ؓبابری مسجد کی شہادت کے 25سال بعد آخری مغل بادشاہ
بہادر شاہ ظفر کا ایک وارث بابری مسجدکا وارث ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے
اسیمسجد کا متولی بنانے کا مطالبہ کر رہاہے۔یہ شہزادہ یعقوب حبیب الدین تقی
کہلاتے ہیں۔ جن کی عمر 42سال ہے اور حیدر آباد دکن میں رہتے ہیں۔یک
نومبر2017کو لکھنوء میں پریس کانفرس میں شہزادہ یعقوب نے اپنا تعلق آخری
مغل حکمران کی چھٹی نسل سے جتلایا اور کہا کہ انھوں نے یو پی سنی سنٹرل وقف
بورڈ کوبابری مسجد کا متولی بنانے کی درخواست دی ہے۔کیوں کہ وہ ڈی این اے
سے ثابت شدہ وارث ہیں۔حیدر آباد کی سول عدالت نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
اگر درخواست پر غور نہ ہوا تو سپریم کورٹ سے رجوع کروں گا۔اس پریس کانفرنس
سے ایک دن قبل وراثت کے دعویدار نے بابری مسجد مسلہ کے حل کے لئے شری روی
شنکر کی ثالثی کی حمایت کی۔ روی شنکر نے یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ
ناتھ سے ملاقات کے بعد 17نومبر کوایودھیہ کا دورہ کیا۔ وہ تمام مسائل
ڈائیلاگ سے حل کرنے کی اب تجویز دے رہے ہیں۔اس سے پہلے جسٹس منموہن سنگھ کی
رپورٹ پراس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھعمل کئے بغیر سبکدوش ہو گئے تھے۔اب
سپریم کورٹ آف انڈیا میں بابری مسجد کیس کی حتمی کارروائی 5دسمبر2017سے
شروع ہو گی۔جب کہ یو پی شیعہ وقف بورڈ نے بھی ایک نیا فارمولہ پیش کیا ہے
کہ ایودھیا میں مسجد کے بجائے رام مندر اور لکھنؤ میں بابری مسجد تعمیر کی
جائے۔ 16ویں صدی مغل بادشاہ بابر کی تعمیر کردہ بابریمسجد 6دسمبر 1992 کو
شہید کر دی گئی۔تب سے آج تک مسلمان مسجد کو شہید کرنے والوں کے خلاف قانونی
کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی آج بھی یہی مطالبہ
کر رہی ہے۔ بھارت نے حاضر سروس جج جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کمیشن تشکیل
دیا۔کمیشن پر 12لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اس کی سفارشات پر عمل نہ کیا
گیا ۔جسٹس لبراہن نے اپنی رپورٹ میں مسجد کی شہادت کا ذمہ دار’’ ہندو دہشت
گردی ‘‘ کو ٹھہرایا۔آج پھر دنیا بھر میں مسلمان اس دن کو یوم سیاہ کے طور
پر منائیں گے۔بھارت میں ہندوگروپ مسلمانوں کے مظاہروں پر پابندی لگانے کے
لئے عدالتوں میں جا رہے ہیں۔یہ عدالتیں بھی ہندو انتہا پسندوں کے مفادات کی
حفاظت کرتی ہیں۔ آج تک یہ بابری مسجد کی اراضی کی ملکیت کا تعین نہ کر
سکیں۔معاملہ سپریم کوٹ میں ہے۔ایک طرف بابری مسجد کی شہادت کے خلاف یوم
سیاہ ، احتجاج ہو رہا ہے اور دوسری طرف آر ایس ایس چیف موہن بھگوت تری پورہ
کے گورنرکی موجودگی میں سرعام اپنی زندگی میں ہی بابری مسجد کی جگہ رام
مندر تعمیر کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ عدالت کو توہین کی یاد نہیں آتی ۔
کوئی مسلمان ایسا بیان دیتا تو جیل میں ڈال دیا جاتا۔یہ ہندوستان کا ایک
بڑا سانحہ، مسلمانوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش،جس کا ایک مقصد مسلمانوں کو
جبری طور پر وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ 25سال بعد بھی تاریخی مسجد کو
شہید کرنے والوں کو سزا نہیں ملی۔ایل کے ایڈوانی جیل جانے کے بجائے بھارت
کے نائب وزیر اعظم بنے۔ مرلی منوہر جوشی کو مرکزی وزیر بنایا گیا۔ ان کے
خلاف قانون حرکت میں نہ آ سکا۔اتر پردیش میں کلیان سنگھ کی وزارت اعلیٰ بھی
