٭…… الفاظ حروف کے مجموعہ سے وقوع پذیر
ہوتے ہیں، اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی کم کردیا جائے تو باقی حروف اپنے
معنی کھودیتے ہیں، لیکن لفظ ’’محمد‘‘ کا ہر حرف بامقصد و بامعنی ہے
H/L……اﷲ کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام اور زندگی کی قسم کھانا، مستجاب
الدعوات ہونا، پتھروں و حیوانوں کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے باتیں کرنا، آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک اْنگلیوں سے پانی کا پھوٹ نکلنا، رعب سے مدد دیا
جانا، بادل کا سایہ ہونا، کنکریوں کا تسبیح پڑھنا، ایسے علوم کا عطا ہونا
جن کا احاطہ عقل نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے دارِ
آخرت میں ایسے بڑے درجے اور نیکیاں ہیں جو ماورائے عقل ہیں
تحریر : حنظلہ ضمیر منہاس
عام طور پر نام کی صرف اس قدر ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ چند چیزوں میں باہم
امتیاز قائم رہے، لیکن نام کی صحیح اور حقیقی غرض یہ نہیں۔ اسم کو اپنے
مسمیٰ کی صفات، خواص اور حالات کا آئینہ ہونا چاہیے۔ افراد کے نام رکھنے
میں تو اس کا لحاظ کم ہی رکھا جاتا ہے، لیکن ً انواع و اجناس کے نام عموماً
اس مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ مثلاً انسان، مسلم، قوم ۔ جبکہ شاذو نادر طریقے
پر افراد و اشخاص کے ناموں میں بھی اس کا لحاظ کرلیا جاتا ہے جیسے ’’مسیح‘‘
یہ اپنے مسمیٰ کے اوصاف اور خواص کو بیان کرتا ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اﷲ
علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ’’محمد‘‘ بھی اسی قبیل سے ہے، جو اپنے
مسمیٰ کی صفات ، خواص اور حالات کا مکمل عکّاس ہے۔ ذیل میں اس کی ادنیٰ سی
جھلک پیش کی جاتی ہے۔
یوں تو لفظ’’محمد‘‘اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ لیکن اسم مفعول کبھی مبالغہ کے
معنی بھی ادا کرتا ہے جیسا کہ ملا علی قاریؒ لفظ ’’محمد‘‘ کے ترجمہ میں
فرماتے ہیں:
’’الذی حمد مرۃ بعد مرۃ والذی حمد کرۃ بعد کرۃ۔‘‘ ’’محمد وہ ہے جس کی بار
بار تعریف کی جائے اور بے شمار حمد کی جائے۔‘‘ نیزصاحبِ مفردات ’’محمد‘‘ کے
معنی لکھتے ہیں ’’الذی اجمعت فیہ الخصال المحمودۃ‘‘ یعنی مختصر لفظوں میں
یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظ ’’محمد‘‘ کے معنی مجموعۂ خوبی کے ہیں۔ لفظ ’’محمد‘‘
کا مادہ ’ح۔م۔د‘ ہے یعنی ’حمد‘ جس کے معنی تعریف کے ہیں اور یہی ’’احمد‘‘
کا مادہ بھی ہے۔ البتہ دونوں کے مفہوم میں واضح فرق کچھ یوں ہے کہ ’’محمد‘‘
وہ ہے جس کی تعریف و توصیف جملہ اہل ارض و سماء نے سب سے بڑھ کر کی ہو اور
’’احمد‘‘ وہ ہے جس نے رب السموٰت والارض کی حمد و ثناء جملہ اہل ارض و سماء
سے بڑھ کر کی ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ اِسم مبارک ’’محمد‘‘ اﷲ تعالیٰ
کے اسم مبارک ’’محمود‘‘ سے مشتق ہے، جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ
کا یہ شعر ہے
وشق لہ من اِسمہ لیجلہ
فذوالعرش محمود وھٰذا محمد
ترجمہ: ’’اور اﷲ نے ان کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ان کا نام اپنے نام سے
مشتق کیا۔ یعنی رب العرش محمود ہے اور آنحضرت محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)
ہیں‘‘۔ الفاظ حروف کے مجموعے سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، اگر ان میں سے کسی ایک
کو بھی کم کردیا جائے تو باقی حروف اپنے معنی کھودیتے ہیں، لیکن لفظ
’’محمد‘‘ کا ہر حرف بامقصد و بامعنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
1) (اگر لفظ ’’محمد‘‘ میں سے پہلا حرف ’م‘ کم کردیا جائے تو باقی ’حمد‘ رہ
