مولانا ظفر علی خان

انیسویں صدی کے اواخر میں قیام پاکستان تک کوئی ایسی تحریک نہ ہو گی جس میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا کردار قائدانہ حیشت میں نظر نہ آیا ہو۔ جنگ طرابلس ہو یا تحریک خلافت ہو یا عدم تعاون ،افغان آزادی کا سوال ہو یا مسئلہ فلسطین، شدھی و سنگھئن کی تحریک ہو یا فتنہ راج پال درو تمان، تحریک حریت کشمیر ہو یا مسجد شہید گنج کا مسلہ،مسلہ حجاز ہو یا اسلامی بازار کی مہم، سائمن کمشن ہو یا نہرو رپورٹ ،تحریک پاکستان ہو یا تحریک ختم نبوت،دین دشمن تحریکیں ہو یا آزادی صحافت کا سوال، مولانا ظفر علی خان ایک آتش نوا مقرر اور جادو نگار اہل قلم، نڈر عوامی راہنما اور قادر الکلام شاعر کے طور پر پیش پیش رہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فرنگی حکمرانوں کا خوف نکالنے اور بیداری ملت کا فریضہ جس طرح مولانا نے سر انجام دیا اور تحریر و تقریر سے جو خدمات ادا کیں وہ اپنی مشال آپ ہیں۔ علامہ اقبال نے انکی خدمات کا اعتراف اس طرح کیا کہ ان کی قلم کے کاٹ کو مطفٰے کمال کی تلوار سے تشبیہ دی، قائداعظم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر مجھے ظفرعلی خان جیسے دو چار افراد اور مل جائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مولانا ظفر علی خان ضلع سیالکوٹ کے گاؤں کوٹ میرٹھ میں ١٨٧٢ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا سے حاصل کی۔ مشن سکول وزیر آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسکے بعد سری نگر چلے گئے۔ اسکے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو ان دنوں محمڈن ایم ۔او کالج تھا چلے گئے اور تعلیم حاصل کرنے پر متوجہ ہو گئے۔ وہ کالج میگزین کے ایڈیٹر اور طلبا یونین کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ علی گڑھ میں دوران تعلیم ڈاکٹر ضیا الدین احمد جو بعد میں علی گڑھ کے وائس چانسلر بنے، میر محفوظ علی بد ایوانی آپ کے ہم جماعت رہے۔ علی گڑھ کے ادبی ماحول نے ان کے ذہن اور قلم کو جلا بخشی جس نے برطانوی حکومت کی جڑیں ہلا دیں۔ ١٨٧٥ءمیں بی۔اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور شبلی نعمانی کی تحریک پر نواب محسن الملک کے پرائیوٹ سیکرٹری ہوگئے۔ ساتھ ساتھ ایسٹرئیڈ انڈیا اور ٹائمز آف انڈیا میں لکھنے لگے۔ اور معرکہ مذہب و سائنس کا ترجمہ کیا۔ جسے بہت شہرت حاصل ہوئی۔اسکے بعد آپ حیدرآباد چلے گئے وہاں آپ جوج کے داراترجمہ سے منسلک ہو گئے۔ متعدد کتب کے ترجمے کیئے۔ ایک ادبی جریدہ ریویو جاری کیا۔ اسکا اسلام نمبز بہت مقبول ہوا۔ انجمن الاسلام قائم کی۔ شور محشر کے عنوان سے معرکہ الارا نظم لکھی۔ پھر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں پنجاب کی نمائندگی کی۔ مولانا نے والد کے انتقال کے بعد “زمیندار“ کی باقاعدہ ادارت سنھبال لی، جلد ہی زمیندار پورے بر صضیر میں مشہور ہو گیا۔ اسنے ملت کو بیدار کر کے رکھ دیا اور انگریزی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ زمیندار نے فرنگی حکومت کے خاتمے اور آزادی وطن کے لیئے بے شمار قربانیاں دیں۔ مولانا لاہور میں مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔٢٣ مارچ ١٩٤٠ء کے تاریخی اجلاس لاہور میں پنجاب کی طرف سے قرارداد پاکستان کی تائید میں تقریر کی۔١٩٤٦ءکے جو انتخابات قیام پاکستان کے نام پر پڑھے گئے ،لاہور سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ مولانا جیسے اکابرین کی جدو جہد کی بدولت ہی پاکستان بنا۔ قیام پاکستان کے بعد خرابی صحت کے باعث عملی سر گرمیوں سے الگ ہو گئے۔ ان کی آخری تقریر جامہ پنجاب لاہور میں اردو کانفرنس میں بحشیت مہمان خصوصی ہوئی۔ بالا خر یہ مجاہد حریت اور آفتاب ٢٧ نومبر ١٩٥٦ء کو غروب ہو گیا۔
Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 12 Articles with 19712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.