ہمارے معاشرے میں اشتہاری کئی قسم کے ہیں،،،
اک وہ جن کو بڑے اشتہاری یعنی وردی والے ڈھونڈتے پھرتے ہیں،،ان کو کئی
اشتہاری
وردی میں ہی مل جاتے ہیں،،،جن کو وہ اپنا پیٹی بھائی کہتے ہیں،،،
اک اور قسم کے اشتہاری وہ ہوتے ہیںجن کو ماڈل بھی کہا جاتا ہے،،،اس میں
ہمیں
تمام قسم کے لوگ مل جاتے ہیں،،،
اک اشتہاری وہ ہوتے ہیں،،،جو نہ تو ماڈل،،،نہ تو کھلاڑی،،،نہ ہی کوئی نامور
شخصیت
ہوتے ہیں،،،یہ اپنے نام کے ساتھ ڈگری کی جگہ عہدہ استعمال کرتے ہیں،،،
جیسے عامل،،،پروفیسر،،،بابا،،،یاپھر جگہ کا نام لکھتے ہیں،،،جیسے،،،کالے پل
والے
جوتے والے،،،ٹوپی والے،،،چینی والے،،،یا کھوتا والے،،،
بہر حال ہمارے دوست حکیم جلیبی خان کو بھی اک دفعہ عشق ہوگیا،،،وہ
ٹوپی باز یا ٹوپی والے بابا کے پاس گئے،،،جس نے ان کو اک پتا یا گھاس دی،،،
جو کھانے کے بعد مزیدکھانی تھی،،،جس کے بعد بقول بابا جی محبوب ان کے
قدموں میں آکر گرنا تھا،،،
پہلے دو دن توکچھ نہ ہوا،،،ابھی حکیم جلیبی صاحب مایوس ہونے ہی والے تھے،،،
کہ تیسری صبح دروازہ بجا،،،حکیم صاحب دوڑتے ہوئے،،،گرتے پڑتے دروازے پر
پہنچے ہی تھے کہ دھڑام سے کوئی ان کے قدمو ں میں آکر گرا،،،
حکیم ابھی بابا کے واری صدقے جانے کا سوچ ہی رہے تھے،،،انہیں شک سا
ہوا،،،کہ
جو سر ان کے قدموں میں گرا ہے،،،کافی مردانہ ٹائپ ہے،،،
پتاچلا کہ یہ ان کا دودھ والامحبوب ہے،،،جو پچھلے چھ مہینوں کے دودھ کا بل
مانگ رہا تھا،،،اس کا اصرار تھا،،،کہ اگر حکیم جی نے دودھ کا بل نہ
دیا،،،تو ان کی
بھینسیں ہڑتال کرسکتی ہیں،،،
یہ اشتہار ہر طرح کے کام کردیتے ہیں،،،حالانکہ پاکستان میں پیسے سے سارے
کام
ہوجاتے ہیں،،،مگر یہ اشتہار ذرا کم خرچ میں کام بنادیتے ہیں،،،اس لیے ان کے
درباروں
میں بہت سے الّوؤں کا رش رہتا ہے،،،
ان کے اشتہار دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں،،،کہ یہ دور پبلیسٹی کا
ہے،،،
باقی قسم کے اشتہاروں پر پھر کبھی بات ہوگی،،،بات نکلے گی تو دور تک جائے
گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|