قوم کا اجتماعی شعور
(Tariq Hussain Butt, UAE)
دنیا میں مذہب سے زیادہ کسی بھی چیز میں
طاقت نہیں ہے۔اپنے مذہب،ایمان اور عقیدے کی خاطر انسان سدا سے ہی اپنی
جانیں لٹاتے آئے ہیں اور اس سلسلے کو قیامت تک یوں ہی چلتے رہنا ہے کیونکہ
محبت سدا خون مانگتی ہے اور عاشق خون د ینے سے کبھی نہیں گھبراتے ۔ مذہب سے
محبت کرنے والوں کیلئے جان لٹانا کسی سعادت سے کم نہیں ہوتا اس لئے وہ جان
لٹانے میں سدا پیش پیش رہتے ہیں۔ان کی روح حالت وجد میں پھانسی کے پھندوں
کو یوں چوم لیتی ہیں جیسے ممتا اپنے جگر گوشے کی پیشانی کا بوسہ لیتی ہے ۔انسان
کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ زندگی عارضی اور چند روزہ ہے۔انسان کو جلد
یا بدیر اس دنیا کو چھوڑ کرایسے سفر پر نکل جانا ہے جس میں اسے اپنے اعمال
کیلئے خالقِ کائنات کے روبرو پیش ہونا ہے۔مشرقی اور اور مغربی سوچ میں یہی
ہے وہ بنیادی فرق جس پر اس کے اعمال کا دارو مدار ہوتا ہے اور جس سے ان کی
دنیا ئیں الگ ہو جاتی ہیں اور دونوں کی سوچ کے دھارے الگ الگ سمت میں بہتے
ہیں ۔ مادیت پرست اسی دنیا کی زندگی کو حاصلِ زندگی سمجھتے ہیں اور ان کے
ہاں مرنے کے بعد جوابدہی کا کوئی تصور نہیں ہوتا جبکہ مذہب پر یقین رکھنے
والے افراد مرنے کے بعد کی زندگی کو حقیقی زندگی تصور کرتے ہیں اور اعمال
کا ثمر جنت اور دوزخ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔نیک اعمال کا صلہ جنت اوربرے
اعمال کا نتیجہ جہنم ہے اور اس بات کا فیصلہ کاتبِ تقدیر نے انسان کی
پیدائش کے ساتھ ہی کر رکھا ہے تا کہ وہ اپنی کاوشیں اسی سمت پرصرف کریں اور
شائد یہی وجہ ہے کہ صالح لوگ سدا اچھے اعمال کی ڈگر کے مسافر بنتے ہیں جو
کہ مذہب کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہو تا۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس
کاقیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں آیا لہذا یہاں پر مذہبی جذبات کی شدت
دوسرے ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔یہاں کے لوگ مذہب کے بارے میں بڑے حساس
واقع ہوئے ہیں کیونکہ ان کا وجود مذہب کی مٹی سے تشکیل پایا ہے ۔ میری ذاتی
رائے ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری نے بھی یہاں کے لوگوں میں مذہب
سے وابستگی کو نئی قوت عطا کی ہے۔کچھ لوگ علامہ اقبال کی شاعری کو اسلامی
شاعری سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔علامہ اقبال کی شاعری کا محور
و مقصد وہ عظیم ہستی ہے جو وجہِ تخلیقِ کائنات ہے اور جو محبوبِ خدا کی
مسند پر فائز ہے۔اﷲ تعالی نے خود قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ آپ ﷺکا
اسوہِ حسنہ پوری انسانیت کیلئے نمونہ ہے ۔علامہ اقبال کی شاعری اسی اسوہِ
حسنہ کے مختلف پہلووں اور رنگوں سے دنیا کو آشنا کرنے کی شعوری کوشش ہے ۔
شاعری چونکہ لطیف ، دلکش اور پر اثر ہوتی ہے اور فورا دل میں اتر جاتی ہے
اس لئے علامہ اقبال کی شاعری نے یہاں کے مسلمانوں کے قلب و نظر کو مسحور کر
کے ان میں اپنا مسکن بنایا۔ان کی شاعری میں دنیا کی عظم ہستیوں کا ذکر
ملتاہے۔وہ کبھی حضرت صدیقِ اکبر کی مدح سرائی کرتے ہیں، ،کبھی سیدنا بلال
کے عشق کو آشکار کرتے ہیں،کبھی شیرِ خداحضرت علی کی شجاعت پر رطب اللسان
ہوتے ہیں ، کبھی امامِ عالی مقام کے صبر اور استقامت کو ہد یہ تبریک پیش
کرتے ہیں اور کبھی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہ کے اوصافِ حمیدہ میں قوم
کی نجات دیکھتے ہیں لیکن انھیں جس ذات سے بے پناہ عشق تھا اور جن کے
فراق،ہجر اور یاد میں ان کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے تھے وہ رسول اﷲ ﷺ کی
ذاتِ اقدس تھی ۔ ان کی شاعری رسول اﷲﷺ کی ذات سے عشق و محبت کی ایسی دل
آویز داستان ہے جو دلوں میں تموج پیدا کرتی اور ان پر مر مٹنے کا جذبہ عطا
کرتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے اقبال کی شاعری کو اپنی فکر کا
محور بنا رکھا ہے لہذا پاکستان میں ناموسِ رسالت ﷺ کا جذبہ ہر زن و مرد میں
اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ناموسِ رسالت کے بارے
میں کوئی بات کرے اور پاکستانی قوم اس کا تایا پانچا نہ کر دے ۔ یہ قوم سب
کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن رسو ل اﷲ ﷺ کی ذات کی ناموس کے حوالے سے ایک
