سب سے پہلے اس مضمون کے لکھنے کا مقصد بیان کردوں تاکہ
ضمنی پیغام کے ساتھ میرا اصل پیغام بھی عام وخاص تک پہنچے ۔ نبی ﷺ کی وفات
کا انکار کرکے دین میں ہزاروں بدعات وخرافات کو داخل کرلیا گیا ہے بلکہ
بدعت کے راستے کفریہ عقائد اور شرکیہ اعمال بھی درآئے اور ان اعمال وافعال
کی انجام دہی پر نازاں وفرحاں ہیں۔وفات نبی کے انکار کی نوبت اس طرح پیش
آئی کہ صوفیوں کے نزدیک صوفی وولی اور پیرومرشد کبھی نہیں مرتے ہمیشہ زندہ
رہتے ہیں ۔ اور نہ صرف زندہ رہتے ہیں ہرکسی کی مدد بھی کرتے ہیں ، لوگوں کے
پاس آتے جاتے ، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور سنتے دیکھتے نظر آتے ہیں ۔ جب
یہ اولیا ء اور پیرومرشد کا حال ہے تو پھر نبی کی وفات کا انکار کرنا پڑے
گا اور ماننا پڑے گا کہ وہ بھی زندہ ہیں ۔ اس طرح مزار کی کمائی حلال کرنے
کے لئے نبی ﷺ کی وفات کا انکار کیا گیا ہے جبکہ دنیا میں کسی کو بقا نہیں
خواہ وہ نبی ہو یا ولی سوائے اللہ کے ۔ صرف اللہ کی صفت الحی اور القیوم ہے
یعنی اللہ ہی ایک ایسی ذات ہے جو ہمیشہ سےزندہ اور قائم ہے ، ہمیشہ باقی
رہنے والی اورقائم رکھنے والی ہے۔ اللہ کے علاوہ ساری مخلوق کو موت کا مزہ
چکھنا ہے ۔ اس پہ قرآن وحدیث کے بے شمار دلائل ہیں ، ان کو یہاں طوالت کی
وجہ سے ذکر نہیں کروں گا بلکہ قرآن کی صرف ایک آیت کے ذکر پر اکتفا کروں گا
اور نہ ہی یہاں مزارات وقبے ، کشف وکرامات ، غیراللہ سے امداد ، مردوں کے
نام پہ تجارت ، نذرونیاز کے نام پرسادہ لوح عوام سے مال اینٹھنااورعلاج
ومعالجہ کے نام پر عورتوں کی عزت وآبرو سے کھیلنا وغیرہ ذکر کروں گا۔
سورہ انقال میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ
مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال:33)
ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے
اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔
قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بخاری شریف میں وارد ہے ۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا
أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ
صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
قَالَ أَبُو جَهْلٍ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ
عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنْ السَّمَاءِ أَوْ ائْتِنَا
بِعَذَابٍ أَلِيمٍ فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ
فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَمَا
لَهُمْ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ الْآيَةَ (صحيح البخاري: 4648)
ترجمہ: مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے
بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے بیان کیا ،
ان سے صاحب الزیادی عبد الحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے ، انہوں نے انس
بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابو جہل نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ
کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر بر سادے یا پھر
کوئی اور ہی عذاب دردناک لے آ۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی "وَمَا كَانَ
اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ
مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَمَا لَهُمْ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ
اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ"(حالانکہ اللہ ایسا
نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے ، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ
اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں ۔ ان لوگوں
کے لئے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد
حرام سے روکتے ہیں)۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روئے زمین پر اللہ کی دو ضمانتیں ہیں ۔ پہلی
ضمانت نبی ﷺ کا زندہ ہونا، دوسری ضمانت مومنوں کااستغفارکرنا۔
جب ابوجہل نے اللہ سے عذاب کا مطالبہ کیا تو اللہ نے بتلایا کہ جب تک نبی
زندہ ہیں اس وقت تک قوم پر عذاب نہیں آئے گی ۔ ، نبی ﷺ کی زندگی میں کفار
بھی اللہ کے عذاب سے مامون ہوگئے تھے اب ابوجہل مرگیا اور نبی ﷺ کی اللہ کے
حکم سے وفات پاگئے تو اللہ کی پہلی ضمانت روئے زمین سے اٹھ گئی ۔
ترمذی میں بھی اس کی وضاحت ہے گوکہ روایت ضعیف ہے مگر معنی صحیح ہے ۔
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ
أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ
فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ فَإِذَا
مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمْ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(سنن
الترمذي:3082)
ترجمہ: ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ
وسلم نے فرمایا: میری امت کے لئے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں
(ایک){وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ }(دوسرا)
{وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ}اور جب میں (اس
دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ
جاؤں گا ۔
ابن عباس رضی اللہ سے مروی اس معنی کا اثر تحفہ الاحوذی اور ابن کثیر وغیر
ہ متعدد کتب حدیث وتفسیر میں مذکور ہے ۔
أن الله جعل في هذه الأمة أمانين لا يزالون معصومين مجارين من طوارق العذاب
ما دام بين أظهرهم فأمان قبضه الله إليه وأمان بقي فيكم قوله : وما كان
الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون . (تحفۃ الاحوذی
شرح حدیث رقم: 3082)
ترجمہ: بے شک اللہ اس امت میں دو ضمانتیں رکھا ہے جب تک وہ ضمانتیں ان کے
درمیان ہیں ان کی وجہ سے امت برابر عذاب سے محفوظ رہے گی ۔ پس پہلا امان
اللہ نے اٹھالیا اور دوسرا امان تمہارے درمیان باقی ہے ۔ اللہ کا قول : وما
كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون(اور اللہ
ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو
عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں) ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روئے زمین سے اللہ کی ایک ضمانت اٹھ گئی وہ ہے نبی
ﷺ کا وفات پاجانا ۔ یہ جان لیں کہ آپ ﷺ کا اس دنیا سے اٹھ جانا امت کا بہت
بڑا خسارہ ہے ۔بیحد افسوس ہے ان لوگوں پر جودنیا کی دولت حاصل کرنے کے لئے
نبی ﷺ کی وفات کا انکار کرتے ہیں ۔ اس سے زیادہ افسوس اس حرکت پہ ہے کہ آپ
کی وفات سے روئے زمین کی ایک ضمانت اٹھ گئی مگر دنیا کی دولت و ہوس کے
پرستار ہر سال نبی ﷺ کے نام پہ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں ۔ حیف صد حیف
ایک ضمانت چلی مگر اللہ کی ایک ضمانت ابھی بھی روئے زمین پرباقی ہے وہ ہے
مومنوں کا استغفار کرنا ۔ جو بدعتی ہیں وہ بدعت سے توبہ کرلیں اور کثرت سے
استغفار کریں ، جو بد چلن ہیں وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں اور بکثرت اللہ
سے استغفار کریں اور جو کفر ومعاصی میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ اپنے ایمان کی
اصلاح کریں ، عمل صالح انجام دیں اور استغفار کو لازم پکڑیں ۔ اللہ تعالی
استغفار کی بدولت ہم سے عذاب ٹال دے گا ۔ آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں کے
حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں ، ان حالات میں من مانی، نفسانی خواہشات اور بے
دینی وخرافات چھوڑ کراللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ،
اپنے اعمال درست کرنا اور توبہ واستغفار کو لازم پکڑنا نہایت ضروری ہے ۔ |