تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے عصری تقاضے اور صبح درخشاں کے تازہ نقوش

چمن اسلام کی حنابندی کو ابھی کئی سروں کی فصل تیار کرنی ہے؛ یہ امتحان عشق رسول کی صدی ہے

شب تاریک ہوتی ہے۔ ایک شب تھی، جس کا انتظار تھا، جس کے لیے پلکیں بچھی تھیں، قلب ایستادہ تھے، دل و جاں فرطِ عقیدت سے وجد کناں تھے۔ وہ شبِ تابندہ تھی، درخشاں تھی، جس نے اُداس دنوں کو نورٌ علیٰ نور بنانا تھا۔ جس نے کونین سے تاریکی مٹانی تھی، جس نے تاریک دلوں کو جگمگانا تھا۔ وہ ۱۲؍ ربیع الاول کی شب تھی۔ جس کی صبح؛ سسکتی انسانیت کا مداوا بن کر آئی۔ شبِ تابندہ میں ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔جذبات مچل رہے تھے۔ بچے خوشی میں پھوٗلے نہیں سما رہے تھے۔ ہر زباں پکار رہی تھی- پڑھو درود کہ مولود کی گھڑی آئی- ہر دل سے یہ صدا آ رہی تھی- وہ آئے تو آج ہے گھر گھرصلِ علیٰ کی دھوٗم- دل پاکیزہ؛ خیالات پاکیزہ؛ طبیعتیں پاکیزہ؛ ہاں! وہ وجودِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی آمد سے پاکیزگی قائم ہوئی؛ آلودگی و کثافت دور ہوئی۔ روشنی پھیلی ؂
کیسا تاریک دُنیاکو چمکا دیا
جب چلے وہ تو کوٗچے بسا کر چلے

ابھی شب کا دامن طویل نہیں ہوا تھا، سمتوں سے درود وسلام کے ترانے بُلند ہو رہے تھے۔ پھوٗہار پڑ رہی تھی۔ مینھ برس رہا تھا۔ رحمتوں کے بادل امڈ کر آئے۔ وہ بادل نہیں جن کے آنے سے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اُفق تا بہ اُفق نور کی چادر تنی تھی۔ مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ جس سے ماحول حوصلہ افزا تھا۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ بستیاں بقعۂ نور بنی ہوئی تھیں۔ غریبوں کے مکانات بھی کسی قدر آراستہ تھے۔ پھریرے لہرا رہے تھے۔ پرچموں کی بہاریں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے کاغذی جھنڈیاں اپنے ہاتھوں چن چن کر جھونپڑوں میں یوں سجائی تھیں کہ وہ گلشن معلوم ہوتے۔

تاریک گلیوں کے باسی بھی شبِ تابندہ میں کئی چراغ روشن کر بیٹھے تھے؛ گویا یقیں کے ہزاروں دیپ طاقِ دل پر روشن تھے؛ یوں کہ قبر کی روشنی کا ساماں کر رہے تھے ؂
جگمگا اُٹھی میری گور کی خاک
تیرے قربان چمکنے والے

ہاں!غریبوں کے دل بڑے پاکیزہ ہوتے ہیں۔ وہ خلوص کے پیکر ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خستہ محل اِس امید پر سجائے تھے، سنوارے تھے کہ -ہوائیں خیرمقدم کے ترانے گنگناتی ہیں- اور -محبوبِ رب اکبر صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں- اور ؂
رُسل انھیں کا تو مژدہ سُنانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں

مکاں سجانے والے شادماں تھے۔ اخلاص کے داعی درودوں کی ڈالیاں پیش کر رہے تھے۔ سلاموں کے نغمے بلند ہو رہے تھے۔ کئی مکاں قصرِ عارفاں بنے ہوئے تھے۔ جس کا سبب عشقِ رسول میں وارفتگی تھا۔ منزلِ عشق کے کئی امتحاں اِس زمانے میں درپیش ہیں۔ ابھی ظاہرکی آراستگی کے راہی باطن کی درستی کو کوشاں ہونے ہیں۔ چمن اسلام کی حنابندی کو ابھی کئی سروں کی سرخ فصل تیار کرنی ہے۔ قربان گہِ محبت میں ابھی امتحاں کی منازل سے گزرنا ہے۔

