پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔اگر چہ
اس کے ا آغازکا سہرا جماعت اسلامی کے سر جاتا ہے لیکن وہ شخصیت جس نے دھرنا
سیاست کو بامِ عروج پر پہنچایا وہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا نامِ نامی ہے
۔ ان کی تقلید میں عمران خان نے بھی دھرنا سیاست کو اپنایا اور ۱۲۶ دنوں کا
طویل ترین دھرنا دے کر دھرنوں کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی ۔یہ الگ بات کہ یہ
دھرنا خود عمران خان کیلئے وبالِ جان بن گیا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
دھرنے میں عوام کی شرکت برائے نام رہ گئی تھی ۔یہ تو ۱۶ دسمبر کو آرمی پبلک
سول میں دھشت گردی کی وہ کاروائی تھی جس نے عمران خان کو اس دھرنے سے مکتی
دلوائی اور انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔عمران خان نے اس طویل ترین دھرنے سے
کیا حاصل کیا ابھی تک تو واضح نہیں ہو سکا لیکن اس سے اتنا ضرور ہوا کہ
اپوزیشن کے پاس حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا ایک نیا حربہ آگیا جس سے
حکومت کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپو زیشن
کا یہ فرضِ اولین ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے
روکے کیلئے احتجاج کرے تا کہ حکومت عوامی مفادات کو پاؤں تلے روندھنے سے
اجتناب کرے۔اگر کسی سوسائٹی میں اپو زیشن بھی خاموش تماشائی بن جائے تو پھر
اس ملک پر فسطائیت رائج ہو جاتی ہے ۔ پاکستانی قوم جس کا خمیر جمہوریت کے
عظیم فلسفے سے صورت پذیر ہوا ہے وہاں کے جمہوریت پسند عوام کبھی بھی اس طرح
کی فسطائیت کو نافذ ہو نے کی اجازت نہیں دیتے ۔اپو زیشن در حقیقت عوامی
جذبات کی آئینہ دار ہو تی ہے جبکہ حکومت مصلحت کوشی کا دوسرا نام ہو
تاہے۔اس کے سامنے کئی اندرونی اور بیرونی دباؤ ہوتے ہیں جن سے اسے عہدہ
براء ہونا ہوتا ہے لہذا اسے مصلحت انگیزی سے حالات کو قابو کرنے کے جتن
کرنے پڑتے ہیں ۔ایسا کرتے وقت وہ کئی بار عوامی مفادات کو ٹھیس بھی پہنچاتی
ہے لیکن اس کے پاس بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کیونکہ عالمی طاقتوں کے
مفادات اور فریقِ مخالف کی طاقت اس کی راہ کی زنجیر بن جاتی ہے ۔اپوزیشن اس
طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے اور حکومت کے خوب لتے لیتی ہے۔حکومت اور
اپوزیشن کی یہ جنگ انتخا بات میں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور آخر میں
عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ انھیں اگلے پانچ سالوں کے لئے حقِ حکومت کسے تفویض
کرنا ہے۔اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن اس کی بھی حدو دو قیود
ہیں۔ویسے بھی ہر چیز اپنے مدار میں ہی اچھی لگتی ہے۔تنقید بھی جب اخلاقیات
کی حدوں سے باہر نکلنے لگے اور دھرنے انتشار کو ہوا دینے لگیں تو عوام اس
سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ وہ تنقید کو اس کے اپنی حدود میں پسند کرتے
ہیں۔بات چیخنے چلانے سے نہیں بلکہ دلیل سے منوائی جائے تو عوامی حمائت میں
خاطر خواہی اضافہ ہو جاتا ہے ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اس طرح کی سیاست کی
نادر مثال ہیں جھنوں نے دلیل کی قوت سے اپنے مخالفین کو زیر کیا اور دنیا
کی سب سے بڑی اسلامی ریا ست کی تخلیق کا معجزہ سر انجام دیا۔،۔
عوام نے ۱۹۷۷ میں پاکستان قومی اتحاد کے جلوس اور احتجاج دیکھے ہیں،عوامی
تحریک کے دھرنے دیکھے ہیں ،تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنوں کو بھی
دیکھا ہے لیکن لبیک یا رسول اﷲ ﷺنے جس طرح کا منظم دھرنا دیا ہے اس کی کوئی
مثال پیش نہیں کی جا سکتی ۔اگر چہ یہ دھرنا عوامی شرکت کے لحاظ سے قابلِ
ذکر نہیں تھا لیکن اس نے جس طرح ریاست کو مفلوج کیا وہ ناقابلِ یقین ہے۔دو
ہزار کے لگ بھگ فیض آباد چوک میں عوام کا ایک دھرنا پورے ملک کو مفلوج کر
دے گا ہر ایک کی سمجھ سے بالا تر ہے۔حالات کواگر بر وقت قابو میں نہ کیا
جاتا تو اس بات کے قوی امکانات تھے کہ پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ
جاتا اور پاکستان عراق،شام اور لیبیا جیسے ممالک میں شمار ہونے لگتا۔احتجاج
ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور کوئی ریاست اپنے شہریوں کو اس سے محروم نہیں کر
سکتی۔اگر عمران خان اپنے مطالبات کی خاطر اسلام آباد کا گھیراؤ کر سکتے ہیں
اور پرویز خٹک ایک لشکرِ جرار کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کر سکتے ہیں تو
