میانمار کی آواز

یہ ریاست راکھین ہے ہاں یہ برما کی وہی ریاست راکھین ہے جہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی، بچوں کو زندہ جلادیا گیا، نوجوانوں کو برہنہ کر کے گرم سلاخوں سے داغا گیا، کھولتے گرم پانی میں زندہ جسموں کو جھونک دیا گیا،عورتوں کی عزت کو سرِبازار داغ دار کیا گیا ،یہ وہی ریاست راکھائن ہے جہاں ماں باپ یہ سوچ کر دھل جاتے ہیں آخر ان کے گھر میں جوان بیٹی ہے ہی کیوں۔۔ کاش کے خدا انہیں اتنی ہمت دے دیتا کے اپنے ہاتھوں سے یہ اپنی جوان بیٹی کا قتل کر سکتے۔ بیٹی کی موت شاید ان بے بس ماں باپ کو دکھی نہ کرتی جتنی ا س کی عصمت دری انھیں جیتے جی ماررہی ہے۔

یہ وہی ریاست راکھین ہے جہاں ان لوگوں کو روز ان کے گناہ کی سزا مل رہی ہے۔گناہ۔۔۔۔آخر یہ کونسا گناہ ہے جس کی پاداش میں ان کے گھر جلا دیے گئے یہ کیسا گناہ اِن سے َسردزدہوا ہے کہ جس کی سزا میں ان کی اولادوں کو نیزو میں پیرویا گیا،ہاں ہے ایک گناہ! ایسا گناہ جس کو کافر گناہ کہے لیکن ان اہل ِایمان پر اُمتِ مسلمہ کو فخر ہو ۔بودھ مت کے پیروکاروں نے روہنگیا نسل کے ان پیارے مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سزادی ۔اور یہ معصوم نہتے مسلمان جو بہت سے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے عاجز ہیں اور ایک رب کے آگے سجدہ ریزہو نے کو ترجیح دیتے ہیں آج میانمارکی سرزمین پر ظلم اور بر بریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور پکار رہے ہیں کہ آو ہماری مدد کرو،اے دنیا میں امن کا ڈھول پیٹنے والوں تم کہاں ہو کہ ہم مر رہے ہیں لیکن کوئی ہماری مدد کو نہیں جا سکتا کوئی ہماری مددکے لیے کچھ نہ کرسکا ۔رونگیا مسلمانوں کی مدد کے نام پر امداد لینے والوں کہاں ہو تم کیا تمہاری ہم سے محبت چند دن کا کھیل تھی ،کیا تم سب ہمارے نام پراپنی سیاست چمکا کر خوابِ غفلت میں پڑ گئے، ہم تو اب بھی مر رہے ہیں ہماری نسلوں کو ختم کیا جا رہا لیکن ہم کسے پکار یں، جاگوں امتِ مسلمہ کہلانے والوں جاگو۔

ہم نے سوچا تھا کہ بنگلہ دیش بھی وہی ملک ہے جہاں محمدﷺکے دین کا بول بالا ہے وہاں تو ہمیں جگہ مل ہی جائے گی ہمارے ملک میانمارکے بارڈراور ہم جس ریاست میں رہتے ہیں وہاں سے خدا کی وہ بستی قریب ہے جہاں لوگ ایک خدا کو سجدہ کرتے ہیں یہ سوچ کر ہم نے نقل مکانی کی تھی اور ہماری نسل کے لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش چلے گئے ۔لیکن یہ کیا ! خدا کی وہ زمین بھی ہمارے لئے تنگ کردی گئی ،کیوں آخر کیوں ؟ہمیں اس زمین سے نکالاجارہا ہے یہ کیسا سمجھوتہ ہے یہ کیسے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے جو بدھا کے ماننے والوں اور ایک خدا کے ماننے والوں کے درمیان ہوتا ہے اور ہمیں واپس اس بھٹی میں جلنے کے لئے بھیجا جارہا ہے ۔ہم نہیں جانا چاہتے خدا کے لیے ہمیں بچا لو ہم نہیں جانا چاہتے اس سر زمین پر جہاں ہم سے جانوروں سے بد تر سمجھا جاتا ہے تم ہمیں واپس بھیج دو گے تو ہمیں وہ لوگ تڑپا تڑپا کے ماریں گے اور ہمیں مزید سزا دیں گے ہماری اس ہجرت کی جو ہم نے اپنے دین کے لئے کی ہے۔ہم بنگلہ دیش کے مہاجرین ہیں اب یہ حکم سادر ہوچکا ہے کہ دو ماہ میں ہماری واپسی شروع ہو جائے گی دل دھل رہا ہے جی تو چاہتا ہے کہ خود ہی خود کو آگ لگا دی جائے لیکن خود کشی حرام ٹھہری اور ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے رب ناراض ہو۔تم بھی تو مسلمان ہو پھر وہ کام کیوں کرتے ہو جس سے رب کی ناراضگی تمہاری جھولی میں آجائے۔اے دنیا کے مسلمانوں اے روح زمین پر رہنے والوں ہماری مدد کرو اور ان ظالموں کے ظلم سے ہمیں بچا لو۔

