بڑے برسوں سے انسانیت کے تیئں
تہذیب یافتہ سماج نے مختلف قسم کے معیار رائج کئے ہیں کہ معیارِ زندگی بلند
ہوا کرے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہر انسان صبح کی سیر کرنے کسی ہرے بھرے مقام
پر کسی ندی کے کنارے ٹہلے‘ کثرت کرے۔ راہ راست پر چلے اور سر اٹھا کر اور
نظر ُجھکا کر چلے ۔ گاہے گاہے صحت افزا مقامات کی سیر کو جائے۔ اللہ میاں
کی بنائی ہوئی حسین دُنیا کا نظارہ کرے۔ درخت لگائے‘ اناج اُگائے وغیرہ۔
یعنی یہ کہ قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کو سنوارے سجائے اور سنبھالے۔
کچھ عرصہ پہلے شہرِ دلی میں خبر گرم تھی کہ جو شخص سڑک پر تھوکتا ہوا پایا
جائے گا اسے میونسپل کمیٹی دس رُوپے کا جرُمانہ کرے گی۔ اس پر عمل سے پہلے
ہی ایک اور خبر عام ہوئی کہ سرکار ایسا نہیں کرے گی کیونکہ انتخابات آنے
والے ہیں اور لوگ سڑکوں کو اگال دان اور واش بیسن سمجھ لینے کے اس قدر عادی
ہیں کہ ان کی کمائی کا بڑا حصہ جُرمانے کے طور پر نکل جانے کا خدشہ پیدا ہو
جائے گا۔ چنانچہ راجدھانی کی جن سڑکوں اور گلیوں پر ِدلی کے لوگ قدم رنجہ
فرماتے ہیں وہاں انسان بزرگوں کی، نظر جُھکا کر چلنے والی نصیحت کی نفی
کرنے پر مجبور ہوگیا کہ جابجا غلاظت پسندوں کی حرکتوں سے نفاست
پسندوں کے اُبکائیاں لینے پر مجبور ہونے سے بہتر ہے کہ نظر زمین کی جانب
اُٹھے ہی نہیں۔ حالانکہ ترقی کی راہ پر گامزن ممالک میں ایسا نظر نہیں آیا
کرتا بلکہ خود ہمارے ملک میں جہاں کہیں انسان کو مشینوں نے کم کم چُھوا ہے
اور اس کے اندر ذرا ذرا سی معصومیت بچی ہے وہ اپنے پہاڑوں ‘ اپنے پانیوں کا
بڑا احترام کرتا ہے مثال کے طور پر آپ کو مسوری، منالی، موہالی، وغیرہ کی
سڑکوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے نظریں جُھکا کر چلنے میں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔
ویسے آپ گاہے گاہے نظر اُٹھاتے بھی رہئے کہ اطراف میں حسین فضا اور جگہ جگہ
سے آئے لوگ بھی دلچسپی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
زمینی حُسن اور انسانی دلچسپیوں کی کمی ہماری ریاست ِ جموں و کشمیر میں بھی
نہیں تھی۔ ہماری وادی کے مرغزار ‘ پرندے ‘ پہاڑ ‘ ندیاں اپنی مثال آپ ہی
تھے۔ میزبانی ‘ حلیمی ‘ نفاست ، خلوص اور نہ جانے کیا کیا اللہ تعالیٰ نے
ہم پر رحمت کی طرح برسا دیا تھا۔ ہمارے ذرّیں ہاتھوں والے دستکار کرہ ارض
کے سب سے نفیس اور باریک بین فنکار ثابت ہوئے ہیں۔ سیاحت سے جُڑی صنعت ہی
ہماری معیشت رہی ہے مگر۔۔ اب سب ہماری اپنی لاپرواہیوں کے سبب خطرے میں نظر
آتا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریوں کے تئیں کیسے لاتعلق ہوگئے ہیں۔ پانچ سو سال کی
غلامی نے ہم سے ہماری شناخت نہیں چھینی تھی مگر اب ہم خود اسے گنوانے پر