قائم رہی ۔
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں عدالتوں اور کمیشنوں کی کیا اہمیت
ہے۔ انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوتے ہیں۔ دنیا نے دیکھاکہ کس طرح مسجد کے
تین گنبد ریاستی مشینری کی سرپرستی میں زمین بوس کر دیئے گئے۔بھارتی حکومت
نے خفت مٹانے کے لئے لبراہن کمیشن بنایا۔یہ دعویٰ کیا گیا کہ کمیشن تحقیقا
ت کر ے گا۔قصور واروں کوانصاف کے کٹہرے میں لائے گا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ
میں سابق وزیر اعظم اے بی واجپائی، ایل کے ایڈوانی ، کلیان سنگھ، مری منوہر
جوشی سمیت 68افرا کو ملزم نامزد کیا ۔کمیشن مسجد کی شہادت کے دس دن بعد
تشکیل دیا گیا۔ جس کی مدت تین ماہ تھی۔ لیکن یک نفری کمیشن کو 50بار توسیع
دی گئی۔ 17سال بعد2009کوجسٹس منموہن سنگھ نے اپنی رپورٹ وزیراعظم منموہن
سنگھ کو پیش کی ۔ خفیہ ایجنسی آئی بی کے اس وقت کے جوائنٹ ڈائریکٹر ملوئے
کرشنا دھر نے اپنی کتاب Open Secretsیا ’’کھلے راز‘‘ میں لکھا ہے کہ انہیں
ہدایت ملی تھی کہ آر ایس ایس ، بی جے پی اور وی ایچ پی کے ایک اجلاس کی
کوریج کا بندوبست کیا جائے۔اس اجلاس کے ٹیپ اس نے خود تیار کئے۔ اجلاس میں
بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بنایا گیا۔ جن سنگھیوں کی یہ میٹنگ مسجد کی
شہادت سے دس ماہ پہلے ہوئی تھی۔یہ کانگریس اور ہندو انتہا پسندوں کا ایک
مشترکہ منصوبہ تھا۔65سال میں پہلی بار بھارت میں ایک مسلمان آصف ابراہیم
کو125سال سے قائم اس ایجنسی انٹلی جنس بیورو یا آئی بی کا چیف مقرر کیا
گیا، جو ریاست مدھیہ پردیش کے انڈین پولیس سروس( آئی پی ایس) کیڈر سے تعلق
رکھتے تھے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، تامل ناڈو کی ٹی ایم ایم کے اور
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے اپیل پر ہندوستان میں مسلمان آج ایک بار پھر سرا
پا احتجاج ہیں۔ اور بھارتی پارلیمنٹ کی توجہ اس جانب مبذول کر رہے ہیں جس
نے ابھی تک جسٹس لبراہن رپورٹ پر بحث نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک حتمی
فیصلہ نہیں دیا۔ بھارتی حکومت نے ابھی تک شہادت کی ذمہ داری قبول کرنے، جشن
منانے اور اس کا فخر سے کریڈٹ لینے والوں کیخلاف کارروائی نہیں کی۔ایسا
لگتا ہے کہ ہندوستان میں انصاف کے پہیے جام ہیں۔ اقلیتوں کو خاص طور پر
بھارت کے سیکولر ازم، جمہوریت اور جوڈیشل سسٹم پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
کشمیری نوجوان افضل گورو کو بھارتی عدلیہ نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے
قتل کرا دیا۔یہ عدالتی قتل بھارت میں انصاف کا قتل تھا۔افضل گورو کا تختہ
دار پر لٹکایا جانابھارتی انصاف کی جانبداری اور انتقام کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں کے اس حوالے سے بعض مطالبات انتہائی توجہ طلب ہیں۔
1۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس پر بحث کی جائے۔اس
رپورٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عمل کرنا تو دور کی بات ہو گی۔
2۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو نمٹایا جائے۔لیکن مقدمات سالہا سال تک
زیر التوا رکھے جاتے ہیں۔جوڈیشری میں مسلمانوں کو جج کے طور پر شال کرنے سے
انکار کر دیا جاتا ہے۔
3۔ سپریم کورٹ، آلہ آباد ہائی کورٹ کے سپیشل بنچ کے احکام کو زیر غور لایا
جائے۔
