تین بار حکومتیں بنانے کے باوجودمیاں نواز شریف صاحب کو
اب یہ بات مان لینی چاہیے کہ ان میں انتظامی صلاحیتوں کی بہت کمی ہے اس لیے
وہ کسی ایک دور میں بھی اپنی حکومت کو عمدہ انداز میں منعظم نہ کرسکے ہیں ۔تین
دہائیوں سے اس ملک پر اپناراج پاٹ قائم کرنے والے شریف خاندان نے اس طویل
عرصے میں کوئی بھی ایسا قابل قدر اقدام انہیں اٹھایاہے کہ جسے دیکھتے ہوئے
کسی محاز پر ان کی ملکی خدمات کااعتراف کیا جاسکے ،یعنی شریف خاندان نے
اپنے ہردور اقتدارمیں کوئی ایک ایسا عمل نہیں کیا جس سے عوام کو خوشحالی
میسر ہوتی یا ان کے مسائل حل ہوتے۔ ان تین دہائیوں میں کسی ایک دور میں بھی
وہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرتے تو شایدانہیں اس قدر مسائل کا
سامنا نہ کرنا پڑتاجو انہیں آج درپیش ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنے شاہانہ
طرزنظام کو تقویت دی اپنے مداح سراہوں کو نوازا اورعوام کو اپنا غلام
سمجھااور اس ہی بادشاہانہ انداز کو وہ ملک او ر قوم کی خدمت سمجھتے رہے ،شریف
خاندان اور ان کے حواری اگر اپنے جارحانہ اور حاکمانہ رویوں کی بجائے
اداروں کی عزت کرتے اور عوام کے لیے فلاحی منصوبوں پر اپنا دھیان خرچ کرتے
تویقینا انہیں عوام میں اس قدر زلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔یہ ہی شریف
خاندان کی سب سے بڑی اور سنگین غلطی ہے جسے ہر دور میں جان بوجھ کر دھرایا
جاتا رہا ہے اور اس کا نتیجہ انہیں نہ صرف خود برداشت کرنا پڑا بلکہ اس
کانقصان ملک اور قوم دونوں کو ہی اٹھانا پڑاہے ۔عقیدہ ختم نبوت کے معاملے
میں اسلام آباد میں تحریک لبیک یارسول اﷲ کے دھرنے کو اٹھانے کی کوششوں میں
میڈیا پر شاید مشرف نے بھی اسقد ر پابندیاں نہیں لگائی تھی جو عمل اس وقت
جمہوریت کے علمبرداروں نے کیا ،جس کی وجہ یہ ہے کہ شریفوں کے بنائے گئے
جمہوری نظام میں مسلسل اقتدار کی بدولت ان میں" نوائے قیصری" بہت بڑھ گئی
ہے ۔حکومت نے دھرنے سے ناکامی پر میڈیا کو قدغن لگا کراس بات کا ثبوت
دیاتھا کہ حکومت ان معاملات کو سنبھالنے میں ناکام رہی ہے ،دھرنے کے اس عمل
میں نفع صرف ان حکمرانوں کو پہنچایا گیا جو اس وقت عدالتوں میں تاریخیں
بھگت رہے ہیں اس جھمیلے کو جاری رکھ کر شاید یہ عوام کے ذہنوں سے شریف
خاندان کی پیشیوں کو نکالنا تھا جو اس وقت ایک بڑے پیمانے پران کے لیے
زلالت کا باعث بنتی جارہی تھی جبکہ حکمرانوں کو میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کا
موقع بھی تو چاہیے تھا اور یہ تاثر دینا تھا کہ جب ہم ایک دھرنے کے باعث
سینکڑوں چینلوں کو بند کرسکتے ہیں تو پھر ان کے لیے حکومت پر تنقید کرنے
والے صحافیوں اور چینلوں کو بند کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔خیر میڈیا تو
حکومتی ناکامیاں 2013سے ہی دکھا رہاہے جس کا غصہ کسی نہ کسی طرح تو نکالنا
ہی تھا،یہ طے ہے کہ حکومت اپنی جھوٹ کی بنیادو ں اور اور خراب ہوتی ساکھ کو
اب مزید زیادہ دیر قائم رنہیں رکھ سکتی ، کیونکہ ہر دور کے بھیانک اختتام
کی طرح ایک بار پھر سے ان کی حیثیت زیرو ہوچکی ہے ، جہاں تک فوج کی بات ہے
کہ ملک میں کوئی بھی سانحہ ہو یا پولیو کے قطرے پلانے کی بات !! حکومت نے
ہمیشہ فوج سے ہی مدد طلب کی ہے اور ایک بارپھر ہم نے دیکھا کہ دھرنے کے
