سیلانی صاحب کا شمار میرے ان پسندیدہ کالم نگاروں میں
ہوتا ہے جنہیں میں نے شعور کی سیڑھیاں چڑھنے سے قبل پڑھا. گھر روزنامہ امت
آیا کرتا. "فیس بک ڈائجسٹ" سے نتھی ہونے کے بعد انہیں کچھ قریب سے دیکھنے
کا موقع ملا.
وہ اتفاقی طور پہ شعبہ صحافت کی طرف آئے. یہ ۱۹۹۴ کی بات ہے. پڑھائی کے
دوران انہیں پیسوں کی ضرورت پڑتی. دوست سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ روزنامہ
جسارت میں کوشش کی جائے. خوش قسمتی سے یہاں انہیں آسانی سے کام مل گیا.
شائع شدہ اخبار میں غلطیاں تلاش کرنا. یعنی پروف ریڈر کی نگرانی. اس کام کے
ہزار روپے ملتے. جو اس وقت اسٹوڈنٹ لائف میں ان کے لیے بڑی رقم تھی.ایک دن
انہیں اشتہار بنانے کا کہا گیا. تیار کر کے دیا تو پسند کرنے کے بعد مستقل
لکھنے کی فرمائش کی گئی. یوں کسی حد تک ان کے لکھنے کا سفر شروع ہوا.
روزنامہ جسارت کے بعد بطور رپورٹر روزنامہ امت سے وابستہ ہوئے. رپورٹ تیار
کرنے میں بڑی جانفشانی سے کام لیتے. عوامی مسائل کے حل کے لیے عوام کے پاس
جاکر عوامی عدالت لگاتے. دفتر کاغذوں کا انبار لے کر لوٹتے. ان انبار میں
سے رپورٹ لکھنی ہوتی.
ان کا کالم "دیکھتا چلا گیا" عوام میں کافی مقبول ہے. اس کالم کی ابتدا بھی
بڑے دل چسپ طریقے سے ہوئی: ادارہ نے محسوس کیا کہ سنجیدہ اور سیاسی کالم
بہت شائع ہوتے ہیں. ہلکا پھلکا اور فکاہیہ کالم بھی ہونا چاہیے. قرعہ فال
سیلانی صاحب کے نام نکلا. حکم ہواکہ ایک عدد کالم بھی لکھا جائے. انہوں نے
کالم لکھ کر دیا جو رد کردیا گیا. دوسری مرتبہ لکھا وہ بھی ردی کی ٹوکری کی
نذر ہوا. تیسری بار لکھا گیا کالم بغیر عنوان اور نام کے ایڈیٹر کے حوالہ
کردیا. ۲۰ سال سے روزنامہ امت سے منسلک ہیں. انہیں اپنے کالمز کی تعداد
معلوم نہیں. حد تو یہ کہ کالمز محفوظ تک نہیں. حال ہی میں وہ ترکی یاترا
کرکے آئے ہیں. قسط وار سفرنامہ حلقہ احباب میں کافی پسند کیا جارہا ہے.
قارئین کی فرمائش پہ سفرنامہ تکمیل کے بعد کتاب کی صورت منصہ شہود میں لایا
جائے گا. دوسال سے نیو ٹی وی میں بطور رہورٹر خدمات انجام دے رہے ہیں.
سیلانی صاحب کے مطابق دینی جماعتیں اخلاص اور محنت سے تہہ داماں ہیں. جمعیت
علماء اسلام شہر میں نظر نہیں آتی تو جماعت اسلامی دیہات میں مفقود ہے.
دونوں بڑی جماعتیں میڈیا پہ ساری توجہ مرکوز کی ہوئی ہیں. عوام کے اندر
اپنے روابط پیدا کرنے کی ضرورت ہے.
ان کے نزدیک فیس بک زیادہ تر لوگ بس دو وجوہات کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں:
صنف نازک کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور مخالفین ڈھونڈ کر ان کو سربازار ننگا
کرنا. فیس بک کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں. اس لیے بہت کم وقت دیتے ہیں.....
احسان کوہاٹی المعروف بہ سیلانی دین کا درد رکھنے والے، وطن سے مخلص، مہمان
نواز انسان ہیں. مغرب کی نماز کے بعد شروع ہونے والی حسین مجلس عشاء کی
اذانوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی. مختصر مجلس میں متنوع موضوعات پہ گفتگو
کی گئی. عابدی، مفتی شہید احمد اور سید ثاقب شاہ کے ساتھ سیلانی بھائی سے
رخصت لے کے باہر نکلا تو راستہ بھر سیلانی کا مسکراتا چہرہ چشم تصور سے
دیکھتا رہا دیکھتا اور دیکھتا چلاگیا.
|