یہ پھول مہکتے رہیں

بچے پھولوں کی طرح خوبصورت اور فرشتوں کا روپ میں ہو تے ہیں جو اپنے چہر ے کی طر ح دل کے خوبصورت اور من کے سچے ہو تے ہیں ان کی مصو میت ہی ہے کہ پتھر سے پتھر دل والا انسان بھی ان کے مصوم چہرہ کو دیکھ کر مو م بن جا تا ہے پر آج کے موجودہ دور میں ہمارے معاشرے ان مصوموں پھولوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں درند ے اپنی درندگی کا نشانہ ان پھولوں کو بنا رہے ہیں ۔جبکہ ان پھولوں جیسے بچوں کو اتنا تک احساس نہیں ہوتا کہ ان کا دشمن کون ہے اور ہمارا مخلص کون ہے ان کو ہر روپ کے انسان اپنے ہی پیارے لگتے ہیں جن کے ہاتھوں میں وہ محفوظ ہوتے ہیں معاشرے میں بچوں پر بڑھتے ظلم جبری مشقت ان کے حقوق کا پا مالی پر پوری دنیا میں درد دل رکھنے والوں نے بچوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی جس کی گو نج عالمی ادارے اقوام متحدہ تک گئی جس کے پیش نظر ہر سا ل 20 نومبر کو بچوں کا عا لمی دن منا کر دنیا کو یہ باور کر وایا جاتا ہے ان سے ایسے ہی پیارمحبت اور شفقت برتی جائے جس کا ان کو حق حاصل ہے بچوں کے حقوق کے با رے میں پہلی مرتبہ 1954ء میں اقوا م متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اند ر سفارشات پیش کی گئی اور 1989ء میں اقوام متحدہ کی اسمبلی میں بچوں کے متعلق شفارشات کو قانونی شکل دے دی۔ پہلی مرتبہ 20 نومبر 1990 میں کو اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کی باضابطہ حمایت کر کے بچوں کا عا لمی دن قرار دیا اس وقت سے لے ابتک یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔لیکن دن تو ہر سال منا یا تو جا تا ہے پر اس دن کو صرف ایک دن ہی منا کر ہم سب پو را سا ل بچوں کے حقوق سے آنکھیں بند رکھتے ہیں ۔پوری دنیا میں پھیلی بد امنی بعض عالمی طاقتوں کا جنگی جنوں اسلحہ کی دوڑ معا شرتی برائیاں بیما ری غربت بھو ک افلا س قدرتی آفات دہشت گردی ان سب کے نشا نے پر بچے ہی ہو تے ہیں یہ ہی نہیں گھروں میں والدین سکول میں استاتذہ معاشرے میں انسا نی روپ میں درندے ان کو نشانہ بناتے ہیں ۔

اقوام متحد ہ کا عا لمی ادارہ بر ائے اطفا ل یو نیسف ہر سا ل جون میں بچوں کے حوالے سے ایک رپورٹ جا ری کر تا ہے گزشتہ بر س میں جا رکردہ رپو رٹ اعددہ شمار سابقہ سا لوں کی نسبت بچوں کے حا لا ت مزید گھمبیر ہو تے جا رہے ہیں رپورٹ کے مطابق دنیامیں124ملین سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں دنیامیں ہرسال27 کڑوڑ بچے گھر یلوتشدد کا نشانہ بنتے ہیں پاکستان میں ہردس میں سے ایک بچہ تشدد اورجارحیت کا شکار ہوتا ہے ہیومن را ئٹس کمیشن آف پا کستا ن کی رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکا ر ہیں۔یونیسف کی رپورٹ کے مطا بق پا کستان کے 30فیصد بچے ایک سال کی عمر میں داخل ہو نے سے پہلے فوت ہو جا تے ہیں۔اور ہر گیارہوں بچہ پا نچ سا ل کی عمر سے پہلے ہی فوت ہو جا تا ہے پا کستا ن میں چائلڈلیبر وجبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد میں دن بدن آضا فہ ہو تا جارہا ہے۔ اب اگر پوری دنیا کا جا ئزہ لیا جا ئے توترقی پذیر مما لک کے ساتھ ترقی یافتہ مما لک میں بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشا نہ بنایا جا تا ہے جن علاقوں اور ملکوں میں جنگی صورت حا ل کا سامنا ہے ان میں مشرق وسطیٰ عراق شا م یمن افغانستا ن میں امر یکہ کی بم با ری سے صرف ایک ہی سال میں لا کھوں ٹن بم کے گولے برسا ئے گئے جن سے خا رج ہو نے والاانتہا ئی خطر نا ک مہلک ما د ’’نیوروٹولسک ‘‘جو بچوں اور حا ملہ عورتوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے جس کے باعث ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے گئے جبکہ کئی بچے معذور پیدا ہو ئے۔دوسری طر ف برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہو نے والے انسانیت سوز سلوک سے بچے بھی محفو ظ نہیں رہے جن کو والدین کے سامنے بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے جن کی تعداد ہز اروں میں ہے ۔ امر یکہ کی عراق شا م افغا نستان میں مسلسل بم باری سے ان مما لک میں 30 فیصد سے زائد بچے معذور پیدا ہو رہے ہیں یونیسف کے مطا بق مشر ق وسطیٰ بالخصوص عراق شام یمن افغانستان اور روہنگیا مسلمانوں میں ہر پا نچویں بچے کو موت اور تشدد کا خوف رہتا ہے وہ بچے ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان پر بم حملہ گولی کا نشانہ جنسی زیاتی یا پھر مسلح جہتوں کی کا روائیوں سے نشا نہ بنا ئے جانے کا خوف رہتا ہے۔ افر یقہ کی مسلح تحر یکوں اور دائش میں بچوں کو جبری بھرتی کیا جاتا رہا ہے ۔ان شدت پسند تنظیمیں سکولوں کے بچوں کو جبری طور پراپنی تحریکوں کے لئے بھرتی کیا۔

