عالمِ صہیونیت اِس وقت شاداں ہے، مسرتوں سے سرشار ہے،
اِس لیے کہ اُن کی فتوحات کا ایک باب تکمیل کو ہے۔ مسجد اقصیٰ قبلۂ اول ان
کی دسترس میں مدتوں پہلے آگیا۔ آج مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کے مکمل انخلا کی
منصوبہ بندی کا امریکی ایجنڈا پیش کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل کا دارالحکومت
بیت المقدس تسلیم کیے جانے کے پیچھے کئی راز ہیں، جن سے پردہ اٹھے گا،
امریکہ کے ذریعے یہ اعلان در حقیقت عالم اسلام کو دھمکی بھی ہے، کہ اسرائیل
کی مکمل پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ اگر کسی نے مخالفت کی تو گویا وہ
امریکہ کا دشمن قرار پائے گا۔ اس موقع پر امریکہ کے دوست مسلم ممالک کا
امتحان ہے کہ وہ اﷲ کی رضا کے لیے فلسطینی مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں یا
پھر امریکی جارحیت کا؛گرچہ بعض ممالک نے بیان بازی تک مذمت کی ہے؛ لیکن اب
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک اسرائیل سے متعلق دو ٹوک موقف اپناتے ہیں یا
نہیں۔ اسلامی ممالک کی یہودیت کے تئیں خاموش حمایت نے عرب کی سرزمین پر
اسرائیل کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرا کہ اہلِ
فلسطین نہتے اور تنہا کر دیے گئے۔ وہ اپنے دفاع کی لڑائی خود لڑ رہے ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل ان پر مسلط ہے۔ اسرائیل کے آگے دبے لچے
اور اُس کی حمایت سے عیش و طرب میں مگن کسی مسلم ملک میں فلسطین کی تائید
کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی جرأت وہمت نہیں۔ یہ المیہ آج مزید ابھر
کرسامنے آیا۔ جب لہولہان بیت المقدس پوری دنیا میں انسانیت وامن کے نام
نہاد علم برداروں کی اسرائیل نوازی کا شکوہ کر رہا ہے۔
اسلامی تاریخ کا نقشِ تاباں:
بیت المقدس اسلامی تاریخ کا عظیم باب ہے۔ اسے حضرت داؤد علیہ السلام نے فتح
کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ پھر اہلِ بابل قابض ہوئے۔
یہودیوں اور بعد کو یونانیوں نے قبضہ جمایا۔ رومی بھی قابض رہے اور ۱۲۳؍
قبل مسیح یہودیوں کا داخلہ ممنوع قراردیا۔عیسائی فرماں روا قسطنطین نے یہاں
گرجا تعمیر کیا۔ ۶۳۷ء میں مسلمانوں نے رومیوں کو شکست دی۔ ۴۵۰؍سالوں تک یہ
گہوارۂ امن بنا رہا۔ صلیبی جنگوں کے نتیجے میں رومن قیادت و عیسائی دنیا نے
یلغار کر کے عربوں کو نکال دیا۔ پھر عثمانی ترکوں نے اسے واپس مملکتِ
اسلامیہ میں شامل کیا۔
بیت المقدس پہاڑی علاقوں میں آباد ہے۔ بحیرۂ روم کی سطح سے ۲۶۰۰؍ فٹ اور
بحیرۂ مردار سے ۳۵۰۰؍ فٹ بلند ہے۔ بحیرۂ روم ۳۳؍ میل اور بحیرۂ مردار ۱۰؍
میل پر واقع ہے۔ جزیرہ نما علاقہ ہے۔ یہاں کثیر زیارتیں ہیں۔ یہ شہر بار
بار اُجڑا ہے پھر آباد ہوا ہے۔ اس کے باسی کبھی اُجاڑے گئے کبھی جِلا وطن
کیے گئے۔ یہاں تاریخ کے کئی ادوار گزرے۔ اﷲ نے بہاریں عطا کیں۔ مقدس انبیا
کے ذریعے اسے زینت بخشی۔حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد مبارک میں یہ فتح ہو
کر بنی اسرائیل کا مسکن بنا؛ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے فصیل بند کیا
اور جبلِ زیتون پر محل تعمیر فرمایا۔ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام
نے اپنے عہد بادشاہت میں بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیر کی اور اس میں
تابوتِ سکینہ رکھا، جس میں تبرکات ومنسوباتِ انبیا ئے کرام تھے۔اﷲ نے بنی
اسرائیل کو شوکت دی۔ بعد کو خدا کی نافرمانی کے سبب ذلت طاری ہوئی اور
یہودیوں کا دور جاتا رہا۔بخت نصر شاہِ بابل (عراق) نے یہودیوں کی عہد شکنی
و غدر سے تنگ آکر بیت المقدس پر حملہ کیا۔ ہیکل کو تباہ کیا؛ یہودیوں کا
قتل عام کیا،قبضہ جمانے بعد باقی ماندہ یہودیوں کو اسیر بنایا۔ انھیں بعد
کو جِلا وطن کر دیا، پھروہ دریائے فرات کے کنارے بابل میں آباد کیے گئے اور
اس بستی کا نام تل ابیب رکھا گیا۔ اسرائیل کا موجودہ دارالحکومت تل ابیب
اسی کی یاد میں ہے۔اﷲ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے
قدمِ ناز سے اسے برکت دی۔ شبِ معراج محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیت
المقدس آمد ہوئی۔ انبیا کی امامت امام الانبیاء نے کی۔ سبحان اﷲ! اس طرح
