آپ سوچ رہے ہوں گے ہم کوئی کارڈیو کیس
ہیں،،،جناب،،،الحمداللہ ،،،ایسی کوئی
بات نہیں،،،
بس یہ جملہ یاد آگیا کہ کسی زمانے میں یہ بہت مشہور تھا،،،اور بعض اوقات یہ
وقت بے وقت دوہرایا جاتا تھا،،،جب بھی کوئی حسینہ آس پاس ہوا کرتی تھی،،،
جب بھی کوئی اچھا لگتا تھا،،،یہ جملہ مہنگائی کی طرح خود بخود دماغ کی
مارکیٹ میں وارد ہوجاتا تھا،،،
حکیم جلیبی خان جو مہنگائی اور بچوں سے بہت تنگ رہا کرتے ہیں،،،وہ جب آج
کے ہیئر ڈریسر ،،ماضی کے نائی کے پاس بچےکو لے گئے،،،اور التجائی لہجے میں
کہا،،،بھائی اس کے بال ذرا صحیح سے چھوٹے کرنا ،،،کم بخت مہنگائی کی رفتار
سے بڑھتےجاتے ہیں،،،
بات ہورہی تھی دل کی،،،سائنس کہتی ہے دل اک بلڈ پمپنگ آرگن ہے،،،ہم نے
بھی سولہ سال بائیولوجی میں یہی پڑھا،،،
مگر جب اردو کی کتاب کھولی،،،اس میں دل سے مطلق پوئٹری پڑھی،،،تو ہمیں
سائنس پر بہت سارا شک سا ہوا،،،
ہم ابھی اس معاملے میں یقین کی کیفیت سے بہت دور ہی تھے،،،کہ پھر اس
جملے سے آشنائی ہوئی،،،‘‘کہ دل کا بھی کوئی چین ہوتا ہے‘‘،،،سائیکل کی چین
کی طرح،،،
مگرجوں جوں ہم بھی مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے،،،تو پتا چلا کہ
دل کے چین کا تعلق صرف حسینہ سے جوڑنا بہت بڑی حماقت ہے،،،
اب بجلی آجائے تو چین،،،بچہ پاس ہوجائے تو چین،،،بل کم آجائے تو چین،،،
کراچی میں بندہ گھرخیریت سے پہنچ جائے تو چین،،،سکول والے فیس نہ بڑھائیں
توچین،،،
جانے کہاں گئے وہ دن،،،جب حسینہ بھی موجبِ چین ہوا کرتی تھی،،،
شادی شدہ لوگوں کا یہ حال ہے کہ حکیم صاحب بولے،،،جس دن آپ کی حکیمی
بھابھی ہمیں بے عزت نہ کریں،،،ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ضرور دال میں کچھ
کالا ہے،،،
ہم فوراَ ان کے دل کا چین یعنی ہارٹ بیٹ چیک کرتے ہیں،،کہ شاید کوئی خوش
خبری
ہو،،،اور ہم رنڈوے ہونے والے ہوں،،،مگر کبھی بات
نزلےزکام،،،کھانسی،،،بخارسے کبھی
آگے بڑھ کے ہی نہیں بڑھتی،،،
ہم بولے،،،ایسا کیوں ہے؟؟،،،
وہ بولے نیک بخت بہت ہوشیار ہے،،،اس کی ماں نے شادی سے سالوں پہلے ہی پٹی
پڑھا دی تھی،،،کہ بیٹا مرتے مرجانا مگرجلیبی سے علاج نہ کروانا،،،
یہ سب کہتے ہوئے جلیبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے،،،
خیر یہ انکا ذاتی مسئلہ تھا،،،ہم توصرف دعا ہی کرسکتے ہیں،،،کہ
‘‘اللہ حکیم جلیبی خان صاحب کو اپنی بیوی کو برداشت کرنے کی توفیق
عطافرمائے‘‘
(آمین)
|