پاکستان نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ترکی حکومت کی
طرف سے جاری کیا جانے والی دعوت قبول کرلی ہے، جس میں او آئی سی ممالک شرکت
کریں گے، اسرائیل کی تازہ صورتِ حال پر غور کیا جائے گا اور آئندہ کا لائحہ
عمل تیار کیا جائے گا۔ دعوت نامہ قبول کرنے کے ایک دریا کے پار اترنے کے
بعد پاکستان کو ایک اور دریا کا سامنا ہے ، اب پاکستان میں اعلیٰ سطحی
اجلاس ہوں گے، اور فیصلہ کیا جائے گاکہ اس اہم ترین اجلاس میں صدرِ مملکتِ
اسلامیہ پاکستان تشریف لے جائیں گے یا اس کا قرعہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے نام نکلے گا؟ اعلیٰ سطحی اجلاس میں یقینا پاکستان کے مقتدر اور
اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہی شامل ہوں گے، مگر یہاں پریشانی یہ ہے کہ دونوں
اعلیٰ عہدیدار اتنے اہم فیصلے خود نہیں کرتے، انہیں چونکہ ہر مصروفیت اور
سرگرمی کا تیار شدہ شیڈول ملتا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے کیا کھانا ہے، کب
کھانا ہے، کیسا لباس پہننا ہے؟ جیسے معاملات بھی طے شدہ طریقے کے مطابق
نبھانا پڑتے ہیں، اس لئے انہوں نے خود سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ سوچیں بھی
سہی تو ان کی سوچ پر عمل کوئی نہیں کرنے دیتا کہ یہ آئینی مجبوریاں ہیں۔
اعلیٰ سطحی اجلاس دکھانے کے لئے تو اور لوگوں پر مشتمل ہوگا، مگر اس کے
نتیجے میں جو فیصلہ سامنے آئے گا وہ ضروری نہیں کہ اسی اجلاس میں ہی طے کیا
گیا ہو، بلکہ نشستن، خوردن اور برخاستن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے تمام
کارروائیاں ہوں گی، اہم شخصیات آئیں گی، اجلاس ہوگا، خوردونوش کا اہتمام
ہوگا، اور ’اوپر‘ سے آنے والے فیصلے سے آگاہ کردیا جائے گا، یا باتوں ہی
باتوں میں ماحول بنا لیا جائے گا۔
پاکستان کے مذکورہ بالا دونوں حکمران چونکہ سوچنے اور فیصلہ وغیرہ کرنے کے
جھنجھٹ میں پڑتے ہی نہیں، اس لئے انہوں نے کبھی یہ تکلف بھی نہیں کیا کہ
معاملہ پر بحث ہو، یا باہمی مشاورت ہو، یا ماہرین سے رائے لینے کا منصوبہ
ہو، یا صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہو۔ ہر کام تیار شدہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی ایک صاحب اگلے ہفتے ترکی جائیں گے تو وہاں
ویسی ہی رائے دیں گے، جیسے پاکستان میں ان کا کردار ہوتا ہے۔ امکان یہ ہے
کہ صدرِ مملکت ہی تشریف لے جائیں گے، کیونکہ ان کے پاس وزیراعظم کی نسبت
زیادہ فرصت ہے، بلکہ دکھائی یہی دیتا ہے کہ وہ مصروفیت کا انتظار ہی کرتے
رہتے ہیں، چنانچہ ان کا مستعد عملہ انہیں غیر ملکی سفیروں اور مہمانوں سے
ملواتا اور فارغ وقت طول پکڑنے لگے تو تقریبات کا اہتمام کرتا ہے، ظاہر ہے
ان کی صحت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے، اور انہیں بہت زیادہ مصروف بھی نہیں
رکھا جاسکتا۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان کو بھی چند ماہ موقع ملا ہے کہ وہ
اندرون اور بیرونِ ملک کچھ سیر سپاٹا سرکاری خرچ اور پروٹوکول کے ساتھ
کرلیں، ذاتی طور پر تو وہ یہ کام کرتے رہے ہوں گے، مگر سرکاری پروٹوکول میں
سیر کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم کو اپنے ’’وزیراعظم‘‘ کہ
جنہیں عدالتِ عظمیٰ نے نااہل قرار دے دیا تھا، کے معاملات سنبھالنے میں
کافی مصروف رہنا پڑتا ہے۔
رہ گیا مسئلہ اوآئی سی کا، تو اس کی حقیقی پوزیشن وہی ہے جو ہمارے ہاں صدر
اور موجودہ وزیراعظم کی ہے۔ نہ اختیارات، نہ منصوبہ بندی، نہ سوچ اور نہ ہی
کسی حکم وغیرہ پر عمل درآمد۔ اپنی او آئی سی ایک بے ضرر تنظیم ہے، جس کے
ارکان کبھی کبھار ہنگامی طور پر اکٹھے ہوتے اور ٹھنڈے انداز میں مسائل پر
بحث کرتے ہیں، نہ وہ کوئی سخت فیصلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف
ایکشن لینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں، اس لئے ان کے اجلاس سے کسی مخالف وغیرہ
کو کبھی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ ہنگامی اجلاس
کی شدت خواہ کتنی بھی ہو، بات کبھی مذمت سے آگے نہیں بڑھی، کیونکہ آگے
بڑھنے کی کسی میں صلاحیت اور ہمت ہی نہیں۔ گھر بیٹھ کر کسی کی مذمت کر دینے
سے حتیٰ کہ کسی کو دھمکی تک دے دینے سے بھی مخالف پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جب او آئی سی اور وطنِ عزیز کے نمائندہ کی حیثیت ایک جیسی ہوگی تو نتیجہ
سامنے ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے،اور اسی وجہ
سے مسلمان ممالک کی نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے۔ چار پانچ درجن اسلامی
ممالک میں دو چار ہی ایسے ہیں، جو کچھ سوچنے اور کرنے کی پوزیشن میں ہیں،
تاہم ان کی حیثیت آٹے میں نمک کی سی ہے۔ ان کارروائیوں کا نتیجہ صفر ہی
ہوگا۔
|