج سنبھال لیا ۔ جبکہ میڈیا سمیت اطلاعات و نشریات کے معاملات کو دیکھنے کے لئے صوبائی وزیر اطلاعات محترمی و مکرمی اقبال حسن صاحب موجود تھے لیکن جس انداز میں ان سمیت دیگر وزراء نے (سوائے ڈاکٹر محمد اقبال کے ) چھٹے نمبر پر کھیلنے والے پارلیمانی سیکریٹری اورنگزیب ایڈوکیٹ کو تنہا چھوڑ دیا ۔وہ یقینا حکومت کی خود مخلصی کو پرکھنے کے لئے کافی ہے ۔
مقابلہ تو میرے دل ناتواں نے خوب کیا
کے مصداق اورنگزیب ایڈوکیٹ ابتدائی مرحلے میں پٹرولیم ڈیلرز کو احتجاج سے لاتعلق کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ بعد ازاں ٹرانسپورٹرز کو بھی بڑی حد تک اعتماد میں لینے میں کامیاب ہوئے ۔ تین روز میں تین پریس کانفرنسز کئے ۔ مذاکراتوں کا طویل سلسلہ جاری تھا عوام کی انگلیاں سمیت نظریں بھی صرف انہی پر مرکوز تھی ۔ اورنگزیب ایڈوکیٹ بھی متضاد موقف اپنا تے رہے ۔ پہلے روز بتایا کہ مزید 15دن کم از کم درکار ہے تاکہ ہم طریقہ کار کے مطابق نوٹیفکیشن حاصل کرسکے ۔ اگلے روز عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما مولانا سلطان رئیس کو اس بات کو قصور وار ٹھہرایا کہ انہوں نے مذاکرات کے دروازے بند کردئے ۔ اگلے روز ایک ایسا نوٹیفکیشن لیکر آنے میں کامیا ب ہوگیا جس کا اول تو جاری ہونا ہی بڑا معنی خیز تھا تاہم درجنوں اقسام میں صرف ایک ٹیکس کو معطل کرانے کا نوٹیفکیشن لیکر پریس کلب گلگت پہنچ گئے ۔ مذکورہ ٹیکس ’ٹرانزیکشن ‘پر عائد کردہ تھا جسے معطل کردیا۔ لیکن اب کی بار انجمن تاجران اکیلی نہیں تھی بلکہ عوامی ایکشن کمیٹی بھی ساتھ میں موجود تھی ۔ اسی روز عوامی ایکشن کمیٹی نے اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کے زریعے ٹیکسز کے معاملے کو مزید اچھالا ۔اور حلقہ اسلام آباد میں بھی ٹیکسز کے خلاف جاری تحریک کو متعارف کرایا۔

یہاں پر یہ بات مشاہدہ کرنے کی ہے کہ 2012میں ٹیکس اڈاپٹ کیا گیا ۔ اس وقت گلگت بلتستان اور وفاق دونوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ۔ وفاقی حکومت نے عائد کردیا لیکن اس وقت کے گلگت بلتستان کونسل کے بڑی حد تک مزاحمت کی ۔ جس کی وجہ سے ٹیکسز کا عملی نفاز اکثر2015کے بعد سے شروع ہوا ہے جس کا بنیاد وہی پرانا ایکٹ تھا ۔ اب کی بار وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے بھی ٹیکسز کے معاملے میں وفاقی حکومت سے کھل کر بات کی بلکہ بڑی سخت باتیں بھی کی ۔ 2016کے اخبارات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حافظ حفیظ الرحمن نے کھری کھری سنائی تھی ۔ 2012میں جب ایکٹ بن گیا تو ایکٹ کے چیئرمین امجد ایڈوکیٹ تھے جو آج پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر ہیں۔2015کے بعد سے لگنے والے ٹیکسز حافظ حفیظ الرحمن کے دور میں ہیں۔ دونوں شخصیات کئی بار واضح طور پر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان میں ٹیکسز لگانے کے حامی ہیں۔ اس کے باوجود دونوں نے وفاقی حکومت سے سخت موقف اپنایا ۔ اس لئے اس بات اور بحث میں پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ٹیکسز کے نفاز میں کس کا کتنا کردار ہے لیکن اتنی بات واضح ہورہی ہے کہ جس طریقے سے گلگت بلتستان کے بعض بلکہ اکثر حلقوں سے متنازعہ ہونے کے باوجود وفاقی حکومت سے پانچویں صوبے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ٹھیک اسی طریقے سے وفاقی حکومت نے متنازعہ ہونے کے باوجود ٹیکسز لگائے ہیں۔ پانچویں صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کا لبادہ بڑا خوبصورت ہے وہ آئین پاکستان میں شامل ہونے کے خوشنما نعرے ساتھ ریاست پاکستان پر ایک قسم کا دباؤ ڈال رہے ہیں اسی طریقے سے وفاقی حکومت (جماعت جو بھی ہو)کا یہ طریقہ بھی انمول ہے کہ سینے سے لگانے کی باتیں کرکرکے دیوار سے لگاتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں اگر لچک نہیں رکھا گیا تو پھر حالات بگاڑ کی جانب جا سکتے ہیں۔