جنگی صورت حا ل کے نتیجے میں ہر سال لا کھوں پنا ہ گزین بن ملک چھوڑکر دوسرے ملکوں میں پنا ہ لیتے ہیں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 6 لاکھ مہاجر بچوں میں سے تین اعشاریہ سات ملین بچے سکول نہیں جا پاتے اور تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں یونیسف نے مو جودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایک اند از لگایا ہے کہ 2030 تک کڑوڑوں بچے ایسی بیما ریوں سے مر سکتے ہیں جن کا علا ج ممکن ہو گا پر سہولیات نہ ہو نے کی وجہ سے اتنی امو ات ہو سکتی ہیں جنگ میں مبتلا عراق شام افغا نستان روہنگیا مسلمان جو ان علاقوں میں 15لا کھ بچے بے گھر ہوئے اور 10 لاکھ بچے جبر ی مشقت پر مجبور ہیں پا کستان میں جبری مشقت کے حو الے سے صرف پنجاب نے ہی بھٹہ خشت پر کاروائیاں کی ہیں پر بس اڈاوں ہوٹلوں اور ورکشاپس وغیرہ کو نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ دیگر صوبو ں میں بچوں سے جبری مشقت اور تشد د کے حوالے سے صورت حا ل ابتر ہے اب جبری مشقت کی جگہوں بس اڈاوں ورکشا پس وغیر ہ پر کا م کر نے والے بچے تعلیم سے تو محروم ہو تے ہیں پر وہا ں پر انتہا ئی غیر محفوظ ہوتے ہیں جن کو تشدد کے سا تھ جنسی حوس کا نشا نہ بنایا جاتا ہے اس کے علاوہ بے روزگا ری گھر یلوں جھگڑ وں کے با عث والدین خود تو زہر پی کر مرتے ہیں سا تھ ہی ان مصوم بچوں کی زندگی بھی نگل جاتے ہیں کہیں والد ین کے تشد د سے گھر سے بھا گے بچے مرے ہو ئے ملتے ہیں تو کچھ جنسی زیادتی کا شکار یا پھر گھر سے بھاگے بچے جر ا ئم پیشہ بن جاتے ہیں

پڑھے لکھے باشعور دولت مند اپنے بچوں کو تو تعلیم اور سہولیات دلواتے ہیں پر کسی غریب کے بچے کو تعلیم سے محروم کر کے اپنے گھر وں میں نوکر رکھتے ہیں اور ان پر بہیما نہ تشدد کر کے ان کی جان ہی لے لیتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم اس معاشرے میں بچوں کو تحفظ دینے میں کیوں نا کا م ہوتے جا رہے ہیں ؟ ہم صرف اپنے بچوں کا سوچتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ دوسروں کے بچوں کو بھی ایسی سہولیا ت تعلیم تربیت کیوں میسر نہیں ہے جو ہما رے بچوں کو حا صل ہیں۔ کل کو ان بچوں نے بڑے ہوکر معاشرے کا فر د بننا ہے
 

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 144733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.