موقع ہاتھ سے جانے نہ دو

میں صبح اٹھا اور سیدھا موبائیل ڈھونڈنے لگا اور اس میں چیک کرنے لگا کہیں اس کے میسج تو نہیں آئے ہوئے مگر دیکھ کر خوشی ہوئی اس کے میسج آئے ہوئے تھے میں نے رپلائے دیا اور اٹھا نھانے چلا گیا اس طرح میرے دن کا آغاز ہوا میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں میں اپنے والد کے خرچے پر پلتا ہوں میرے پاس کوئی روزگار نہیں پڑھائی میں بھی میں کچھ خاص نہیں میرے والد نے بس کیسے بھی کر کے مجھے یہاں تک پڑھایا میرے والد چاہتے ہیں کہ میں زندگی میں سنبھل جاؤں اپنی زندگی بنائوں اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاؤں مگر مجھے کچھ بھی پروا نہیں جوانی میں ہوں اور پیار میں بھی صحیح لکھا ہے کسی نے بھی“بندے تو کام کے ہم بھی تھے مگر عشق نے نکمہ کر دیا“ پھر کیا نہ میں اپنے وقت کی قدر کر سکا اور نہ ہی اپنی زندگی بنا سکا۔

وہ مجھے ملی میرے بھائی کی شادی میں میں نے دیکھا اور بس دیکھتا رہے گیا اس کے چہرے کی سادگی اس کے کھلی زلفیں اس کے چھرے پر مسکراہٹ سچ میں اس دن مجھے نصرت فتح علی خان صاحب کا ایک گانا ہے “آفریں آفریں“ جس طرح ہر ایک حصہ کی تعریف کی اس گانے میں میرے دل و دماغ میں بھی وہی گانا چل رہا تھا اتنی پسند آئی ایک ہی نظر میں۔ اور قسمت میری وہ لڑکی میری کزن نکلی جس کو آج پہلی بارہی دیکھ رہا تھا میں نے بہت کوشش کی بات کرنے کی مگر کیسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اللہ سے دعا کرتا کہ اللہ بس اس سے ملادے اگر اتنی دعا میں کسی ملک کے صدر بننے کی کرتا تو آج میں صدر ہوتا بس پھر کیا۔۔۔۔۔ موقع ملا بات کرنے کا مگر میسج پر سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے کیا بولوں پتہ نہیں رپلائے دے بھی یہ نہ کہیں اپنے والد کو بول دیا تو رشتہ داری خراب ہوگی۔۔۔۔۔ مجھے پتہ لگا وہ فیسبک پر ہےمیں نے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور واپس کینسل کر دی سمجھ ہی نہیں آرہا تھا نہ کہ کروں کیا بس پھر ایک دن کوشش کر کے بھیج ہی دی پورے دن بے چین رہا ایک ڈر سا رہا کہیں برا مان گئی تو کہیں اپنے والد کو بتا دیا تو مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور ریکویسٹ ایکسیپٹ ہو گئی میری خوشی کی انتہا نہیں تھی مجھے ایسا لگ رہا جیسے وہ مل گئی ہو میں لفظوں میں بتا نہیں سکتااپنے جذبات اب ایک اور مصیبت اس سےبات کیسے شروع کروں سلام یا ہائی ہیلو کچھ ٹائم سوچنے کے بعد بات سلام پر مانی میں نے سلام کا مسج کیا اوردل کی دھڑکن باہر تک سنائی دے رہی تھی سانسیں تیز تھی جیسے ابھی فرشتہ ائے گا اور بس لے جائیئگا اچانک رپلائے آیا سب دھیمے پڑ گئے میری سانس میری دھڑکن میری آنکھیں نم میرے اللہ نے میری سن لی تھی میں بس اسکے سلام کے جواب کو دیکھتا رہا یہ تو بھول ہی گیا کہ میں نے بات شروع کی ہے پھر ہوش میں آیا اور اس طرح ہماری بات شروع ہوئی پھرآہستہ آہستہ وہ بھی دلچسپی لینے لگی مجھ میں میں نے موبائیل نمبر مانگ لیا ہم دنوں بہت قریب ہو گئے تھے ایک دوسرے کے پھر تو دن رات ایک ہو گئے -