پھر تحریکِ لبیک یا رسول اﷲ ﷺ کو بھی تو اس کا حق حاصل ہونا چائیے تھا کہ
وہ وہ جس مسئلے کو اپنے ایمان اور مسلک کے خلاف سمجھتے ہیں اس پر اپنا
احتجاج ریکارڈ کروائیں۔انھوں نے جو دھرنا دیا اسے تو کئی روز تک میڈیا نے
در خورِ اعتنا نہ سمجھا اور نہ ہی اسے نشر کرنا مناسب سمجھا جبکہ حکومت بھی
دھرنے والوں سے مذاکرات کرنے اور اسے حل کرنے میں غیر سنجیدہ تھی۔وہ یہ
سمجھ رہی تھی کہ یہ دھرنا بھی عمران خان کے دھرنے کی طرح خود لبیک یا رسول
اﷲﷺ والوں کیلئے وبالِ جان بن جائیگا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔،۔
فیض آباد کے دھرنے نے جب عوامی معمولات میں مشکلات پیدا کیں تو پھر اسلام
باد ہائی کورٹ کو اس دھرنے کے خلاف فیصلہ دینا پڑا جس نے حکومت کومصلحت
پسندی سے عمل پسندی کی طرف دھکیل دیا ۔اب حکومت کے پاس دو راستے تھے یا تو
وہ عدالت کے حکم سے رو گردانی کرتی یا دھرنے والوں کے خلاف حرکت میں
آتی۔حکومت نے دوسرے آپشن کو اختیار کیا اور ایک نیم دلانہ اپریشن کے ذریعے
دھرنے والوں سے فیض آباد کو خالی کروانے کی کوشش کی۔حکومت کی یہی کوشش
ریاست کی ناکامی کا جواز بنی۔اس کے بعد حکومت نے آرٹیکل ۲۴۵ کے تحت فوج کو
سول ا نتظامیہ کی مدد کیلئے بلانے کا حکم دیا جسے فوجی قیادت نے ناقابلِ
عمل قرار دے کر رد کر دیا حالانکہ وہ ایسا کرنے کی بالکل مجاز نہیں تھی
۔فوج کا کام حکومتِ وقت کے احکامات پر بلا چون و چرا عمل در آمد کرنا ہو تا
ہے۔حکومت یہ تھوڑا کہہ رہی تھی کہ آپ دھرنے والوں کا قتلِ عام شروع کر دیں
۔ فوج کا مقصد امن و امان کی بحالی ہوتی ہے اور فوج چونکہ عوامی محبت کا
استعارہ ہوتی ہے اس لئے مظاہرین ان کی بات سنتے اور اور اس پر عمل پیرا
ہوتے ہیں۔فوج بلانے کے معنی یہ کہیں بھی نہیں ہوتے کہ بلا وجہ اپنے ہی
شہریوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے ۔پاکستان کے کئی شہروں میں فوج کو
آرٹیکل ۲۴۵ کے تحت بلا یا جاتا ہے اور وہاں کشت وخون والی کوئی کیفیت نہیں
ہوتی۔انتظامی معاملات میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہاں پر ریاست کے دوسرے
ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں تو پھر فوج کی موجودگی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ریا ست
کا انتہائی منظم ادارہ ہونے کی جہت سے وزیرِ اعظم کے احکامات پر فوج کو عمل
پیرا ہونا ہوتا ہے یہی آئینِ پاکستان ہے اور یہی قانونِ پاکستان ہے لیکن
فیض آباد دھرنے سے نپٹنے کیلئے اس آئینی اور قانونی تقا ضے کو پسِ پشت ڈالا
گیا ۔ریاست کا سب سے مضبوط اور منظم ادارہ ہی جب حکومت کے احکانات کونظر
انداز کردیگا تو پھر ریاست کی رٹ کیسے قائم ہو گی؟پاکستانی تاریخ میں یہ
پہلی بار ہوا کہ فوجی قیادت نے وزیرِ اعظم کے احکامات کو کھلے عام نظر
انداز کیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ریاست یوں بے توقیر نہ ہوتی۔فوجی قیادت
کے انکار کے بعد دھرنے والوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے اور پورا ملک دھرنے
کا منظر پیش کر رہا تھا ۔چھو ٹے بڑے شہروں اور چوراہوں پر لبیک یا رسول اﷲﷺ
کے کارکن تھے اورپورا نظامِ حکومت مفلوج تھا ۔ اگر دھرنے والوں نے امن و
امان میں رخنہ اندازی کی ہوتی، دھشت گردی کا مظاہرہ کیا ہوتا ،ریاستی
اداروں پر یلغار کی ہوتی،قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہوتا یا پھر عوام پر
حملہ آور ہو ئی ہوتی تو حکومت کو اس بات کا حق تھا کہ وہ مظاہرین کے خلاف
طاقت کا استعمال کرتی لیکن جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو حکومت کا ایک
انتہائی حساس مسئلے پر لبیک یا رسول اﷲﷺ کے خلاف اپریشن ریاست کی بنیادوں
پر حملے کے مترادف تھا ۔اگر دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا ہو سکتا
ہے تو پھر ناموسِ رسالت ﷺ کیلئے دھرنا کیوں نہیں ہو سکتا؟ پر امن مظاہرین
پر حکومت کا حملہ پورے ملک کے احساسات پر حملہ تھا جسے عوام قبول کرنے
کیلئے تیار نہ تھے ۔یہی تھی آزمائش کی وہ رات جب محبوبِ خدا حضرت محمد ﷺ سے
محبت کے داعیوں کیلئے زندگی اور موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا وقت آ
پہنچا تھا اور محبت کے داعیوں نے اس رات موت کا انتخاب کر کے حکومت کو سرِ
تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیاتھا۔یہ لبیک یا رسول اﷲﷺ کی جیت نہیں تھی
بلکہ یہ اس عشق کی جیت تھی جس کا محور ہر مسلمان کا دل ہے۔،۔ |