جاتا ہے جس کے معنی مدد کرنے والا یا ’تعریف‘ رہ جاتے ہیں۔
(2)۔ ابتدائی میم (م) کے بعد اگر ’ح‘ کو بھی حذف کردیں تو باقی رہ جاتا ہے
’مد‘ جس کا مطلب ہے دراز اور بلند، جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت و
رفعت کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔
(3)۔ اگر دوسری میم کو بھی ہٹا دیا جائے تو صرف ’د‘ رہ جاتا ہے جس کا مفہوم
ہے دلالت کرنے والا، یعنی اسم ’محمد‘ اﷲ عزّوجلّ کی وحدانیت پر دلالت کرتا
ہے۔
(4) الغرض محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’حمد‘ سے خاص نسبت ہے، جیسا کہ حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسماء مبارکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم، احمد صلی اﷲ علیہ
وسلم، حامد صلی اﷲ علیہ وسلم اور محمود صلی اﷲ علیہ وسلم میں تعریف و توصیف
کا پہلو واضح طور پر نمایاں ہے۔ اسی طرح اْمتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
نام حمادون یا حمادین ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لواء (جھنڈے) کا نام
’لواء الحمد‘ ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’سورۃ
الحمد‘ عطا فرمائی اور کھانے، پینے و سفر کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
امت کو حمد و ثناء پڑھنے کا حکم ملا۔
اسم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور چار انبیاء کرام علیہم السلام:
چار جلیل القدر انبیائے کرام کے ناموں میں یہ خصوصیت ہے کہ ان کے اسمائے
گرامی کے آخری حروف کو جمع کرنے یا ملانے سے لفظ ’’محمد‘‘ بنتا ہے۔
(1)۔ سب سے اوّل نبی جو دْنیا میں تشریف لائے حضرت آدم علیہ السلام…… م
(2) سب سے اوّل صاحب شریعت نبی کا نام حضرت نوح علیہ السلام…… ح
(3)۔ سب سے اوّل ابوالانبیاء کا خطاب پانے والے نبی حضرت ابراہیم علیہ
السلام…… م
(4) تخلیق میں سب سے اوّل اور بعثت میں سب سے آخری نبی حضرت محمد…… د
علماء و فقہاء کے نزدیک اسم’’محمد‘‘ کا مفہوم:
(1)۔ حافظ ابن قیمؒ اسم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شرح میں یوں رقمطراز ہیں
کہ ’’محمد‘‘ وہ ہے جس میں بکثرت تعریف کے اوصاف پائے جائیں۔ ’’محمد‘‘ محمود
سے زیادہ بلیغ ہے۔ ’’محمد‘‘ اس کو کہتے ہیں جس کی اتنی تعریف کی جائے، جتنی
کسی اور بشر کی نہ کی جائے۔ اسی لیے تو رات میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسم
مبارکہ ’محمد صلی اﷲ علیہ وسلم‘ ہی ذکر کیا گیا ہے۔
(2) امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں: لفظ ’’محمد‘‘ کی صحیح معنوں میں تعریف
یوں کی جائے گی…… وہ ذات جس کی حمد و ثناء کثرت کے ساتھ اور بار بار کی
جائے اور جس کی تعریف کبھی ختم نہ ہو۔
(3) علامہ نوویؒ نے شرح مسلم میں ابن فارس وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ ’’آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کا یہ اسم مبارک بِلاشبہ الہام رحمانی تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر والوں کو الہام فرمایا تھا، اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا یہ نام رکھا گیا‘‘۔
(4) قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ اس شخص کی بزرگی اور قدر و تعریف کے بارے میں
کیا خیال ہے جس میں بہترین خصوصیات اس طرح جمع ہیں کہ جن کے کمال کی کوئی
انتہا نہیں اور احاطہ گفتگو میں نہیں آسکتیں اور جو کوشش اور سبب سے پیدا
نہیں کی جاسکتیں، مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ ہی خاص کسی کو عطا فرمادے۔ مثلاً
فضیلت، نبوت، رسالت، خلّت، محبت، برگزیدگی، سیر ملکوت دیدار قرب، نزدیکی،