تُلے ہیں۔ اپنی فضا سے خفا ہیں ، اپنے فن سے بے پرواہ ہیں۔ نہ جانے کس ڈگر
کو جارہے ہیں۔
ہم جان لیوا درّوں اور دشوار گزار راستوں سے جا جا کر، ایک نیٹِو سے لے کر
دوسرے نیٹِو کو کوڑیوں کے مول دئے گئے اس خطے میں باہر سے در آئے حاکم کی
افواج کا سامان ڈھونے کی بےگار کرتے تھے ۔( وہ بھی ایسے سفر کے ذریعے جہاں
پہنچنے والے اکثر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور جن کے جسدِ خاکی تک ثالم
شکل میں اپنی زمین تک نہیں پہنچائے جاتے تھے بلکہ بریدہ سروں کو لاریوں میں
بھر کر واپس وادی کو بھیجا جاتا تھا اور اس بے زبان قوم کے جگر خراش نالے
بے اثر جاتے رہتے تھے)۔ ہمارے جفاکش دوسروں کو سجانے کے لئے اپنی بینائی داﺅ
پر لگا کر ،چراغ کی لو تلے جاگ کر پورے کُنبے سمیت گُل بوٹے کاڑھتے تھے۔
جبھی شاعرِ ذی حس نے یہ ستم دیکھ کر کہا تھا ،
بریشم قبا خواجہ از محنتِ او
نصیب تنش‘ جامہ تار تارے
اب خود کو خود سنوارنے کی مہلت ملی تو ہم اپنے گردو پیش سے ہی بے پرواہ
ہوگئے۔ ایسے بے حس ہوگئے گویا پتھر ہوں۔ ہمارے پیڑ پودے، پہاڑ ندیاں،
جھیلیں جھرنے ہی تو ہماری شناخت ہیں۔ ان کے نہ ہونے سے ہمارا وجود کہاں رہے
گا ۔ ہماری انفرادیت کیسے بچے گی ۔اپنی زمین سے، اپنی مٹی سے محبت کا ایک
ثبوت یہ بھی ہے اور بڑا اہم ثبوت ہے کہ ہم اس گیتی کی کا کلیں سنواریں۔ اس
کے حُسن کی حفاظت کریں ۔اسے برباد ہونے سے بچائیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی
جانب دیکھا جائے تو ایک بڑی بات یہی نظر آئے گی کہ لوگ اپنی فضا کا احترام
کرتے ہیں۔ جہاں تک ہوسکے اسے سنبھالتے ہیں نکھارتے ہیں سجاتے ہیں بچاتے ہیں۔
خُدا معلوم کب ہمارے یہاں احترام کا یہ جذبہ پیدا ہوگا۔ شہر سرینگر کی ڈل
جھیل کی تازہ شکل کسی کم گاڑھے دلدل سے کسی طرح الگ نظر نہیں آتی۔ یہ صدیوں
پرانی ہستوالیک دل نام کی جھیل جس کا پانی زمانہ قدیم سے کہیں سے آکر کہیں
نکل جایا کرتا تھا ،کسی صدی میں اس زبوں حالی کی شکار نہ تھی جتنی اب نظر
آتی ہے۔ یہ جھیل جس پر ریاست کا دارالحکومت واقع ہے اس لاتعلقی کی حقدار تو
ہرگز نہیں تھی۔ میرا قلم یہ جملے تحریر کرتے کرتے کپکپا رہا ہے اور ابھی اس
مٹی پر بھی ایسی آنکھیں موجود ہیں جو یہ سطریں پڑھ کر ڈبڈبائیں گی۔ دُکھ یہ
ہے کہ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی تاریخ اپنے وِرثے اور اپنے
اجداد کی نشانیوں سے کوئی جذباتی لگاؤ نہیں رکھتے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور
غلط انداز سے حاصل کی ہوئی دولت کے سبب بے حس افراد نے قدرت کی نعمتوں کو
ضرورت کے تئیں دیکھنا شروع کردیا ہے کیوں کہ ان کے اندر محبت کا فقدان ہے
جوایک مرض ِ لادوا ہے۔ان کے آنکھوں کو جھیل کے پانی کا حُسن یاد ہی نہیں ۔
سیماب ایسے اس تڑپتے پانی کی اُس شفافیت کا ذکر ان کا دل ہی نہیں دُکھاتا