صدیوں سے سرگرم یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا سنگی دور عروج پر ہے۔ سمتوں سے ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ ہے۔ قوتِ عشقِ سے ہر پست کو بالا کرنے والے امتحاں کی منزل سے گزر رہے ہیں۔ عشق رسول کے جذبات ناپے جا رہے ہیں۔ قادیانیت پورے سپاہ و قوت سے لیس سرگرم ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت پر ایک صدی سے زیادہ مدت سے ان کے حملے ہیں۔ یہ لباسِ خضر میں ایسے رہزن ہیں جن کی نظریں مسلم بستیوں پر لگی ہوئی ہیں۔ جو ہر سمت گھوٗم رہے ہیں۔ ان کے تکنیکی ماہرین نے جدید ایجادات کے دوش پر ہمارے گھروں کا احاطہ کر لیا ہے۔ہم نے دین کا مطالعہ نہیں کیا۔ اور قادیانی تعلیمات کبھی الحاد کے ذریعے ہمارے گھروں میں قدم جما رہی ہیں؛ کبھی دھریت کے دوش پر؛ کبھی اباحیت کے ذریعے؛ کبھی لبرل ازم کے نام پر۔ کبھی جدیدیت کی شکل میں۔ کبھی بے دینی کے دوش پر۔کاش ہم بیدار ہوتے۔ جاگ گئے ہوتے ؂
اے گنبدِ خضریٰ کے مکیں وقتِ مدد ہے
اے تاجِ نبوت کے امیں وقتِ مدد ہے

خطوط ایستادہ ہیں۔ شر کے مقابل خیر کے نشاں سلامت ہیں۔ فتنوں کی بیخ کنی کے آئیڈیل اسلاف کے نقوشِ قدم مشعلِ راہ ہیں۔ ذوق کو تسکیں دیجیے۔ کردار کی تاب ناکی قائم کیجیے۔ تب فکر کا ہر تار ہم نوا ہوگا۔ نسیم سحر نمودار ہوگی۔ گلشن اسلام میں تازہ بہ تازہ پھول کھلیں گے۔اور پورا گلشن مہک مہک اُٹھے گا۔ بے شک ع
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں، انھیں کی رنگت گلاب میں ہے

نصف صدی سے لگاتار قادیانیت کو قوت پہنچائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیلنے والے اِس میں ملوث ہیں۔ ان کے پشت پناہ وہی ہیں جو عراق میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ہیں۔ جو شام میں قتل و خوں ریزی کے ذمہ دار ہیں۔ جو اسرائیل میں فلسطینی نسل کشی کے مجرم ہیں۔ جن کے جنگی جرائم پر اگر عدلیہ سرگرم ہو تو شاید ظلم کا تمغہ بھی انھیں ہی ملے اور انسانیت کے قاتل کا اولین سرٹیفیکٹ بھی انھیں کے ہاتھ جائے۔جو داعش کے پشت پناہ اور بوکو حرام جیسوں کے فکری معین ہیں۔ وہ بڑے کرم نواز ہیں قادیانیت پر۔ احمدی کہلانے والے احمد مختارصلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ساری دُنیا میں پھر رہے ہیں۔ وہ تو وہی کرتے ہیں جو امریکہ و برطانیہ کی مرضی ہوتی ہے۔ وہ تو اسلام کے نام پر وجود پانے والی پاک زمیں کو ناپاک کر رہے ہیں۔ وہاں کی حکومتیں جھکی ہوئی ہیں؛ امریکہ و برطانیہ کے آگے۔ ختم نبوت کے تحفظ کے تئیں تشکیل قانون میں تبدیلی کی خواہش نے ان کے ضمیر کو فرنگی بازار میں بیچ دیا۔ انھیں یہ فکر نہ رہی کہ یوم الآخر جواب دہ ہونا ہے۔