وحی، شفاعت، وسیلہ، فضیلت و درجہ بلند (مقام محمود)براق، معراج، تمام دْنیا
کی طرف بعثت، انبیاء کی اِمامت، انبیاء اور ان کی اْمتوں پر شاہد، لواء
الحمد کے حقدار، سید اولاد آدم، رحمۃ للعالمین، صاحب کوثر، گزشتہ و سابقہ
اْمور سے معافی، شق صدر، ذکر کا بلند ہونا، فتح کی عزت دینا، سکینہ کا
اْتارنا، ملائکہ کی تائید ہونا، کتاب و حکمت کا ملنا، اْمت کو پاک کرنا، اﷲ
تعالیٰ کی طرف بلانا، فرشتوں کا ان پر درود پڑھنا، لوگوں میں فیصلہ کرنا،
اﷲ کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام اور زندگی کی قسم کھانا، مستجاب الدعوات
ہونا، پتھروں و حیوانوں کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے باتیں کرنا، آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی مبارک اْنگلیوں سے پانی کا پھوٹ نکلنا، رعب سے مدد دیا جانا،
بادل کا سایہ ہونا، کنکریوں کا تسبیح پڑھنا، ایسے علوم کا عطا ہونا جن کا
احاطہ عقل نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے دارِ آخرت
میں ایسے بڑے درجے اور نیکیاں ہیں جو ماورائے عقل ہیں۔(جہاں تک ہماری
انتہائی محدود عقل نہیں پہنچ سکتی)
قرآن میں اسم ’’محمد‘‘:
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب کا نام نامی اسم گرامی ’’محمد‘‘
چار مرتبہ ذکر کیا ہے۔
(1)وما محمد الا رسول (آل عمران: 144)
ترجمہ : نہیں ہیں محمد )صلی اﷲ علیہ وسلم( مگر اﷲ کے رسول۔
(2)ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن الرسول اﷲ و خاتم
النبیین(الاحزاب:40)
ترجمہ:محمد باپ نہیں کسی کا مردوں میں تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ
کااور مہر سب نبیوں پر۔
(3)والذین اٰمنوا وعملوا الصلحٰت واٰمنوا بما نزل علٰی محمد وہو الحق من
ربہم کفر عنہم سیاٰتہم واصلح بالہم O (محمد:2)
ترجمہ: اور جو لوگ اِیمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور جو کتاب محمد )صلی
اﷲ علیہ وسلم( پر نازل ہوئی، اس پر اِیمان لائے۔ اسے مانتے رہے اور وہ ان
کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے، ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی
حالت سنوار دی۔
(4) محمد رسول اﷲ ط…… ( الفتح:92)
ترجمہ: محمد اﷲ کے رسول ہیں۔
احادیث مبارکہ میں اسم ’’محمد‘‘:
(1) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’زمین میں میرا نام محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم اور آسمان میں احمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ اسی طرح توریت میں محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم اور اِنجیل میں احمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے‘‘۔
(2) حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’اے ابوذر! انبیاء علیھم السلام میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور
سب سے آخر میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں (ترمذی)۔
اشعار میں اسم ’’محمد‘‘
ایک شاعر اسم محمد کی توصیف یوں بیان کرتا ہے:
اسم محمد جب بھی میں نے لکھا ہے
میرے قلم نے سرسجدے میں رکھا ہے
میمِ محمد پہلے پیار سے چوما ہے
نام پیارا دال تلک پھر لکھا ہے
ان ہی پر اسلام کی پھر تکمیل ہوئی
نام محمد ہی دین سراپا ہے
سجدہ کیجیے محمد بنتا ہے
بلکہ کل عبادت ان کا جلوہ ہے
اﷲ اکبر ہاتھ اٹھائیے کانوں تک
پہلی میم مبارک کا یہ نقشہ ہے
سبحان اﷲ کر رکوع پھر غور کرو
لفظ ثانی ’’ح‘‘ بن جاتا ہے
دو سجدے ہیں میم مشدّد کے مظہر
اور تشہّد دال کا درجہ رکھتا ہے
بعد تشہد کے تم ان پر پڑھو درود
گویا یہ بھی ان کے نام کا حصہ ہے
سچ پوچھو تو ان کا نام عبادت ہے
ان کا رستہ سیدھا سچا رستہ ہے |