نعتِ رسول ﷺ اور علماءِ دیوبند

کائنات میں سب سے افضل، انبیاء کے سردار اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف حمیدہ میں کہے گئے اشعار کو اردو میں نعت رسول ﷺ، اور عربی میں مدح النبی ﷺ کہتے ہیں۔ شخصیات کی تعریف میں قصیدے پڑھنے اور کسی شخص کی ہجو کرنے کا رواج زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ جب کفار مکہ نے حضور اکرم ﷺ اور مذہب اسلام کی مخالفت میں جنگ وجدال کے ساتھ شاعری کا بھی سہارا لیا تو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات پر صحابۂ کرام کی ایک جماعت (حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن زہیر، حضرت کعب بن مالک اور حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ عنہم وغیرہ) نے کفار مکہ کی ہجویہ شاعری کا مقابلہ شاعری سے ہی کیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں اشعار پڑھ کر آپ ﷺ کا دفاع کیا اور مذہب اسلام کے محاسن وخوبیاں بیان فرمائیں۔ حضور اکرم ﷺ کی تعریف وتوصیف میں اشعار کہنے والوں میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا نام سر فہرست ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کا شمار بہترین شعراء میں ہوتا تھا۔ آپ آخر عمر میں اسلام لائے تھے، ضعف کی وجہ سے غزوات میں شرکت کرنے کے بجائے زبان سے جہاد کرکے حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا وفاع کیا کرتے تھے، اور اسلام دشمن شعراء کی ہجو کا مسکت جواب دیتے تھے۔ اسی لیے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو شاعر رسول کا لقب دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر حضور اکرم ﷺ کی طرف سے مفاخرت کریں، یعنی حضور اکرم ﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں، حضور اکرمﷺ کی طرف سے مدافعت کریں اور کفار کے الزامات کا جواب دیں۔ حضور اکرم ﷺ یہ بھی فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرئیل علیہ السلام) سے حسان کی مدد کرتے ہیں جب تک وہ دین اسلام کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ (ترمذی ، ابوداود، مسند احمد) حضور اکرم ﷺ کو اپنی تعریف کروانا مقصود نہیں تھا اور نہ ہی آپﷺ پسند فرماتے تھے کہ کوئی شخص اُن کی توصیف بیان کرے، لیکن جب مشرکین مکہ کی جانب سے شاعری کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، اور اُن کے شعراء نے نبی اکرم ﷺ کی ہجو کی اور مذہب اسلام کی برائیاں بیان کیں تو آپ ﷺ نے حضر ت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر شعراء کو اس میدان میں اترکر مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ انہوں نے آپﷺ کے اعلیٰ حسب ونسب اور ظاہری جمال کو ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے کردار اور صفات خاص کر آپ ﷺکی امانت داری، صداقت ، عدالت، بہادری، جودوسخا، محبت، مہمان نوازی، شفقت اور دشمنوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کو بیان فرمایا۔ اس طرح آپ ﷺ کی زندگی میں ہی آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے اور دشمنان اسلام کو جواب دینے کے لیے شاعری کا استعمال کیا گیا۔ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد بھی آپ ﷺ کی مدح میں اشعار کہنے کا سلسلہ جاری رہا، چنانچہ شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺکی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کی شان میں اشعار پڑھے۔ خطیبوں نے اپنے خطبوں میں، ادیبوں نے اپنی تحریروں میں، اہل سیر نے سیرت کی کتابوں میں، محدثین نے شمائل میں، مؤرخین نے تاریخی کتابوں میں، علماء نے اپنے وعظ ونصائح میں اور شعراء نے اپنی شاعری میں حضور اکرم ﷺ کے ظاہری وباطنی جمال کو بیان فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے جس ذات اقدس کو وہ عالی وبلند مقام بخشا ہو جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کسی انسان کو نہیں دیا گیا اور نہ قیامت تک دیا جائے گا، اُس ہستی کی تعریف کرنے پر بھی یقیناًاللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں دیگر انبیاء کرام کے برخلاف آپ ﷺ کو نام سے مخاطب کرنے کے بجائے آپﷺکے اوصاف سے خطاب فرمایا۔ اگر کسی جگہ پر آپ ﷺ کا نام نامی محمد یا احمد قرآن کریم میں آیا بھی تو وہ صرف اور صرف نبی ورسول کے ذکر کے ساتھ، یعنی آپﷺ کی نبوت اور رسالت کا اعلان کرنے کے لیے۔
شعراء حضرات‘ سرور کائنات ﷺ کی مدح میں اشعار کہتے وقت کبھی کبھار قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کو نظر انداز کرکے ایسے اشعار کہہ جاتے ہیں جن میں آپﷺ کی ذات اقد س کو آپ کے منصب سے بھی اس طرح بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ شرکیہ جملہ کہہ جاتے ہیں اور کبھی کبھار حضور اکرم ﷺ کی تعریف میں اس طرح اشعار کہے جاتے ہیں کہ دیگر انبیاء کرام کی تنقیص ہوجاتی ہے۔ مصر کے مشہور شاعر محمد بن سعید البوصیریؒ (608-696ھ) نے آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کی تعریف کی ہے جو دنیا میں ’’قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ انہوں نے بھی بعض اشعار میں نبی اکرم ﷺ کی تعریف ومدح میں غلو سے کام لیا ہے۔

نہ صرف عربی زبان بلکہ دیگر زبانوں میں بھی نبی اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کیے گئے ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو اور فارسی زبان میں بھی نعتیہ شاعری کثرت سے کی گئی ہے۔ اردو وفارسی شعراء بھی بعض اوقات حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ برصغیر میں ایک مکتب فکر نے تو صرف نعت گوئی کو ہی پورا دین سمجھ لیا ہے، یعنی فکر رسول کو نظر انداز کرکے انہوں نے صرف ذکر رسول پر ساری صلاحیتیں لگادی ہیں۔ دوسری طرف بعض حضرات مدح النبی ﷺ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی اکرم ﷺ بذات خود نعتیہ کلام سنا کرتے تھے۔ یہ دونوں ہی فریق افراط وتفریط کا شکار ہیں۔

1857ھ میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برصغیر کی مشہور ومعروف علمی شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریک سے متاثر علماء کرام کی ایک جماعت نے ہندوستان میں دینی مراکز ومدارس کے قیام کی شدت سے ضرورت محسوس کی تاکہ بعض مغربی ممالک کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کا دینی تشخص خطرہ میں نہ پڑ جائے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے دیوبند شہر میں 30 مئی 1866 بمطابق 15 محرم الحرام 1283ھ میں ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسہ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ اِس وقت یہ مدرسہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ حنفی مکتب فکر کا دنیا میں سب سے بڑا اور جامعہ ازہر کے بعد دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی قرآن وحدیث کی 150 سالہ خدمات کا اِس وقت دنیا میں کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔

علماء دیوبند نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیشہ معتدل راستہ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ نعتیہ کلام کی اہمیت وضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے علماء دیوبند حضور اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کرنے میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کا مکمل طور پر خیال رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے اوصاف پر مشتمل نعت پڑھنے کو باعث اجر وثواب اور انتہائی سعادت کا کام سمجھتے ہیں، لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ کو رب العالمین کا بندہ اور اس کا برگزیدہ وآخری رسول تسلیم کرتے ہیں۔ لہٰذا نعتیہ کلام میں کسی بھی شرکیہ جملہ یا دیگر انبیاء کرام کی شان میں کسی بھی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اس ادارہ سے منسلک بے شمار علماء کرام نے اپنا وقت نبی اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ قلمبند کرنے میں لگایا ہے، چنانچہ ادارہ کے بانی حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے بھی نعتیہ کلام پیش کرکے اپنے اور ادارہ کے لیے سعادت حاصل کی۔ موصوف کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
الٰہی کس سے بیاں ہوسکے ثنا اس کی
کہ جس پہ ایسا تیری ذات خاص کا ہو پیار
تو فخر کون ومکاں زبدۂ زمین وزماں
امیر لشکر پیغمبراں شہِ ابرار
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار

شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کے شاگر د اور امام العصر ومشہور محدث علامہ انور شاہ کشمیری ؒ ، جن کو عرب وعجم میں حدیث کا امام کہا جاتا ہے، نے حدیث کی عظیم خدمات کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ کی شان میں مسلسل نعتیہ کلام پیش کرکے یہ عظیم سعادت حاصل کی ہے:
شَفِيْعٌ مُطَاعٌ نَبِیٌّ کَرِيْمٌ
قَسِيْمٌ جَسِيْمٌ بَسِيْمٌ وَسِيْمٌ

آپ ﷺ شفاعت کرنے والے، آپ ﷺ کی اطاعت فرض ہے، آپ ﷺ اللہ کے نبی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم ہیں، آپ ﷺ خوبصورت، خوش قامت، تبسم فرمانے والے اور صاحب جمال ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒ کے نعتیہ کلام کا ایک شعر پیش خدمت ہیں:
سَیِّدُ السَّادَاتِ فَخْرُ الْاَنْبِيَاءِ
مُکْمِلُ التَّوحِيْدِ مَحَّاءُ الْمِلَل

فخر الانبیاء سارے نبیوں سے بڑے ہیں، توحید کو کامل کرنے والے اور تمام ادیان کو مٹانے والے ہیں۔
ترانۂ دارالعلوم دیوبند تحریر کرنے والے حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ کی تحریر کردہ نعتیں عصر حاضر میں کافی مقبول ہیں۔ موصوف نہ صرف ایک اچھے انشاپرداز تھے بلکہ آپ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ترانۂ دارالعلوم دیوبند اس کی جیتی جاگتی ایک مثال ہے۔ استاذ محترم حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ کے نعتیہ کلام کے چند نمونے پیش ہیں:
تیرگی کیا ہے؟ نظر کے ٹھوکریں کھانے کا نام
زندگی ہے آپ کے احسان فرمانے کا نام
صبح صادق آپ کے نورِ جبیں سے مستنیر
رات ٹھہرا کا کلِ مشکیں کو لہرانے کا نام
آپ کا ہر نقشِ پا ٹھہرا صراطِ مستقیم
کفر ٹھہرا آپکے قدموں سے ہٹ جانے کا نام

علماء دیوبند کی جانب سے نبی اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ کو قلمبند کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ علماء دیوبند کے نعتیہ کلام پر کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ ا س مختصر مضمون میں تو مکتب فکر دیوبند سے منسلک اُن شخصیات کا نام بھی ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے حضور اکرمﷺ کے شان میں نعتیں تحریر فرمائی ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا قاری محمد طیبؒ ، مولانا محمد بدر عالم مہاجر مدنیؒ ، مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ، مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ ، مولانا مفتی نسیم احمد فریدی امروہویؒ ، مولانا قاری سید صدیق احمد ثاقب باندویؒ ، مولانا شاہ حکیم محمد اخترؒ ، مولانا سید سلیمان ندویؒ ، مولانا ظفر احمد تھانویؒ ، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عامر عثمانیؒ ، مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانیؒ ، مولانا نسیم احمد غازی مظاہریؒ ، مولانا شاہ اسعد اللہ، مولانا قمر عثمانی، مولانا ظفر جنکپوری قاسمی، مولانا عبد الرؤوف بلندشہری، مولانا نفیس شاہ الحسینیؒ ، مولانا ولی اللہ قاسمی بستوی، مولانا عبدالرحمن ساجد اعظمی اور مولانا احسان محسن قاسمی نے بھی نبی اکرم ﷺ کی شان میں بے شمار نعتیں تحریر فرمائی ہیں۔ علماء دیوبند کے نعتیہ کلام پر مزید تفصیلات کے لیے مدرسہ شاہی مرادآباد سے اپریل 2005 میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’’ندائے شاہی‘‘ کا خصوصی نمبر (نعت النبیﷺ) پڑھیں ۔

شعراء حضرات اگر عالم باعمل ہوں تو نعتیہ کلام افراط وتفریط کے عیوب سے پاک وصاف ہوتا ہے ، اور اسی نوعیت کی مدح النبی ﷺ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور اُن کے دیگر رفقاء کیا کرتے تھے۔ چنانچہ علماء دیوبند کی نعتیہ کلام میں نبی اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ (مثلاً شجاعت، سخاوت، شرافت، دیانت، امانت، صداقت، عدالت، محبت، شفقت، رحمت اور شفاعت وغیرہ) خوب بیان کیے جاتے ہیں، مگر غلو کے بجائے سرور کائناتﷺ کے ظاہری وباطنی جمال کو ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ساری مخلوق میں سب سے افضل بشر کی مدح اور توصیف کا حق ادا کرنے کی کاوش میں حصہ لیا جائے لیکن شرک جیسے بڑے گناہ کا شائبہ پیدا نہ ہو۔ آپﷺ کے عالی وبلند مقام مرتبہ کو ذکر کیا جاتا ہے مگر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺافضل البشر وافضل الرسل وخاتم النبیین ورحمۃ للعالمین ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، جیساکہ کلمہ شہادت میں ہرمسلمان اعتراف کرتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ علماء دیوبند کے نعتیہ کلام میں دیگر انبیاء کرام کے مقابل حضور اکرم ﷺ کی صفات کو ضرور ذکر کیا جاتا ہے ،مگر دیگر تمام انبیاء کرام کا مکمل احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ نیز ذکر رسول کے ساتھ ساتھ فکر رسول کی تعلیم وترغیب دی جاتی ہے، یعنی جس طرح نبی اکرمﷺ کا ذکر دنیا میں خیر وبھلائی اور سکون زندگی کا باعث ہے، اور قیامت کے دن اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر عظیم دیا جائے گا۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ جس شریعت کو لے کر اس دنیا میں مبعوث ہوئے اس کے نفاذ کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی پہلے اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کے احکام کو نبی اکرم ﷺ کے طریقہ پر بجالائیں اور ساتھ میں اپنی جان ومال ووقت کی قربانی پیش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری اور دوسروں کی ہدایت کے فیصلے فرمائے اور ہم دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والے، قیامت کے دن حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک سے حوض کوثر کا پانی پینے والے اور نبی اکرمﷺ کی شفاعت کے مستحق بنیں۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.