احتجاجی شرکاء سے خود کو بچانے کے لیے بھی حکومت نے فوج سے ہی مد د طلب کی
ہے جبکہ یہ ہی وہ فوج ہے جس کا پیار ایک عرصے سے اپنے ہر بیان میں عوام کے
دلوں سے ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ،حالانکہ اس دھرنے کو اٹھانا
سول حکومت کے بس سے بلکل ہی باہر ہوچکا تھا فوج کی ثالثی نے ہی سول حکومت
کی لاج رکھی ہے۔اور دوسری جانب عدلیہ !! جس کا حکم یہ ہے کہ نوازشریف نااہل
ہے ! مگر اس کو ماننے کے لیے کوئی بھی حکومتی وزیرتیار نہیں ہے، مگر دھرنے
اٹھانے کے لیے بار بار میڈیا میں آکر یہ ضرور کہا جارہاہے کہ دھرنا اٹھانے
کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جارہاہے ،کیایہ کھلا تضاد نہیں
ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت اب اس قابل نہیں رہی ہے کہ وہ اب عوام
میں اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا بھی پیٹ سکے حکمرانوں کے شاہانہ انداز کو جاری
رکھنے کے لیے قومی خزانے سے کرپشن اور بے وقتے فیصلوں کی وجہ سے انہیں
مسلسل شرمندگی اٹھانا پڑ رہی ہے ،جس سے شاید وہ اب کبھی بھی نہ نکل سکیں۔
اس دھرنے میں ایک وزیرکو بچانے کے لیے سب ڈرامہ رچایا گیا۔ایک ایسا وزیرجس
کی وزرات کی عمر بھی بس تین سے چار ماہ باقی رہ گئی ہو۔ حکومت نے اپنی
جاہلانہ سوچ کو پوری قوم پر اس طرح سے عیاں کردیاہے کہ اس ملک کے حکمران نہ
صرف نااہل ہیں بلکہ اول درجے کے بے وقوف بھی ہیں زاہد حامد کو اگر اسی روز
مستعفی کردیا جاتا تو شاید ملک کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ حکومت اس وقت یہ
چال چل رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ملک میں افراتفری کا ماحول گرما دیا
جائے اور عوام کے ذہنوں میں جو ان کی لوٹ مار کا زخیرہ بھر چکاہے اس کی جگہ
نت نئے دوسرے مسائلوں کو بھردیا جائے،شاید اسی وجہ سے انہوں نے عقیدہ ختم
نبوت کی شق سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے زاہد حامد کو وقت گزارنے کے لیے سو جوتے
بھی مروادیئے اور انہیں سو پیاز بھی کھلادی ہیں۔ پنجاب میں شریف خاندان کو
سیاسی لحاظ سے ہمیشہ سے ہی مذہبی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہیں مگر
اس واقعہ کے بعد اب نہ صرف نواز لیگ کے ووٹرپر نہ صرف فتوئے لگنے باقی ہیں
بلکہ پنجاب سمیت دیگر مقامات پر شریف خاندان کو جن مذہبی حلقوں کی سپورٹ
حاصل رہی ہے وہ اب اس واقع کے بعد ختم ہوجائے گی۔کیونکہ ان مذہبی حلقوں میں
اب یہ بات پوری طرح سے پھیل چکی ہے کہ حکومت نے عقیدہ ختم نبوت کے معاملے
میں امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ختم نبوت کے حلف نامے کی عبارت
تبدیل کی تھی ۔ شاعر مشرق علامہ کا ایک شعر شاید ان ہی حکمرانوں کے لیے کہا
گیا ہوگا۔
جمہورکے ابلیس ہیں اربا ب سیاست ۔ باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک ۔
موجودہ جمہوری نظام کے لبادے میں میں آمریت کی شیطانی چالیں چلنے والے
سیاستدانوں نے لفظ جمہوریت کا سہارا لیکر جمہور کے قتل کا جس انداز میں
جمعہ بازار لگا رکھاہے اورآج پاکستان میں جس جمہوریت کا پرچار کیا جارہا ہے
وہ علامہ اقبال کے ایک اور شعر کے ہو بہو ہے ۔
ہے وہی سازکہن مغرب کا جمہوری نظام ۔ جس کے پردوں میں نہیں غیراز نوائے
قیصری۔
|