مجھے اسکے ساتھ کسی اور کا نام تک پسند نہیں آتا مجھے اسکے کھونے کا ڈر ہوتا میں اسکو پانے کی ہر کوشش کرتا مگر مجھے نہیں پتہ ہوتا کہ وہ بھی میری ہونا چاھتی ہے کہ نہیں میری بہن کو پتہ لگا کہ میں اپنی کزن سے بات کرتا ہوں انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا بڑی بہن تھی اوریہ بات ویسے بھی نہیں چھپتی میں نے ہاں میں گردن ہلا دی اور یہ بھی بول دیا کہ مجھے اس سے ہی شادی کرنی ہے اتنا اندھا ہو گیا تھا اسکے پیار میں میری بہن نہ ایک ہی بات بولی لڑکی والے اندھے نہیں ہوتے دیکھتے ہیں کہ لڑکا ہے کیا روزگار ہے ہماری بیٹی رکھ سکے گا کہ نہیں پھر میں کوئی جواب نہیں دے سکا میں ایک طالب علم تھا اپنے والد کے پیسوں پر گزارا کرتا ہوں اس بات نے مجھے پریشان کر دیا مگر سچ میں اگر پیار سچا ہو تو آپ جب اس سے بات کر رہے ہو ساری ٹینشن مصیبتیں بھول جاتے ہو اور وقت کا پتہ ہی نہیں لگتا کب رات گزری کب سورج آکر بھی چلا گیا مجھے سب اسے حاصل کرنا تھا مگر کیسے میرے پاس کچھ نہیں تھا ایک پیار دیکھ کر کوئی مجھے اپنی بیٹی نہیں دیگا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہیں جاب کیلئے اپلائیں کروں تو مارکس میں مار کھا جاؤں مطلب کوئی زندگی ہی نہیں بنائی ہوئی میں نے اپنی ایک پیار ہی تو زندگی نہیں چلائیگا نہ مجھے آگے بھی کچھ کرنا پڑیگا مگر ایک ہی سوال ہمیشہ تنگ کرتا اور وہ ہے “کیسے“ ہر بات کا ایک ہی سوال ہوتا کیسے۔ میں اپنے ماضی کی غلطیوں کو یاد کرتا اور کہتا کاش میں اس ٹائم کچھ کر لیتا۔ یہ کاش لفظ جس کی زندگی میں آجائے وہ اپکی پھر آپکی زندگی بھر کا محتاج بن جاتا ہے آپ پھر اس لفظ کو کبھی بھی نہیں نکال سکتے اپنی زندگی سے۔

ایک دن اچانک میسج آیا مجھے دیکھنے والے آرہے ہیں میسج دیکھ کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی میں کھڑا ہوا بیٹھ گیا دماغ نے کام کرنا تک چھوڑ دیا میں کیا کہتا منع کردو میں کرونگا تم سے مگر مجھے کیوں دینگے کیا ہے میرے پاس جو دینگے میں کیا بولتا میں سکتہ میں آگیا پھر ایک اور میسج آیا کہ مذاق تھا۔ میرے انسوں جیسے تیار بیٹھے ہوں نکلنے کیلئے کچھ دیر بعد جا کر سانس میں سانس آئی۔ ایک دن میرا اپنی امی کے ساتھ انکے گھر جانا ہوا میں اس سے ملا باتیں کی اس دن اس نے بولا کہ کوئی جاب ڈھونڈ لو یہ پڑھائی کو سیریس لو اور اسکا یہ کہنا بلکل درست تھا میرے پاس کچھ نہیں تھا اپنے والد کے پیسے پر تو نہیں پال سکتا تھا اسے میں گھر آیا محنت کرنے لگامگر تب تک دیر ہو چکی تھی اسکی بات پکی کر دی گئی تھی اور وہ بھی میرے ساتھ نہ آنے کو تیار تھی اسنے مجھے ٹھکرا دیا تھا کیونکہ میرے پاس کچھ نہیں تھا وہ اپنی جگہ بلکل ٹھیک تھی مگر اتنے سال وہ میرے ساتھ رہی میں نہیں بھلا سکتا تھا اسکی یاد ہر وقت ستاتی مگر میں کھو چکا تھا اسے میں نے اپنے ہاتھ سے اسے کھویا جس کیلئے دن رات ایک کیئے اللہ سے مانگا وقت کی پرواہ بھی نہیں کی میں نے اسے کھویا جس کی ہر وقت پروہ رہتی مجھے میں نے اسے کھو دیا تھا میں ہار گیا تھا زنگی میں ۔ میں مر گیا تھا اپنےآپ میں میں کسی کام کے قابل نہیں رہا تھا میں سچ میں اپنے اپکو کھو چکا تھا میری کوئی زنگی ہی نہیں تھی میں اسے نہیں بھلا سکتا تھا میں اس کیلئے خود کو بھلا بیٹھا تھا میں زندہ موت مر گیا تھا۔

Rana Qamar
About the Author: Rana Qamar Read More Articles by Rana Qamar: 2 Articles with 3164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.