قائد اعظم نے اسرائیل کو مغرب کاناجائز بچہ قرار دیا تھا‘
آج امریکہ اس ناجائز بچہ کی سرپرستی میں دنیا کو بدترین فساد کی طرف دھکیل
رہا ہے ۔وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان
کے خیال میں 'یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے
درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا۔امریکہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس
نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔دریں اثنا اسرائیلی وزیر
اعظم کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے
بے تاب ہیں اور آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان نے اسے ہمارے لیے ایک تاریخی دن
بنا دیا ہے۔’یہ ایک تاریخی دن ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں
کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔
یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور
ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے۔فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل
کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت
تسلیم کرنے سے دو ریاستی حل کی امید کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ترکی نے امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے
فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا 'ہم امریکی انتظامیہ کے اس غیر ذمہ دار بیان
کی مزمت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بین الااقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار
دادوں کے خلاف ہے۔'مصر نے امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت
تسلیم کرنے کے اعلان کو مسترد کر دیا۔
فرانسیسی صدر نے ٹرمپ کے اعلان کے رد عمل پر کہا ہے کہ وہ امریکہ کے یکطرفہ
فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے جس میں اس نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت
تسلیم کیا ہے۔
فرانس یہ فیصلہ افسوسناک ہے قبول نہیں کرتا اور یہ فیصلہ عالمی قوانین اور
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف جاتا ہے۔بیت المقدس کا ادب و احترام اہل
ایمان کے لئے لازمی ہے جیسا کہ ساب جانتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت
ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت
المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم
حضرت جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج
آسمانی کے لیے تشریف لے گئے حضرت محمد سردار الانبیاء ﷺ آسمانوں کی طرف سفر
سے قبل تمام انبیاء کرام ؑ کی امامت فرمائی۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ
بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے
مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں
عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔
خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ
معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ
کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی
نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔یروشلم کا عربی نام القدس ہے
جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المَقدِس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل
(سلیمانی) ہے
بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں Jerusalem (یروشلم) کہتے ہیں۔ ''بیت
المقدس''سے مراد وہ ''مبارک گھر'' یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے
پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا
تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586
ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں
کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں
حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا
تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اﷲ نے انہیں موت(
نیند) دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ
بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے
وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی
وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلمان علیہ السلام
(961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی
مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے
اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ
الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت
قائم کی گئی۔بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم)
نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی
حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل
سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل
ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر
دیے۔
137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور
فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نیعیسائیت قبول کرلی
اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔
تاریخ کی ورق گردانی بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران
انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی
عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور
یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے
قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے
میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت
المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل
جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط
جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں
کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے
جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لییاسے ''دیوار
گریہ'' کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے
منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا
رکھا ہے۔ جس کی تائید حمایت اور سرپرستی ’’ امریکہ بہادر ‘‘ نے کر کے’’
پوری اسلامی دنیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مسلمان اگر ایک ہو جائیں تو امریکہ اور امریکہ کا ناجائز بچہ
اسرائیل اپنے سارے شیطانوں سمیت اُمت مسلمہ کا ایک بال بھی نہیں اکھاڑ
سکتے۔آج وقت ہیں اسلامی ممالک کے حکمران صرف جمع تفریق اور خالی خولی مذمتی
بیانوں سے آگئے بڑھیں اور امریکہ سے اپنے سفارتی تعلاقات ختم کددیں! تمام
اسلامی ممالک اپنے اپنے ملک سے امریکی سفارت خانے ختم کرنے کا اعلان کردیں
تو اسرائیل اور امریکہ کو ’’ دن کو تارے نظر آنے لگے۔ اور اگر مسلم
حکمرانوں نے ایسا نہ کیا تو دنیا میں تباہی اور آخرت میں رسوائی مقدر بن
جائیں گئی کیونکہ امریکہ وقت کا فرعون ہے !
|