جس میں جھانک کر تہہ میں اُگی گہری ہری گھاس کی جڑیں تک نظر آتی تھیں۔ اس
پر تیرتی رنگ برنگی کشتیاں یاد ہی نہیں جنہیں جوشیلے کشتی بان ایک دوسرے سے
سبقت لے جانے کی خوشی میں د ل کی شکل کے چپوؤں سے کھیلتے زندہ قوم کی علامت
کی طرح خوش و خرم معلوم ہوتے تھے ۔ روزگار کا وہ اہم ترین وسیلہ وہ فراموش
کر چکے ہیں جو سیاحت کی و جہ سے ہمارے اقتصادی توازن کا ایک اہم جُز تھا۔
ہماری آنکھوں کے سامنے نالہ مار رفتہ رفتہ ہماری لاپرواہیوں کے سبب بدل کر
سڑک ہوگیا ایک زمانے میں جس پر کشتیاں چلا کرتی تھیں۔ موٹر گاڑیوں کا چلم
عام ہونے سے پیشتر گھاٹوں پر رسدگاہیں ہوا کرتی تھی ۔ پانی پر لوگوں کے
رہائشی کشتی گھر ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ وہ بھی بھول گئے۔ یہ کیسے غیر ذمے
دار ہوگئے ہیں ۔شُتر مرغ کی طرح آنکھیں میچ کر اپنے گِردوپیش سے بے خبر
ہوجاتے ہیں۔ جس طرح چکنے گھڑوں پر پانی کا قطرہ نہیں ٹھہرتا اسی طرح ان کی
آنکھوں میں ایسا کوئی منظر جذب ہو کر ان کے بے مروّت اذہان تک جاتا ہی نہیں
۔ ان کے سنگدل سینوں تک کسی شے کی درد ناک صورت ِحال کیسے پہنچے گی جب وہ
تلخ حقیقتیں بیاں کرنے والی چیزیں دیکھنے پر قادر ہی نہیں ۔ انہیں صرف وہ
نظر آتا ہے جو ان کی بے حِس آنکھیں دیکھنا جانتی ہیں ۔ جس سے ان کی حرس
پسند طبعیت خوش ہوتی ہے۔
ابھی کچھ رور پہلے روزنامہ’ کشمیر اعظمیٰ‘ میں جھیل آنچار کے بارے میں بھی
اس طرح کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ خبر پڑھتے ہوئے لاشعور دعائیں مانگتا رہا
کہ کچھ مثبت بات بھی پتہ چلے اور بے قرار ہورہی سوچیں قرار پاسکیں مگر ایسا
نہیں ہوا اور دل خون کے آنسو رونے لگا کہ انسان کی شکل کے پتھر اپنی تہذیب
اور تاریخ کی جڑیں کھودتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے قدرتی جھیلوں
کو وسیع کروا کر اور اہم بنا دیا۔ ان پر بند باندھ دئے ۔ ان میں مصنوعی
جزیرے بلند کئے ۔ ان پر درخت اور باغ لگوائے۔ ہر طرح سے ان کی نوک پلک
سنواری ۔اور ہم ہیں کہ محض اپنی ذات کے مفاد کی خاطر ،بڑے اہتمام سے انہیں
دلدل میں بدل رہے ہیں ۔ ہم اپنی نسلوں کے لئے کیا چھوڑ کرجارہے ہیں ؟ دور
جدید کے یہ بچے جب نقشوں میں زندہ تاریخ کی ان مردہ نشانیوں کو دیکھیں گے
تو ہماری روحوں کے نام کِتنا ثواب بھیجا کریں گے ۔ مہاراجہ کے دور میں شائع
کُتب کے اندر بعض تاریخ دانوں نے پانچ صدی تک غلام رہے اس کے عام باشندوں
کو غیر صفائی پسند لکھا ہے۔ اور اب،اب بعض مفاد پرست جو نہ جاہل ہیں نہ
مجبور ، اس بات کو سچ کرنے پر تُلے ہیں اور دُنیا بھر میں پورے خطے کی
رسوائیوں کا سامان کررہے ہیں کہ ہم ، اس دنیا کے سب سے خوش شکل لوگ، اس
دنیا کے سب سے خوش منظر خطے کو، اپنی ہی سرزمین کو، اپنے ہی ہاتھوں کس طرح
کوڑے سے پُر کر کے پاٹ دیتے ہیں اور پھر اس پر آسانی سے مکان تعمیر کر کے