4۔حکومت بابری مسجد کی شہادت کے بعد شہید کئے گئے مسلمانوں کے لواحقین،
معذوروں کو معاوضے دے ۔ نذر آتش کی گئی سیکڑوں تعمیرات کے بھی معاوضے دیئے
جائیں۔
5۔ ایودھیا میں شہید مساجد اور قبرستانوں کی باؤنڈری دیوار یں تعمیر کرنے
کی اجازت دی جائے۔
6۔ مساجد کے تحفظ کے لئے حکومت مذہبی مقامات کی سکیورٹی سے متعلق1991کے
قانون کو نافذکرے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں تاج محل سمیت مسلم آثار قدیمہ
اوردرجنوں مسجدوں کو شہید کرنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ لا تعدادمساجد شہید
اور مدارس بند کر دیئے گئے۔ یہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کا تعصب ہے جس
کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت میں اسلامی
ثقافتی ورثہ کو لا حق خطرات کبھی کم نہیں ہوئے ہیں ۔ کیوں کہ بھارتی سیاست
اور حکمرانی اب مسلم اور پاکستان دشمنی پر قائم ہو چکی ہے۔ بی جے پی اور جن
سنگھیوں کے عروج سے کانگریس اور نام نہاد سکیولر ازم کی دعویدار پارٹیاں
اپنے نئے اہداف مقررکر چکی ہیں۔ اس وجہ سے بھارتی کانگریس پارٹی کے نئے ولی
عہد راہول گاندھی بھارت میں مسلمانوں کے کردار کو مشکوک قرار دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کو منظم ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ان کی تنظیم سازی اور اتحاد کی
کوششوں کو بھارتی ادارے سبوتاژ کرتے ہیں۔
بھارتی مسلمان ہر لحاظ سے امتیاز کا نشانہ بن رہے ہیں۔ آرمڈ فورسز میں ان
کی شمولیت مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت سوا ارب سے زیادہ آبادی والے ملک کی
فوج میں صرف تین فی صد مسلمان شامل ہیں۔ 19کروڑ مسلمان آبادی میں سے صرف
25ہزار مسلمانوں کو فوج میں بھرتی کیا گیا۔ اگر مقبوضہ جموں و کشمیر کے
فوجی فورس جسے جیکلائی (JAKLI)
میں 50فی صد مسلم فوج کو شامل نہ کیا جائے تو یہ اعداد و شمار اور بھی کم
ہیں۔ یہی حال بیورو کریسی کا بھی ہے۔ جس میں مسلمان برائے نام ہی شامل ہیں۔
یہ غیر اعلانیہ سنسر شپ ہے۔ جو مسلمانوں کے خلاف نافذ العمل ہے۔ا متیاز کا
یہ عالم بھی ہے پارٹیوں اور محفلوں کے بورڈ آویزان کر دیئے جاتے ہیں،’’
یہاں کتوں اور مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ بھارت میں جو لوگ غیر
جانبداری پر یقین رکھتے ہیں وہ یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بھارتی
مسلمان ہندو جنونیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔پاکستان کراچی
ایگریمنٹ کے تحت بھارتی مسلمانوں پر ریاستی جبر کے خلاف آواز بلندکرنے کا
پابند ہے۔ یہ دفاع اور استحکام پاکستان کی نفی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو
ہندو دہشت گردوں اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔اور ان کی نسل
کشی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جائے۔دنیا نے دیکھا کہ17سال لگا
کر12لاکھ ڈالر کے خرچہ سے تیار جسٹس منموہن سنگھ کی رپورٹ پر وزیراعظم
منموہن سنگھ عمل نہ کر سکے۔ اب مغلوں کا نیا وارث میدان میں اتارا جا رہا
ہے۔تاج محل کو شیوا جی کا مندر ’’تیجو محل ـ‘‘قرار دے کر اسے زمین بوس کرنے
کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ہندو یوگی کی ثالثی بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر
کی تعمیر کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ |