ٹیبل کلاک کے بے ہنگم شور نے اعلان کردیا،،،اٹھ باندھ
کمر،،کیا ہر وقت سوتا
ہے،،،
سلمان کا جسم بے انتہا ٹوٹ رہا تھا،،،زخمی روح نے اب جسم کو بھی کمزورکرنا
شروع کردیا تھا،،،سلمان کے ذہن میں رات کا کیا ہوا وعدہ یاد آنے لگا،،،
کاش زمین پھٹ جائے میں اس میں سما جاؤں،،،سلمان کو بزدل سا خیال چھو
کر گزر گیا،،،اف کس قدر بوجھل سی ہے زندگی،،،
بانو،،،امجد،،،روزی کا سامنا کیسے کروں گا،،یہ سوچ کر سلمان کا دل کیا،،کہ
کمرا
لاک کرکے سوتا ہی رہوں،،،
پھر سب ہنسے گے ندا کے رشتے دار،،،کہ ڈرائیور نے بھی شاید انکار کیا
ہو،،،اک
بچے کا باپ بھی ندا کو نہیں اپنانا چاہتا،،،
کوئی نہیں مانے گا کہ انکار ندا نے ہی کیا ہو گا،،،کیونکہ جس معاشرے میں
ندا رہی تھی،،،وہاں لڑکی کی گردن بس اقرار کی ہی محتاج رہی ہے۔
عجیب سوسائٹی ہے جو مرضی،،جو اجازت اللہ اور اس کے رسول نے دے رکھی
ہے ،،،وہ دینے کو تیار ہی نہیں،،،
سلمان نے بوجھل قدموں سے دروازہ کھولا،،،اس کی سوچ امجد اور بانو سے آگے
نہیں جارہی تھی،،،اس کے اندر شکست پوری طرح پنجے گاڑ چکی تھی،،،
اب بس بانو اور امجد کے سامنے ذلیل ہونا باقی تھا،،،پھر روزی،،،اک نہ ختم
ہونے
والا زلزلہ اس کا منتظر تھا۔
سلمان نے کمرے سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ ندا کو سرخ آنکھوں سمیت اپنا
منتظر پایا،سلمان کا دل دھک کرکے رہ گیا،،اب اک نئی مصیبت اس کی سماعت
سے ٹکرانے والی تھی،،،
ندا نے چٹان کی طرح مضبوط لہجے میں کہا،،،کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت
نہیں،،،رات کی باتیں کہیں اس کی سیاہی میں ہی دفنا دو،،،میں نہیں چاہتی کہ
سلمان کو شکست ہو،،،اب تمہاری نظر کسی کے سامنے نہیں جھکنی چاہیے،،،
میں نے جو کہا،،،معاف کردینا،،،بھلا دینا،،،
میں ندا،،،غریب سی،،،بڑی عمر کی،،،ہڈیوں کا ڈھانچہ،،،بے وقعت سی،،،جس
کے حصے کی اکلوتی بوٹی بھی بھائی کو سالن میں دے دی جاتی ہو،،،
کیسے اس طرح کے خواب دیکھ سکتی ہے جو اس کی آنکھوں سے بھی
بڑے ہوں،،،
میری‘ہاں‘ ہے سلمان،،،بس تمہارے لیے،،،‘‘میری ہاں‘‘،،،یوں سمجھوں گی
کہ تمہارے لیے میں نے ہاں کی ہے،،،میری وجہ سے لوگ کیوں شرمندہ
یا دکھی ہوں،،،دو،،،یا،،،چار دن میں جسم دماغ سب امجد کو قبول کرلے گا،،،
ویسے بھی اقرارِ محبت کی بے شرمی کے بعد اب میں ناخلف اولاد نہیں
بننا چاہتی،،،بس ہاں،،،،،،(جاری)
|