خوشیاں مناتے ہیں ۔ اتنی عظیم اور قدیم ، پر شکوہ اور تاریخی جھیل کی لاش
پر بنے گھروں میں کِتنا سکون ہوا کرے گا۔ مانا کہ سب کے مالی حالات یکساں
نہیں ہوا کرتے مگر ان مسئلوں کے اور بھی تو حل ہیں۔
میری اس وادی کے معصوم لوگ ‘ یہ خوددار لوگ ‘ یہ مہمان نواز لوگ ‘ یہ حَسین
لوگ اتنے لالچی تو نہ تھے ۔ ان کی نفسیات میں یہ کون سا عنصر داخل ہوگیا
ہے۔ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار کر کوئی اِستادہ رہ سکتا ہے؟ گِر نہیں
جائے گا ؟ مر نہیں جائے گا َ؟ ہم جس تاریخی ورثے پر گردن اُٹھا کر چلے ہیں
۔ جس سیاحت کی وجہ سے ہماری اقتصادیات پنپتی رہی ہے وہ اب کسی محفوظ مستقبل
کا پیش خیمہ نہیں رہی کہ ندیوں کو ہم خشکی بنا رہے ہیں۔ پانی سُکھا رہے ہیں
۔ پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ہوا تو پہلے سے ہی مشینوں نے خراب کردی ہے۔ اب
ہم اپنے ٹیلوں او ر پہاڑوں پر کبھی مستقل اور کبھی عارضی بستیاں بسا کر ہر
ضائع کردینے والی شے اپنے اطراف پھینکتے جارہے ہیں۔ اپنی ندیوں میں گندگی
ملا رہے ہیں اور نتیجتاً اپنے اندر بھی زہر بھر رہے ہیں۔ پہلے ہم چوطرفہ
عظیم اور پُرشکوہ پہاڑوں سے گھری ہری بھری وادی اور شفاف جھیلوں اور ندیوں
کی تازہ ہواؤں سے تازہ دم اور ہر حال میں اپنی شناخت سے محبت کرنے والے
حسین اور صحتمند باشندے تھے ۔ اب ہم حرص فطرت ‘ بیمار نیّت ‘ طامع طینت لوگ
، دلدلی پانی ‘ بیمار فضا اور آلودہ ہوا پر پل رہی رحم طلب مخلوق ہیں جو
اگرابھی بھی نہ سنبھلی تو کُل عالم اس پر ہنسے گا اور آنے والا زمانہ اس کی
عقل کا ماتم کرنے کے علاوہ اس پر ترس کھاتا رہے گا ۔ ایسے جُرم سے دامن بچا
کر ہم کہاں بھاگ سکتے ہیں ۔ ہم سب گنہگار ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس زمین کی
بے حُرمتی کی ہمیں سزا ملے گی۔ ہماری وادی کا حسن ہمارے ہی ہاتھوں اجڑ رہا
ہے ۔ ہمارے پانیوں کے سرچشمے آلودہ ہو رہے ہیں ۔ہمارے چشموں نے ابلنا بند
کردیا ہے کہ ہم نے ان کے راستوں میں روڑے اٹکا دئے ہیں ۔ہمارے دریا تنگ
ہوگئے ہیں ۔ہمارا دریائے لدر بھی خراب ہو گیا ہے۔ سُنا ہے بلکہ پڑھا ہے اور
وہ بھی ’ گریٹر کشمیر ‘ جیسے ستم گر اخبار میں جو کڑوے سچ بولنے میں ذرا
نہیں ٹھہرتا‘ کہ لدر میں گندگی تیرتی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین نے اس کی
شفافیت کے خطرے کا اعلان کردیا ہے۔پلاسٹک کی خالی تھیلیاں بہہ بہہ کر اس کے
ہر موڑ کی روانی میں مخل ہوتی ہیں ۔ چند مخصوص مہینوں میں روزانہ پندرہ
ہزار کلو کے قریب گندگی پہلگام کے پہلو میں بہنے والی اس ندی کے سُپرد کردی
جاتی ہے۔ اس سرزمین کے پرکھوں نے پہاڑوں اور ندیوں کو دیویوں اور دیوتاؤں
کے نام دے رکھے تھے۔ کتنا فخر تھا انہیں اپنے اس ورثے پر ۔اور اب۔؟ یہ کیسی