ہم سلام پیش کرتے ہیں؛ قائدین تحریک لبیک یارسول اﷲ کو۔ جنھوں نے قربانیاں دیں۔ جانیں نچھاور کیں۔ ناموسِ رسالت کے لیے پہرہ دینے کا مزاج دیا۔ ابھی شب کی روشنی دراز ہوئی تھی۔ صبح نمودار ہوئی تھی کہ نوجوان غول در غول مسجدوں کے رُخ چل دیے۔ محفلِ نعت سج گئی۔ سلاموں کے تحفے نثار ہونے لگے۔ یہ ماحول کی روحانی تبدیلی عزم و یقیں کا استعارہ تھی؛ ان کے لیے جنھوں نے اپنی زندگیاں ناموسِ رسالت کی بقا کے لیے وقف کردیں۔ اسی صبحِ تابندہ کے بطن سے حوصلے کا سورج اُبھرے گا۔ جس کی روشنی پھیلے گی۔ ناموسِ رسالت میں فِدا کاری کا جذبہ جواں ہو گا۔ محبتوں کی نسیم چلے گی۔ خرمنِ باطل کو خش و خاشاک کی طرح زمیں بوس کر دے گی۔ اسلامی پرچم بالیقیں بلند ہوگا۔ نیل کے ساحل سے تا بہ خاکِ کاشغر عشاق ایک ہو کر حرم کی پاس بانی کو بیدار ہوں گے۔ ہاں! یہ صدی ناموسِ رسالت کے تحفظ کی صدی ہے۔ جس کے ماضی کا ایک سِرا صدیقی عزم سے جُڑا ہے تو دوسرا سراعاشقِ مصطفی؛ امام احمد رضا کے عشق رسول کے پیغام سے مشکبار ہے ؛اور ہم سے سرفروشی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسلاف کا نقشِ زریں مشن کے اہداف کا تعیین کر رہا ہے ؂
تِرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے

ابھی صبح کی محفل جاری تھی۔ سلاموں کے نغمے میرے دیش میں گونج رہے تھے۔ یہی نغمے شرق سے غرب تک۔ عرب سے عجم تک اور طائرانِ لاہوتی کی زباں پر رَقصاں تھے۔ یا نبی سلام علیک۔ یارسول سلام علیک۔ مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ؂
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

صبح کی روشنی پھیلی-پیام صبح لائی ہے گلشن حیات میں-گلی گلی میں عشق کا سماں ہے۔ بچے سج رہے ہیں۔سبھی اہتمام کر رہے ہیں۔ دل خوش، ظاہر خوش، باطن خوش، سبھی مسرتوں سے سرشار۔ کیوں کہ آج ہی تقدیر چمکی، اﷲ نے اپنے محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیج کر احسان کیا۔ اسی احسان کو مسلماں یاد کر رہے ہیں؛ خوشی منا کر، ہاں خوشی ہے اہلِ توحید کے یہاں کہ محبوب پاک عطا ہوئے۔ جن کی آمد سے ایمان ملا، اسلام ملا، یقیں ملا، سب کچھ ملا۔ مومنو! مل کے کرو شکرِ خدا آج کی رات۔

ابھی صبح کا سپیدا پھیلا ہی تھا۔ مساجد میں ختمِ نماز کے بعد سلاموں کے دل کش نغمے بلند ہوئے ہی تھے کہ آنکھیں فرطِ عقیدت سے بھیگ گئیں۔ ہاتھ دُعا کو اُٹھ گئے: الٰہی ناموسِ رسالت کے محافظوں کو کامیاب فرما۔ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہمیں سرفروشانہ جذبہ عطا فرما۔ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو قبول فرما،ہمیں قربانی کی توفیق دے۔ ختم المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکرین کو مٹادے۔ انھیں عبرتناک سزا دے۔ مولیٰ! ہمیں آمدِ محبوب کی پاکیزہ ساعتوں کے طفیل فِدایانہ جذبات کی راہ ڈال دے۔ ہماری جانیں محبوب کی عصمت و شان پر قربان ہوجائیں ؂
جان دیدو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.