قوم کو جرت مند طاقتواربنانے اور متحدہ کر نے میں
قومی لیڈر کا بہت بڑا کردار شامل ہوتا ہے جب لیڈر کسی ظالم طاقتوار کے
سامنے ڈٹ جائے تو پھر قوم چاہے جتنی ہی کمز ور کیوں نا ہو اس کے حوصلوں کو
ایک توانائی مل جا تی ہے اور جب قوم کے لیڈر اپنے مفاد کی خاطر قومی مفادات
کا جنازہ نکالتے ہیں اور اپنے عہدے کو بچانے کے لئے کسی طاقتوار کے سامنے
سرجھکا کر ان ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تو قوم میں مایوسی جنم لیتی ہے اور وہ
ملک و قوم کی تباہی کا سبب بنتا ہے لیکن ایسا لیڈر جو بہادر ہو دشمن کی
سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کر نے وا لا ہو اور قوم کے ساتھ مخلص ہو اپنے ذاتی
مفاد کو پس پشت ڈال کر سب سے پہلے اپنی قوم کے با رے میں سوچتا ہو تو قوم
بھی ہر وقت اس کے ساتھ کھڑی ہو تی ہے چاہے جیسے بھی حالات ہوں ایسے ہی ایک
اعظیم لیڈر جو امریکاکو ناکوں چنے چبواتا رہا جس کا ملک دنیا کے نقشے پر
ایک چھوٹا سا ملک کیوبا ہے اسی ملک کا بہادرانقلابی لیڈر فیدل کا ستروجس کا
انتقال گزشتہ برس 25نومبر 2016 کو 90 سال کی عمر میں طو یل علالت کے بعد
ہوا
فیدل کاسترو انقلابیوں کے اس قبیلے کے آخری چشم و چراغ تھا جنہوں نے بیسویں
صدی میں کمیونزم کا علم اٹھا کر سرمایا دارانہ نظام کو چیلنج کیا۔ فیدل
کاسترو اس سلسلے کی آخری کڑی تھے تاہم انہوں نے کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب
کو اب تک کامیابی سے سنبھالے رکھا- ان کی موت سے نظریاتی جدوجہد کے ایک عہد
کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ کیوبا امریکا سے 90کلو میٹر سمندری دوری کے راستے
پرواقعہ ہے جس کی کل آبا دی سوا کروڑ زیادہ ہے فیدل کاسترو کو یہ اعزاز
حاصل رہا ہے وہ طویل عرصے تک دنیا کے کسی ملک سربراہ رہے ہیں کاسترو ایک
امیر گھرانے میں پیدا ہوا‘ زندگی کی ہر قسم کی آسائش اس کو میسر تھی پر ملک
کی حالت بہت ابتر تھی۔ جب کیوبا کو سپین سے اٹھارویں صدی میں آزادی ملی تھی
لیکن کیوبا کو آزادی کے بعد کوئی ایسی قیادت نہ مل سکی جو عوام اور ملک کے
حالات میں سدھر لے آئے۔ فیدل کاسترو جب جوان ہو ا تو وہی خراب صورت حال ہر
طرف بھوک افلاس بدامنی عدم مساوات جرائم منشیات یہ سب کچھ عام تھا جس کی
وجہ سے کیوبا کی عوام ایک المناک زندگی بسر کر رہی تھی کاسترو نے قوم کو
بچانے کی ٹھا ن لی اور ایک انقلابی گروہ تشکیل دیااور ایک قریبی علاقے کے
پہاڑوں میں بڑے پیما نے پر منصوبہ بندی کر بتیسا حکومت کا تختہ الٹ دیا
بتیسا کی حکومت ایک امریکا نواز حکومت تھی جب کاسترو اپنی جدو جہد میں
کامیا بی پر ہوانا میں داخل ہوا تو دس لاکھ لوگ سڑکوں پر اس کی جھلک دیکھنے
کے لئے انتظار میں کھڑے تھے جب کاسترو نے وہاں خطاب شروع کیا تو اس پہلے
فاختہ چھوڑی گئیں تو ایک فاختہ کاسترو کے کندھے پر آن بیٹھی جو ایک یاد گا
لمحہ تھا ۔انقلاب کے بعد امریکانے کیوبا پر تجارتی پا بندیاں لگا دیں۔
کاسترو نے اس کے جواب میں سوویت یونین سے ہمدردیاں حاصل کرنا شروع کر دیں
اس پر امریکاکو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ایک کمزور اور چھوٹا سا ملک
جو اس کی بجائے اس کے بڑے دشمن پر انحصار کر رہا ہے جس پر امر یکانے کیوبا
کو سردجنگ کا میدان بنا دیا امریکا نے 1961 کو کاسترو کو اقتدار سے ہٹانے
کی سر جوڑ کوشش کی جس کی خاطر غیر فوجی دستوں کو امریکہ میں تربیت بھی
فراہم کر تا رہا لیکن کاسترو نے اسازش کو مکمل طور پر نا کا م بنا دیا اور
اس کے فوجیوں نے ان باغیوں کو بڑی تعدا د میں ہلاک کیا ۔
1962 میں امر یکا نے اس بات کا پتہ لگا لیا کہ سوویت یونین (روس) کے میزائل
کیوبا میں خفیہ طور پر نصب ہو چکے ہیں جس کے جواب میں امر یکا نے ترکی میں
اپنے میزائل نصب کر کے سوویت یو نین (روس) کو جواب دیا سوویت یو نین (روس)
نے کیوبا پر پیسے کی بارش جاری رکھی وہاں پر بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے
زراعت کو ترقی دی چینی بنا نے کے کارخانے لگا ئے اور کارخانوں کی پیداوار
کو خود خرید کر کیوبا کے معاشی حا لا ت کو بہتر کیا کاسترو نے سوویت یو نین
پر انحصار کے ساتھ اپنے تعلقات دوسرے ممالک کے ساتھ مضبوط کیے اور اپنے
اتحادی بنائے 1980میں جب عالمی منظر نام تبدیل ہوتا ہے اور سوویت یونین پاش
پا ش ہوتی ہے تو جس پر امریکا اور روس میں ایک خفیہ معاہدہ طے پایا جاتا ہے
جس کے مطابق امر یکانے ترکی سے اور روس نے کیوبا سے اپنے اپنے میزائل ہٹا
لیے اور روس نے کیوبا سے معاشی ہاتھ پیچھے کھنچ لیا جس کی وجہ سے کیوبا کی
عوام کی حالات بھوک کی زندگی میں دوبارہ داخل ہوگئی۔ اکثریت عوام نے کیوبا
سے ہجرت شروع کردی اور امریکا کی ریاست فلورایڈا میں جا نے لگے کاسترو نے
ان بحرانو ں کا مقابلہ جواں مردی سے کیا عوام کی بہتری کے منصوبے بنا ئے جس
میں خاص طور پر صحت اور تعلیم کے نمایاں کام تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کاسترو
نے ایک مرتبہ پھر کیوبا کو مضبوط کر لیا۔
فیدل کاسترو امریکہ کے دشمنوں کی فہر ست میں اول نمبر پر تھا۔ امر یکا نے
کاسترو کو 634 مرتبہ مارنے کی کوشش کی کافیدل کاسترو سنگار پینے کا شوقین
تھا اس کے سنگار میں زہر شامل کیا گیالیکن وہ وہاں سے بچ گیا ۔سوئمنگ پول
میں کرنٹ چھوڑا گیا اس کی محبوبہ کو مارنے کا ٹاسک دیا گیا لیکن وہ امر یکا
کی ہر سا ز سے بچنے میں کا میا ب رہا امریکی سابق سفارتکار کے مطابق امریکا
کی حکومت فیدل کاسترو کی حکومت کے خاتمے کے لئے ایسے پاگل رہی جیسے کوئی
بھیڑیا پورے چاند کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ کاسترو بہت بہادر تھا۔ ایک مر تبہ
فید ل کا سترو سے کسی نے سوال کیا آپ بلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنتے ؟ تو
کاسترو نے جواب دیا میں نے اخلاقی جیکٹ پہن رکھی ہے امریکاجیسا سپر پاور
اکیلے فیدل کاسترو کونہ مار سکا اور نہ ہی کاسترو کے اقتدار کا تختہ الٹ
سکا فیدل کاسترو کو اقتدار سے معزول کرنے کے خواب میں امریکا کے اپنے دس
صدور اس عرصہ کے دوران تبدیل ہو گئے جن میں ڈیوڈ ڈی ‘ کینڈی‘بی جوبانس‘
رچیڑڈ ایم نیکسی ‘آرفورڈ‘جمی کاٹر‘رونالنڈریگن‘بش اول‘ کلنٹن ‘بش جو ئینر
جبکہ آخر میں ابامہ بھی ۔فیدل کاسترو نے ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال مقابلہ کیا تو ساتھ ہی عوام کو ہرممکن سہولت فراہم کرتے رہے وہاں کی
عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولت مفت حاصل ہیں اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی
وہ کبھی بھی علاج کے لیے ملک سے باہر نہیں گئے۔
کیوبا میں عام کام بھی بجلی کی توا نا ئی کے ذریعے کیے جا تے ہیں حتیٰ کہ
گھر وں میں کھانا بھی بجلی کے ذریعے پکا یا جا تا ہے اور خاص طور پر اس گھر
میں بجلی کے سہولت کے علاوہ گیس کا سلنڈر حکومت کی طر ف سے فراہم کیا جا تا
ہے جس گھر میں اگر شوگر کا کوئی مریض ہو۔تاکہ کسی بھی وجہ سے بجلی کی فر
اہم معطل ہو تو شوگر کے مریض کے لئے فوری طور پر کھانا پکایا جا سکے اگر
گیس کا سلنڈر ختم ہو جائے تو دوبارہ بھر وا کر دینا بھی حکومت کی ذمہ داری
ہے جس کے لئے حکو مت ایک پیسہ بھی نہیں لیتی ہے یہ سہولت گورنمنٹ کی طر ف
سے مفت فر اہم کی جا تی ہے فید ل کاسترو میں انسانیت کا جذبہ بہت بلند تھا
جب پا کستا ن میں زلزلہ آیا تو کیو با کی حکو مت نے پا کستا ن میں
2700افراد پر مشتمل ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ایک بڑی ٹیم روانہ کی
اور تقربیاً 2008 میں پاکستان کے ایک ہزار طلبا ء کو کیوبا میں بغیر کسی
فیس واخراجات پر میڈیکل کر ڈگری ایم بی بی ایس کروایا ۔فیدل کاسترو نے مرنے
سے پہلے ہدایت کی کہ میری کوئی یاد گار نہ بنائی جائے۔ اس کے علاوہ کیوبا
کی پارلیمنٹ نے ایک ایسا بل پاس کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی شاہرا یا عمارت
کو ان کے نام سے منسوب نہیں کیا جائے گا ان کا نام تشہر میں بھی استعمال
نہیں کیا جائے گا۔یہ ہوتے ہیں لیڈ ر جو ہمیشہ اپنی عوام کے دلوں میں زندہ
رہے ہیں
|