انجمن تاجران اور صوبائی حکومت کے مابین رات گئے مذاکرات میں صوبائی حکومت ایک بار پھر احتجاج کو ملتوی کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن عارضی ملتوی کرانا مکمل علاج نہیں ہے ۔ جی بی کی عوام نے جس انداز میں اس احتجاج میں ٹیکسز کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کیا ہے اس سے معلوم پڑتا ہے کہ 2012کا متنازعہ ایکٹ کو ہی ختم کیا جائے اور اگر ضرورت پڑجائے تو نام نہاد جی بی کونسل کو بھی ختم کرکے بیروزگاروں کی فہرست میں 6بیروزگاروں کا اضافہ کیا جائے ۔
بقول شاعر
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

کیپٹن (ر) محمد شفیع خان حاجی شاہ بیگ کو سائیڈ لائن لگاکر جی بی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر منتخب ہوگئے ۔کیپٹن شفیع گزشتہ الیکشن کے اواخر میں اسلامی تحریک میں شامل ہوئے تھے ۔ حلقہ 3 گلگت سے اسلامی تحریک کے ٹکٹ پر ڈاکٹر محمد اقبال کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے ۔ گزشتہ دو اڑھائی سالوں میں کیپٹن شفیع صوبائی حکومت کے کسی بھی اقدام پر متفق نظر نہیں آئے اور اپنی زات میں اکیلے ہی اپوزیشن بنے ہوئے تھے ۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے شروع کردہ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی تحریک نے دیگر جماعتوں کو بھی حق حاکمیت کا درس دیا ۔ یکے بعد تمام جماعتیں ناکام ہوئی ۔ اسلامی تحریک نے اپنا امیدوار کیپٹن (ر) سکندر علی کو مقرر کیا جو مطلوبہ تعداد پوری نہیں کرسکے جس کے بعد کیپٹن شفیع نے زاتی طور پر مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیکر تبدیلی کی درخواست دیدی جو کامیاب ہوئی۔ کیپٹن شفیع حاجی شاہ بیگ کے مقابلے میں 10گنا تیز اور فطرتاً حزب مخالف کا ہی امیدوار ہے ۔ اور اسمبلی کو چلانے کے لئے حزب ایوان اور حزب اختلاف کے قائدین کا اتفاق لازمی ہے آج کیپٹن شفیع اپنا مورچہ بھی سنبھالیں گے۔ اب یہ اسمبلی میں انتہائی دلچسپ صورتحال ہوگی۔کیپٹن شفیع بہرحال اپوزیشن ممبران کے لئے قابل قبول شخصیت ہے ۔ حاجی شاہ بیگ صاحب تو خود بھی یہ کہہ گئے کہ جون کے بعد میں نے بھی اپوزیشن نہیں کی کیونکہ پہلے جو کرتا تھا اس کا بھی کچھ نہیں بنتا تھا سوائے حکومت سے دشمنی مولنے کے۔

Faheem Akhtar
About the Author: Faheem Akhtar Read More Articles by Faheem Akhtar : 46 Articles with 34413 views Student of media and communication .. View More