ہرقسم کی تعریفات، اللہ وحدہ لاشریک کی ذات
بابرکا ت کیلئے،درودوسلام امام اعظم صادق المصدوق حضرت محمدرسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ،مطہرہ ،منزہ ،مصفہ پرکہ جس نے بنی نوع انسان
کی رہنمائی اور ہدایت کیلئے سخت تکلیفات برداشت کیں۔وہی شخص آ پ پرایمان
لاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرتا ہے جس کے نصیب میں اللہ
تعالیٰ نے نیک بختی رکھی ہے اور وہی آپ کے معجزات سے روگردانی کرتا ہے کہ
جس پر اللہ تعالیٰ نے بدبختی لازم کردی ہے،کیونکہ جو اس دنیا میں اندھارہا
وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اللہ تعالیٰ نور یقین کے ساتھ میرے اور آپ
کے دل کو منور کرے اور ہمارے اوپر ایسی مہربانی کرے جیسی اپنے ان برگزیدہ
محبوبوں پرفرماتا ہے جس کو اس نے اپنی مقدس مہمانی سے مشرف فرمایااور اپنی
محبت میں ایسا وارفتہ کیا کہ وہ مخلوق سے بیزار ہوگئے اور اپنی ملکوت کے
عجائب اور اپنی قدرت کے آثار کے مشاہدہ کیلئے ان کو مخصوص کردیاان کے قلوب
صافیہ کو مسرور کیا،ان کی عقلوں کی اپنی شان وشوکت سے حیرت زدہ کردیایہ
تیرے برگزیدہ بندے شب وروز تیری دینِ اسلام کی نصرت کیلئے محوومگن ہیں اور
تیر ے بنائے ہوئے محل کیلئے دنیاوی محلوں کو قربان کیئے جارہے ہیں ، اس
مختصر تمہید کے بعد قارئین کرام آئیے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
عالیہ کی کچھ امثال پر غور کرتے ہیں اور ارباب مسند ومحراب کے اخلاق عالیہ
کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حضرات نے
کتنا استفادہ کیا ہے جو خود کو دین متین کا وارث سمجھتے ہیں حضرت انسؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے
اخلاق کے حامل تھے سابق راوی ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم کوئی موٹااورباریک ریشم نہیں
چھوا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہرسے پھوٹنے والی خوشبوسے
زیادہ پاکیزہ کوئی خوشبو کبھی نہیں سونگی،اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی آپؐنے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہااورجوکام میں
نے کیااس کی بابت یہ نہیں کہاکہ یہ کیوں کیااورجوکام میں نے نہیں کیااس کی
بابت یہ نہیں کہاکہ اس طرح کام کیوں نہ کیاسیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ
کی قسم !میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے
دروازے پر کھڑے تھے اور حبشی اپنے نیزوں کے ساتھ مسجد میں کھیل رہے تھے
رسول اللہ ؐنے مجھے اپنی چادر کے ساتھ چھپارکھا تھا تاکہ میں آپ ؐکے کان
اور کندھوں کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ سکوں ،پھر جب میں واپس جانا چاہتی
تو آپ ؐمیر ی وجہ سے کھڑے ہوجاتے ، ایک چھوٹی عمر کی لڑکی کا اندازہ لگاؤ
جو کھیل اور کود کی حرص رکھتی ہے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐکے پاس
یہودی آئے تو کہا : السام علیک’’آپ پر موت ہو‘‘آپ ؐنے فرمایا وعلیکم ،تو
عائشہ صدیقہؓ نے یہودیوں سے کہا السام علیکم اور تم پر اللہ کی لعنت اور
غضب ہو ،رسول اللہ ؐنے فرمایا :ٹھہر جاؤ اے عائشہ !تمہیں نرمی کرنی چاہیے
سختی اور فحش سے بچنا چاہیے سیدہ عائشہؓ نے فرمایا آپ نے نہیں سنا کہ انھوں
نے کیا کہا فرمایا کیاتم نے نہیں سنا جو میں نے جواب دیا ؟میں نے انکی بات
ان پر لوٹا دی میری دعا ان کے بارے میں قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا میرے
بارے میں قبول نہیں ہوتی ،سیدناابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا
ہوکر مسجد میں پیشاب کرنے لگا تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے یہ دیکھ کررسول کریم
ؐنے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کابھرا ڈول
یاکچھ کم بھرا ہوا ڈول بہادو کیونکہ تم نرمی کے لئے بھیجے گئے ہو سختی کے
لئے نہیں حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے نیکی
اورگناہ کے متعلق سوال کیاتوآپ ؐنے فرمایانیکی تواچھااخلاق ہے اورگناہ وہ
ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اورتجھے یہ ناگوارہوکہ لوگ اس سے باخبرہوں ،معلوم
ہوا حسن اخلاق نیکی اورخیرہے اس لئے کہ بااخلاق آدمی محاسن اورافعال خیرہی
اختیار کرتااورذائل بدخصلتوں سے اجتناب کرتاہے اورگناہ کی بابت بھی نہایت
عام فہم اصول بیان فرمادیا اس لئے کہ ہربرے کام پرانسان کاضمیراسے ملاقات
کرتاہے ملامت گروں کی ملامت سے بھی وہ خوف محسوس کرتاہے لیکن یہ صرف اس وقت
تک ہی ہے جب تک انسان کی فطرت مسخ اوردل مردہ نہ ہواہوکیونکہ جب فطرت ہی
مسخ اوردل مردہ ہوجائے توپھر بڑے سے بڑے گناہ پر بھی دل میں کوئی کھٹک
پیداہوتی ہے نہ لوگوں کاکوئی خوف ہی اسے محسوس ہوتاہے یہ ایسے ہی ہے جیسے
انسان کی قوت شامہ سونگھنے کی صلاحیت صحیح ہوتووہ تعفن اوربدبوکومحسوس
کراورسونگھ لیتا ہے لیکن ہروقت کوڑے غلاظت کے ڈھیرپررہنے والے کی قوت شامہ
اس طرح ختم ہوجاتی ہے کہ گندگی کے ڈھیرپربیٹھے ہوئے بھی اسے بدبومحسوس نہیں
ہوتی ،حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐکوفرماتے ہوئے سناآپ
ؐفرمارہے تھے ،مومن یقیناًاپنے حسن اخلاق سے وہ درجہ پالیتا ہے جوایک روزے
داراورشب بیدارشخص کے حصے میں آئے گا، عشق رسول ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کسی
بھی صورت میں فریق ثانی کے خلاف بیہودہ زبان استعمال نہ کی جائے مگر افسوس
ہمارے معاشرے اپنی مفادات کی تکمیل کے لیے بہودہ زبان کا استعمال معمول بن
گیا ہے ،محبت رسول ؐ کا تقاضا یہی ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے
دوسرے مسلمان بھائی کوتکلیف پہنچے ۔ |