شردھا ہے؟ یہ شردھا لو کون ہیں؟ جن کو اپنے معبد کو جاتے راستوں کی حرمت کا
کوئی خیال ہی نہیں۔ پانی کہیں سے نکل کر کہیں مل جاتا ہے۔ ایک پانی خراب
ہوا تو کئی اور پانیوں پر اثرانداز ہوگا ۔ ہم پھر کہاں جائیں گے تازہ ہواؤں
کی خاطر۔ میکانکی زندگی سے کچھ گھنٹوں کے سکون کے لئے پانی کے کنارے ،
ہریالی پر چاندنی بچھا کر قہوے کے سماوار کیسے سلگائیں گے ۔ ہوا اور پانی
انسان کی اہم ضرورت ہے۔اپنے پانیوں میں ملاوٹیں بھر کر ہم کیوں کر زندہ
رہیں گے۔
شہر ِ سرینگر میں رہ کر جھیل ڈل کے اطراف سے گزر تے، اپنی بے حسی کا
جُرمانہ اپنی نم آنکھوں سے ادا کرتے، پری محل اور مغل باغات کو دامن میں
بٹھانے والے کوہِ زبرون کی اس حسین و جمیل ملکہ کی تباہی کا ہم ماتم کرتے
رہیں گے، جس کے روپہلے آنچل پر شام ڈھلے چاند ستاروں کا عکس اور آبی گھروں
کی روشنیاں رقص کیا کرتی تھیں۔جس کے کناروں پر سار سارا دن فیروزی پروں،
نیلے حلقوم اور لمبے منقار والے شقراق اڑتے پھرتے تھے۔ جس کے سیمابی پانی
میں چمکیلی مچھلیاں اٹھکھیلیاں کیا کرتی تھیں ۔ جس کی چار چناریوں سے اطراف
دیکھنے پر پانی کی وسعتوں میں قدرت کے کرشمے جھلکا کرتے تھے اور فطرت سے
ناطے جڑ جاتے تھے۔اب ہم وہ مناظر کبھی نہ دیکھ پائیں گے ۔اسی طرح جھیلِ
آنچار کو بھی روتے رہیں گے ۔جس میں اگنے والے کمل کے بڑ ے بڑے پھول مرجھا
گئے ہیں اور اب ان گلابی نیلوفروں کے وجیہہ پتوں پر ہیرے کی کنی ایسے پانی
کے قطرے ہوا کے ہلکوروں سے موتیوں کی طرح اِدھر اُدھر نہیں لڑھکا کریں
گے۔اب اس کے کمل ڈوڈوں کی لذیز اور نازک گریاں کسی زبان کے ذائقے کی تسکین
نہیں بنیں گی ۔ آیوڈین سے بھر پور اس کی کمل ککڑیاں سوکھ گئی ہیں،اب اس خوش
ذائقہ سبزی کے کُرمُرے قتلے ،پالک کے ساگ کے ساتھ اس کی حیاتین سے پُر
ترکاری اور مچھلی کے ساتھ پکنے والا اس کا سالن پرانی بات ہوجائے گی کہ اب
اس سبک خرام جھیل کا پانی ، گھول کر بھولی ہوئی مہندی سا ہو گیا ہے۔ جس کے
اطراف پھیلے تعفن سے جی متلا تا ہے ۔
ایسے مزید خدشوں سے دلوں کو دھڑکا سا لگا رہے گا تو کیسے جئیں گے۔ کیا رفتہ
رفتہ سب بگڑ تا جائے گا۔ بکھرتا جائے گا ۔ کیا پانیوں کا نقاب سرکا کر وجود
میں آنے والی اس وادی کشمیر کا پانی پھر کبھی شفاف نظر نہیں آئے ۔ یونہی
برباد ہوہو کر بیوا کے آنسوؤں کی طرح خشک ہوجائے گا۔
کہتے ہیں نا امیدی کفر ہے ۔ کیا اس مٹی پر کوئی گیتی آرا موجود نہیں ۔
صدیوں پہلے واد ی میں ہر سال آنے والی طغیانی سے بچانے کی خاطر ایک دانا
وزیر،حکیم سویہ نے پانی میں اشرفیاں پھینکوائی تھیں اور لوگوں نے ان کی
تلاش میں مٹی نکال نکال کر کناروں کو بلند کردیا تھا کہ پھر کبھی اُدھر
سیلاب نہیں آیا اور راجہ نے اس حکیم کے نام پر سویہ پور بسایا تھا جو اب
بھی سوپور کے نام سے مشہور ہے۔ کیا اب سُویہ جیسے کسی حکیم کے پاس کوئی
حکمت نہیں بچی۔ |