وہ بیان سنا تم نے جو بنگلہ دیشی وازت خارجہ نے دیا ہے ہاں سنا تو ہوگا لیکن تم اَن سنی کر گئے کہ انھیں میانمار کے مسلمانوں کو اپنے دیش سے نکالنے کی اتنی جلدی ہے کہ برما اور بنگلہ دیش دونو ں نے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بنایا ہے جس کے تحت جس حد تک جلدی ہو سکا ہمیں میانمار واپس بھیج دیا جائے گا۔ تم سنتے ہی رہتے ہو ہمارے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہاں ہیں مسلم ممالک کے سربراہان اقوامِ متحدہ نے کیمپوں میں مقیم ہماری بچوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا لیکن او آئی سی کہاں ہے،اُسے تشویش کیوں نہ ہوئی ۔اسلحے کو دوڑ میں بازی لے جانے والوں کبھی انسانیت کی فکر بھی کی تم نے کبھی اپنے مسلمان بھائیوں کی آہ و زاری پر کان بھی دھرا تم نے۔آن سانگ سوچی نام کی ڈاین ہمارے کتنے بچوں کو کھا چکی ہے تمھارے گھر میں کسی ڈاین کا بسیرا ہوتا تو تم سے ہم پوچھتے کے تکلف ہوتی کیا ہے۔ہم سے جینے کا حق چھین لیا گیا تھوڑی بہت سانسیں بنگلہ دیش کی زمین پر ملی تھی سو وہ بھی ابوالحسن محمودعلی نے چھین لیں اور تعجب اس بات پر کر بنگلہ دیش کا یہ وزیر ِخارجہ ہمارے لیے زمین تنگ کرکے اپنے اس معاہدے کو کامیاب معاہدہ کہتا ہے۔

وہ روا ں سال اگست کا مہینہ تھاجب ریاست میں ہم پر یہ الزام لگا کہ ہم نے برمی فوجیوں پر حملہ کیا ہے ہم نہتے لوگ کیا حملہ کرتے ہم تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی عزت سے کمانے کے لئے ترسے ہوئے ہیں۔جب فوجی ہمارے خلاف اپنی کاروایاں کرتے کرتے تھک گئے تو عام عوام کو ہمارے اوپر بد مست ہاتھی کی طرح چھوڑ دیا گیا ہمیں مارا گیا جلایا گیا ہمارے اعضاء جسم سے الگ کر دیے گئے لیکن حکومت یہ تماشہ بڑے شوق سے دیکھتی رہی۔ شر پسند ہمارے جسم سے خون نچوڑتے رہے لیکن کوئی ہماری مدد کو نا آیا۔ہاں وہ آیا تھا جسے لوگ نریندر مودی کے نام سے جانتے ہیں لیکن اس نے ہماری حکومت سے ہمارے خلاف ہونی والی تمام کاروایوں میں ان کا ساتھ دینا کا عظم کیا ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ کسی اسلامی ملک کا کوئی سربراہ ہمیں بچانے ہمارے ملک آیا ہو۔

میرا میانمار تو وہی دیس ہے جو جنوب مشرقی ایشیاء کی سرحد بنگلہ دیش،بھارت، چین،لا وٗ س اور تھائی لینڈ کے ساتھ واقع ہے دارلحکومت نیپید اور بڑا شہر یانگون ہے لیکن ہم مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی راکھائن میں ہے جو بنگلہ دیش سے بہت قریب ہے اتنے مصائب جھیل کردشوارگزار اور کٹھن رستہ طے کر کے ہم بنگلہ دیش کی سرحد پر فقط اس لئے پہنچے تھے کہ میانمار میں ہمارا نسلی بنیادوں پر صفایاکیا جارہا تھا۔ہمارے مکان وہاں جلادیے گئے ۔تم سب تو یہ بھی جانتے ہو کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران ساڑے چھ لاکھ مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہم مانتے ہیں کہ بنگلہ دیش مہاجرین کو پناہ دینے سے قاصر ہے لیکن تم تو مدد کر سکتے تھے،پھر کیوں خاموش تماشائی بنے رہے اور ہمیں بھول گئے۔ تمھیں علم ہے کہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار کی سیکیورٹی فورسز انسانیت کے خلاف جرائم اور نسلی صفائی کی مرتکب ہیں لیکن پھر بھی ہمیں جبری طور پر اُس آگ میں پھر دھکیلا جارہا ہے۔ہم مر رہے ہیں سنا تم نے اور ہمارے ساتھ مزاق یہ کیا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش کہتا ہے وطن واپسی کے بعد روہنگیا مسلمانوں کو عارضی طور پر ان کے تباہ کن گھروں کے قریب ترین علاقوں میں تعمیر کیے گئے خیموں میں منتقل کیا جائے راکھین ریاست میں آتش زدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کیا جائے جس کے لیے ہم نے میانمار حکومت کو چین اور بھارت کی مدد لینے کی تجویز پیش کی ہے۔۔۔!ہونہہ جو ہمیں ہماری نسلوں کو مارنا چاہتے ہیں وہ کیوں کر ہمیں تحفظ دینے لگے ۔اور تم جو یہ پڑھ رہے ہوکہاں گئی تمھاری محبت جس کا تم کچھ عرصہ پہلے راگ الاپ رہے تھے۔بہت سیاست کی تم نے ہمارے نام پر بہت ہمدردیاں حاصل کی ہماری ذبو حالی کی تصاویر سڑکوں پر لگا کر ۔۔سنو ہم آج بھی مر رہے ہیں اور روز مرتے ہیں اگر نبیﷺ کے سچے اُمتی ہو تو بچا لو ہمیں میانمار کے مسلمان تمھیں مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311970 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.