مسلمانوں کی جبینِ عقیدت سوئے اقصیٰ جھکتی ہے۔ محبتوں کا قبلہ ہے یہ ارضِ
اقدس۔ ۶۳۷ء میں ایک مدت تک محاصرے کے بعد یہ شہرِ مقدس مسلمانوں کے حوالے
ہوا۔
تقدس مآب مقام:
بیت المقدس کئی ناموں سے یاد کیا گیا۔ یہودی و عیسائی اسے یروشلم کہتے ہیں۔
جس کے معنی ورثۂ امن بیان کیے جاتے ہیں۔ اسے Golden Cityبھی کہا جاتا ہے۔
جب آفتاب طلوع ہوتا ہے اور مدھم روشنی یہاں کے سنہرے پتھروں کے مکانات سے
مرتعش ہوتی ہے تو کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہاں امن کم ہی رہا۔ اسے مسلمان بھی
مقدس مانتے ہیں اور یہود و نصاریٰ بھی۔ یہاں کثیر انبیا کی آمد ہوئی۔ جن کے
قدموں کی برکت سے یہ پاک زمیں باغ و بہار ہے۔لیکن یہود و نصاریٰ کی یہ کوشش
ہمیشہ رہی کہ یہاں صرف انھیں کا قبضہ ہو۔ مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت
مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک صدی سے زیادہ مدت سے منصوبہ بند
طریقے سے مسلم بستیاں اُجاڑی جا رہی ہیں۔ یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف سے مسلمانوں کو خانماں برباد کیا جا رہا ہے۔
ہراساں کر کے بھگانے کی مہم جاری ہے۔ نسلوں کو تباہ اور لہو کو ارزاں کر
دیا گیا ہے۔ ہر روز تباہی ہے، ہر روز طوفاں ہے۔ مسلمانوں کا خون پانی سے
سستا ہو گیا ہے۔ آہ و سسکیاں اور نالے بلند ہو رہے ہیں۔ لیکن ظالم بجائے
باز آنے کے ظلم میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ان کے بازو مسلم ممالک کی غفلت سے
طاقت ور بنتے جا رہے ہیں۔ایسے میں امریکہ کے ذریعے بیت المقدس کے اسرائیلی
کیپٹل تسلیم کیے جانے نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔اِس طرح کی عالمی دہشت
گردی کے ذریعے اہلِ فلسطین کی زمین چھیننا سخت مذموم ہے۔
سازشی عزم کی تکمیل:
ماضی میں عرب میں جو کچھ حالات گزرے ان میں اکثر احوال یہودی فکر و مفاد کے
مطابق تھے۔ لیبیا، عراق، شام، یمن، مصر کی تباہی، پے درپے مسلم ملکوں میں
بدامنی مشن کو تقویت، داعش و القاعدہ کا وجود، سالِ گزشتہ مسجد نبوی شریف
سے قریب دھماکہ اور اِس رمضان کے اختتام پر حدود حرم میں دھماکہ ان سب کے
پسِ پردہ بالراست یا براہِ راست اسرائیل کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے۔عربوں میں
اسرائیل نفرت و تشدد کی پرورش کر رہا ہے۔یوں ہی پاک و افغان کی بربادی بھی
اسی ذہنی بانجھ پن کا نتیجہ ہے۔ حتیٰ کہ مسلم ممالک کے نمائندہ اجلاس میں
حرمین کے حکمرانوں کے ذریعہ امریکی حکمراں کی آمد و شرکت بھی یہودی کاز کا
اہم حصہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ موجودہ تباہی میں کوئی بھی مسلم ملک اسرائیل
کے خلاف میدان میں نہیں؛ مسلم ممالک اپنے اقتدار کا عرصہ طویل کرنے کے لیے
شعوری و لاشعوری طور پر یہودی ریاست کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں
یو این او، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کرنے
والے ادارے بھی جنبشِ لب کشائی نہیں کر رہے۔ انھیں مسلمان کا وجود
کھٹکتاہے۔ انھیں مسرت ہو رہی ہو گی کہ اسرائیل نے والیانِ اقصیٰ پر اقصیٰ
کی راہ تنگ کر رکھی ہے۔ اسرائیل کو خوب پتہ ہے کہ عربوں کی غیرت مر چکی ہے۔
وہ بیت المقدس کے تحفظ کو نہیں آئیں گے۔ اسی لیے وہ پورے خطے میں دھشت
گردانہ ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہے۔ اگر مسلم ملکوں کو کچھ
احساس بھی ہوتا ہے تو وہ زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے……اب مسلم مالک کی
متحدہ قوت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ تک عملی جدوجہد کا وقت ہے۔صہیونی
طاقت کے ذریعہ بیت المقدس پر مکمل تسلط کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے
روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم ممالک متحدہ و مشترک قوت کا استعمال
کریں۔اگر اتحاد کے ساتھ اسرائیلی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھی تو امریکی
کازملیا میٹ ہو جائے گا۔ لیکن عربوں کی غیرت مردہ ہو چکی ہے حالاں کہ سلطان
صلاح الدین ایوبی جیسے مردِ جری کی مثالی زندگی سامنے ہے۔ ابھی مزید
قربانیوں کے بعد ان کی آنکھیں کھلیں گی۔ شاید جب تک طوفان ان کے اقتدار کی
بنیاد ہِلا چکا ہوگا۔ ٭٭٭
|