تو پھر مانگ لی چھٹی!
9 نومبر ۔
علامہ محمد اقبال ، نہ صرف پاکستان کے قومی شاعر بلکہ شاعر مشرق کی تاریخ
پیدائش ۔ ایسی شخصیت جن کے جیسی سوچ اور فہم نہ ان سے پہلے کسی کو ملی نہ
انکے بعد۔ مجھے تعریفوں کے پھول نچھاور نہیں کرنے کیونکہ وہ کسی تعریف کے
محتاج نہیں۔
میں بس یہ کہنا چاہوں گی کہ خدارا خود پر ایک احسان کرو!
جس طرح سے پاکستانی قوم اپنی محسنوں کو بھولتی جارہی ہے ، عملی طور پر تو
پہلے بھی یاد نہیں رکھا ہوا ہم نے انہیں اوراب باتوں میں بھی نہیں رہے تو
یہ احسان فراموشی ہمیں مہنگی پڑے گی۔
کیا ہمیں یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ ایک احسان جو علامہ اقبال پاکستان ہمیں دے
کر گئے تھے اب اس پاکستان میں ہم جب تک آزادی کا سانس لے رہے ہیں ہر ہر
آزاد سانس کے ساتھ انکا ہم پر قرض بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ میں دور نہیں جاتی
بس ان مسلمانوں کا حوالہ دیتی ہوں جنکو ہم پیچھے ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے
آپ ان سے ہی آزادی کی قدر پوچھ لیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ، ہندوستان
میں اتنا تعلیمی شعور آجانے کے باوجود بھی وہ مسلمان ابھی تک ہم لوگوں کی
طرح آزاد سانس نہیں لے سکے ، ہماری طرح بغیر کسی خوف کے کسی چیز پر حق نہیں
جما سکے ، مسلم ہونے کا طعنہ ابھی بھی ملتا ہے انہیں ، اپنے مذہبی تہوار تک
آزادی سے نہیں منا سکتے کیونکہ ہندوان پر اپنا مذہب مسلط کرتے ہیں اور عید
الضحی پر قربانی کرنے والوں میں سے کئی لوگوں کو مار بھی دیا جاتا ہےاور سب
سے بڑھ کر ان مسلمانوں کی حب الوطنی تک کو قبول نہیں کیا جاتا انکا اس ملک
کے لیے لڑنا حتی کے جان دے دینا بھی مشکوک ہی سمجھا جاتا رہے گا۔
میں ہندوستانیوں کو نشانہ نہیں بنا رہی میں بس مسلمانوں کی بات کر رہی ہوں
کہ اے مسلم تمہارے نام کے ساتھ عالمی سطح پر دہشت گرد جڑ چکا ہے، تمہارا
قومی لباس دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے دنیا تمہارے قرآن کو جھوٹا ثابت
کرنے پر تل گئی ہے ،بار بار ناموس رسالت کے مسلے بنا کر تمہارے دل سے
تمہارے پاک نبی کا احترام اور ادب نکال رہی ہے ، حتی کہ دنیا کے تمام ترقی
یافتہ ممالک کی اقوام ہمارے منہ سے یہ سنتے ہی کہ ہم مسلم ہیں یا تو ہم سے
ڈر جاتی ہیں یا ہم سے یا نفرت کرنے لگتی ہیں ۔
مگر چلیں اگر ہماری بے حسی اتنی ہی بڑھ چکی ہے کہ ہم اس آزادی کے احسان کو
یاد ہی نہیں رکھنا چاہ رہے اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہ رہے بلکہ ہمیں چھٹی
چاہیے تو میں صرف یہی کہوں گی کہ اقبال کو تم چاہے یاد نہ رکھو ، چاہے انکے
قصیدے نہ پڑھو ، انکو اسکی ضروت ہے ہی نہیں ۔
مگر خدارا خود پر ہی ایک احسان کرلو !
کبھی یہ سوچو تو ذرا کہ انکے کلام میں آخر ایسا کیا تھا کہ جس نے سالوں
کبھی انگریزوں اور کبھی ہندؤں کی غلام رہنے والی مسلمان قوم جسکی اپنی کوئی
شناخت رہی ہی نہیں تھی اس قوم میں ایسا جذبہ و جنون بھر دیا کہ وہ ہر ہر
طرح کی قربانی دے کر بھی پاکستان لینے پر باضد ہوگئے تھے ۔ وہ مسلمان
جسمانی غلام تھے تب بس اور ہم ؟؟؟؟؟؟
ہم ذہنی غلام ہیں ہمیں علامہ اقبال کے کلام میں چپھے اس پیغام کی زیادہ
ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ نہ صرف جان لینا بلکہ مان لینا چاہیے کہ انکے کلام میں
ہی ہمارے لیے وہ خود شناسی ، اور آگہی ہے جو ہمیں اس نازک مرحلے پر دوبارہ
سر اٹھانے کی ہمت اور جرت دے سکتی ہے ۔ بس مجھے مزید لفاظی نہیں کرنی!
بولنے کا کیا ہے جتنا مرضی بول لوں تقاریر کردوں۔
بس تم سے ایک درخواست ہے کہ علامہ اقبال پر نہیں خدارا خود پر احسان کرو ،
تم ذہنی غلام قابل رحم ہوتے جارہے ہو خود پر ترس کھاؤ ، میرے ان الفاظ کو
پڑھ کر لمحہ بھر کے لیے جذباتی ہو کر ، خیالی ارادے بنا کر پھر بھول مت
جانا جو کہ تمہاری پرانی عادت ہے۔ جس وقت کا ضیاع تم نے چھٹی چھٹی کی گردان
کرتے ہوئے کیا ہے اس میں اپنا تھوڑا احتساب بھی کر لینا!
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
دیکھ لو اقبال خود ہی کہ گئے!
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
|