سیرت عربی زبان کے جس مادے سے بنا ہے ، اس
کے لفظی معنی چلنا پھرنا ، راستہ لینا، رویہ اختیار کرنا اور عمل پیرا ہونا
ہیں۔ یوں سیرت کے معنی حالت ، رویہ ، طریقہ ، چال ، کردار ، خصلت اور عادت
کے ہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا (لاٹھی ) کا سانپ بن جانے
کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں آجانے کی طرف استعمال ہوا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
سنعیدھا سیرتھاالاولیٰ۔ ’’ہم اسے اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ‘‘۔اصطلاحی
مفہوم میں اَب سیرت سے مراد صرف آپ ﷺ کی مبارک زندگی کے جملہ حالات لیے
جاتے ہیں۔کسی اور شخصیت کے حالات و واقعات کے لئے لفظ ’’سیرت ‘‘ کااستعمال
قریباً متروک ہوچکا ہے۔لہٰذا آج کل مطالعہ ٔ سیرت ، کتب سیرت ، جلسۂ سیرت ،
سیرت کانفرنس وغیرہ کا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد آپ ﷺ کی سیرت ہی لی جاتی
ہے۔مسلمانوں کے لئے مطالعۂ سیرت ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ
تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمان برداری نہ صرف واجب اور فرض قرار دی ہے
بلکہ آپ ﷺ کی ذات کو ایک بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ شاہ معین الدین احمد
ندوی فرماتے ہیں ۔ ’’ آپ ﷺ کے علاوہ کسی پیغمبر کی زندگی کے چند واقعات کے
سوا ان کی سوانح حیات اور اخلاق و سیرت کے حالات محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے
اُن کی عملی زندگی کو نمونہ کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جا سکتا۔جب کہ آپ ﷺ
کی زندگی کا ایک ایک خد وخال محفوظ ہے‘‘۔ آپ ﷺ قرآن مجید کی چلتی پھرتی
تصویر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک سوال کے جواب
میں فرمایا ۔ ’’ قرآن کریم ہی آپ ﷺ کا اخلاق ہے‘‘۔ ارشاد ربانی ہے۔ ’’ بے
شک آپ اخلاق کے ایک اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں ‘‘۔مسلمانوں کے لئے تو مطالعہ
ٔ سیرت ایک اہم دینی فریضہ ہے لیکن غیر مسلم بھی مطالعۂ سیرت کی ضرورت
محسوس کرتے ہیں۔ البتہ ہر ایک کے مطالعے کی غرض و غایت جدا جدا ہیں۔غیر
مسلم کا سیرت نبوی ؐ پر توجہ دینے کے پیچھے دو بنیادی وجوہات پنہاں ہیں۔
اول۔ وہ اس جلیل القدر پیغمبر کے حالات زندگی معلوم کرنا چاہتے ہیں جنہوں
نے انتہائی قلیل مدت میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کی نظیر تاریخ میں
کہیں نہیں ملتی۔ جیسا کہ ایک برطانوی مستشرق ای۔ای کلیٹ اپنی کتاب میں
پیغمبر اسلام ؐ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا
مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں۔دوم۔ اکثر
غیر مسلم ، اسلام کے خلاف اپنے بغض و عناد کی خاطر بھی مطالعہ ٔ سیرت کو
ایک ذریعہ بناتے ہیں اور وہ واقعات کی حقیق تصویر کو چھپا کر اُن کو توڑ
مروڑ کر ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کو گمراہ کیا جاسکے۔ اس کے
علاوہ مسلمانوں میں اپنی علمی و فکری فقدان اور نئی ملحدانہ تعلیم نے خود
اُن کے ایک بہت بڑے طبقے کو اسلام ، عقائد اسلام اور احکام اسلام سے بیگانہ
کردیا ہے۔پس ایسی صورت حال میں مسلمانوں پرمطالعۂ سیرت کی اہمیت و ضرورت
اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔تاکہ اسلام کی روح کو خود صحیح معنوں میں سمجھا
جا سکے اور دوسروں کو بھی سمجھایا جاسکے۔یہ اُس وقت ہی ممکن ہے کہ جب ہم
سیرت کا مطالعہ فخر و مباہات کی بجائے علمی و فکری ارتقاء کے نظریے سے کریں۔
|