حرف بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ غازی علم دین شہید سے شروع ہونے والایہ
کارواں آج بھی اسی شان و شوکت سے رواں دواں ہے۔اس کاروان کی منزل عشقؒ رسولﷺ
ہے اور کوئی اس کاروان کو عشق کی وادی کی جانب محوِ سفر ہونے سے روک نہیں
سکتا۔کتنے پروانے ہیں جو اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر لئے پھرتے ہیں لہذا
ایسے دیوانوں کو کوئی بھی حکومت شکست نہیں دے سکتی۔ابھی تک ایسا کوئی لشکر
تیار نہیں ہو سکا جو عشق کے شہسواروں کو مات دے سکے۔تار یخی حقائق کے مطابق
عشق کو سدا زندہ اور فا تح ر ہنا ہے ۔علامہ اقبال نے شائد ایسے ہی لاثانی
جذبات کے اظہار کے لئے کہا تھا ۔،۔
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے۔،۔ نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر ناموسِ رسالتﷺ کا قانون موجود ہے ۔قادیانی
(مرزائیت) کے فتنے نے اسی سرزمین پر جنم لیا تھا ۔ اسی سرزمین پر مرزا غلام
احمد قادیانی نے اپنے نبی ہونے کا دعوی کیا تھا۔اسی سر زمین پر اسے جھوٹا
اور کذاب کہا گیا تھا۔بڑے بڑے جید علماء ،صوفیاء کرام ،شعرا ،ادباء اور
اولیاء اﷲ نے اس کے جھوٹ اور مکرو فریب کا پردہ چاک کیا تھا۔اسی سر زمین پر
اس کی جھوٹی نبوت کو چیلنج کیا گیا تھااور اسی سر زمین پر اسے عبرتک ناک
موت سے ہمکنار ہو نا پڑا تھا۔اسی سر زمین پر قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو
نے انھیں غیر مسلم قرار دیا تھا اور یوں کئی دہائیوں سے وجہِ اضطراب بننے
والے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کر دیا تھا۔قادیانیوں کوغیر مسلم قرار دینے
کا لمحہ پاکستانی قوم کی زندگی کا سب سے حسین ترین لمحہ تھا کیونکہ اس دن
جھوٹ کا پردہ فاش ہوا تھا اور سچ کو فتح نصیب ہو ئی تھی۔ایک جھوٹے کو اس کا
اصلی چہرہ دکھایا گیا تھا اور محبوبِ خدا ﷺکی محبوبیت اور اس کی چاہت کو
عقیدت و وارفتگی کا بوسہ دیا گیا تھا۔ایسے لمحے قوموں کی زندگی میں کبھی
کبھار آتے ہیں جہاں بڑے فیصلے درکار ہوتے ہیں۔یہ قد آور لیڈر شپ کا کمال ہو
تا ہے کہ وہ ایسے لمحوں کو یاد گار بنا دیتے ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو کے دل
میں عشقِ رسول اﷲ ﷺ کی جو شمع روشن تھی وہ پاکستان میں قانون سازی کی بنیاد
بنی حالانکہ اس سے قبل بھی قادیانیوں کے خلاف کئی تحریکیں چلی تھیں لیکن ان
کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا تھا کیونکہ ان سب قائدین کا دل رسول اﷲ ﷺ کی
سچی محبت کی اس طرح آماجگاہ نہیں تھا جس طرح کا عشق ذولفقار علی بھٹو کے دل
میں موجزن تھا۔یہ اسی عشق کا کمال تھا کہ ذولفقار علی بھٹو نے وہ تاریخی
کارنامہ سر انجام دیا کہ دنیا عش عش کر اٹھی ۔ ذولفقار علی بھٹو نے سچ اور
جھوٹ کے درمیان ایک لکیر کھنچ دی۔ایک ایسی لکیر جسے عبورکرنے کی کسی کو
اجازت نہیں ہے۔جو کوئی اس لکیر کو چھونے کی کوشش کریگا جل کر راکھ ہو
جائیگا۔یہ لکیر کیا ہے ناموسِ رسالت ﷺکی ایک دو دھاری تلوار ہے جو ہر اس
شخص کو گھائل کر دیگی جو اس کے قریب آنے کی جرات کریگا۔کچھ سیاستدان قوم کے
مزاج کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں ۔وہ اقتدار کے نشے میں اپنی اصل کو بھول
جاتے ہیں ۔ اقتدار کے نشے میں انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس ملک کی
اساس محبوبِ خدا ﷺسے محبت پر رکھی گئی ہے ۔جس کسی نے اس اساس کو فراموش
کرنے کی کوشش کی اسے ذلیل و خوار ہو نا پڑا۔حکومت کو نجانے کیا سوجھی کہ اس
نے ایک ایسے قانون کو جو قوم کی امنگوں کے خلاف تھا، جو ان کی محبت اور ان
کی آرزوؤں کے خلاف تھاجو ان کے عقیدے کے خلاف تھا،جو ان کے ایمان کے خلاف
تھا ،جو ان کے عشق کے خلاف تھا اور جو ان کے جذبات کے خلاف تھا اسے اسمبلی
کے فلور پر پیش کر دیا۔حکومت کی اس سے بڑی نا اہلی ا ور کوئی نہیں ہو سکتی
کہ اس نے ناموسِ رسالت کے متفقہ قانون کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جس پر
پوری قوم غم و غصہ کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی ،حکومت نے انتہائی حساس
معاملے سے جس طرح سے نمٹنے کی کوشش کی وہ انتہائی غلط تھا۔
مذہبی حلقوں نے اس صورتِ حال سے بھر پور فائدہ اٹھا یا اور پورے ملک کو
یرغمال بنا لیاجس سے قوم ۲۱ دنوں تک کرب و ابتلاء میں مبتلا رہی جبکہ حکومت
بے بسی کی تصویر بنی رہی۔،۔ |
|