حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کے حالات و مناقب (قسط دوم)

جب آپ نے بلخ کی سلطنت کو خیر باد کہا تو اس وقت آپ کا ایک بہت چھوٹا بچہ تھا۔ جب اس نے جوانی میں پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں ؟ تو والدہ نے پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد بتایا کہ وہ اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم ہیں۔ اس کے بعد لڑکے نے پورے شہر میں منادی کروا دی کہ جو لوگ میرے ہمراہ سفر حج پر چلنا چاہیں میں ان کے پورے اخراجات برداشت کروں گا یہ منادی سن کر تقریبا چار ہزار افراد چلنے پر تیار ہو گئے جن کو وہ لڑکا اپنے ہمراہ لے کر والد کے دیدار کی تمنا میں کعبتہ اللہ پہنچ گیا اور جب اس نے مشائخ حرم سے اپنے والد کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے مرشد ہیں اور اس وقت اس نیت سے جنگل میں لکڑیاں لینے گئے ہیں کہ فروخت کر کے اپنے اور ہمارے کھانے کا انتظام کریں یہ سنتے ہی لڑکا جنگل کی جانب چل پڑا اور ایک بوڑھے کو سر پر لکڑیوں کا بوجھ لاتے دیکھا تو فرط محبت سے وہ بے تاب ہو گیا لیکن بطور سعادتمندی اور ناواقفیت کے خاموشی کے ساتھ آپ کے پیچھے بازار تک پہنچ گیا اور جب وہاں جاکر حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ نے آواز لگائی کہ کون ہے جو پاکیزہ مال کے عوض میں پرکیزہ مال خریدے ۔ یہ سن کر ایک شخص نے روٹیوں کے عوض میں لکڑیاں خرید لیں جن کو آپ نے اپنے ارادت مندوں کے سامنے رکھ دیا اور خود نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ اپنے ارادتمندوں کو ہمیشہ یہ ہدایت فرماتے کہ کبھی کسی عورت یا بے ریش لڑکے کو نظر بھر کر نہ دیکھنا اور خصوصا اس وقت بہت محتاط رہنا جب ایام حج کے دوران کثیر عورتیں اور بے ریش لڑکے جمع ہو جاتے ہیں اور تمام افراد اس ہدایت کے پابند رہتے ہوئے آپ کے ہمراہ طواف میں شریک رہتے لیکن ایک مرتبہ حالت طواف میں ہی آپکا لڑکا سامنے آ گیا اور بے ساختہ آپ کی نگاہیں اس پر جم گئیں اور فراغت طواف کے بعد آپ کے ارادتمندوں نے عرض کیا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ آپ نے جس سے باز رہنے کی ہمیں ہدایت کی تھی اس میں آپ خود ہی ملوث ہو گئے کیا آپ اسکی وجہ بیان کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ بات تو تمہارے علم میں ہی ہےکہ جب میں نے بلخ کو خیرباد کہا تو اس وقت میرا چھوٹا بچہ تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ وہی بچہ ہے پھر اگلے دن جب آپ کا ایک مرید بلخ کے قافلہ کی تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچاتو دیکھا کہ وہی لڑکا دیباو حریر کے خیمہ میں ایک کرسی پر بیٹھا تلاوت کر رہا ہے اور جب اس نے آپ کے مرید سے آپ کا مقصد دریافت کیا تو مرید نے سوال کیا کہ آپ کس کے صاحب زادے ہیں؟ یہ سنتے ہی اس لڑکے نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا لیکن کل ایک بوڑھے لکڑہارے کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ شاید یہی میرے والد ہیں اور اگر میں ان سے کچھ پوچھ گچھ کرتا تو اندیشہ تھاکہ وہ فرار ہو جاتے کیوں کہ وہ گھر سے فرار ہیں اور انکا اسم گرامی ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ یہ سن کر مرید نے کہا کہ چلئے میں ان سے آپکی ملاقات کروا دوں۔ اور اپنے ہمراہ آپکی بیوی اور لڑکے کو لے کر بیت اللہ میں داخل ہو گیا اور جب بیوی اور بچے کی آپ پر نظر پڑی وفور محبت سے بیتابانہ دونوں لپٹ گئے اور روتے روتے بے ہوش سے ہو گئے اور ہوش میں آنے کے بعد جب حضرت ابراہیم رح نے پوچھا تمہارا دین دین کیا ہے؟ تو لڑکے نے جواب دیا اسلام پھر سوال کیا کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ لڑکے نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ تعلیم حاصل کی ہے۔ لڑکے نے کہا جی ہاں یہ سن کر فرمایا الحمداللہ اس کے بعد جب آپ جانے کے لئے اٹھے تو بیوی اور بچے نے اصرار کر کے آپکو روک لیا جس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کہ کہا کہ یا الہی اغشنی یہ کہتے ہی آپ کے صاحب زادے زمین پر گر پڑے اور فوت ہو گئے اور جب ارادت مندوں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ جب میں بچے سے ہم آغوش ہوا تو وفور جزبات اور فرط محبت سے بیتاب ہو گیا۔ اور اسی وقت یہ ندا آئی کہ ہم سے دوستی کے دعوی کے بعد دوسرے کو دوست رکھتا ہے۔ یہ ندا سن کر میں نے عرض کیا کہ یااللہ یا تو لڑکے کی جان لے لے یا پھر مجھے موت دے دے۔ چنانچہ لڑکے کے حق میں دعا مقبول ہوگئی اور اگر اس پر کوئی اعتراض کرے تو میرا جواب ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے زیادہ تحیر خیز نہیں کیوں کہ انہوں نے بھی تعمیل حکم میں اپنے بیٹے کو قربان کر دینے کی ٹھان لی تھی۔

کسی نے بطور نظرانہ آپ کو ایک ہزار درہم پیش کرتے ہوئے قبول کر لینے کی استدعا کی لیکن آپ نے فرمایا کہ میں فقیروں سے کچھ نہیں لیتا اس نے عرض کیا کہ میں تو بہت امیر ہوں فرمایا کہ کیا تجھے اس سے زائد دولت کی تمنا نہیں؟ اور جب اس نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ اپنی رقم واپس لے جاؤ کیوں کہ تو فقیر کا سردار ہے۔

پھر فرمایا کہ جس کو تین حالتوں میں دل جمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اوپر باب رحمت بند ہو چکا ہے۔ اول تلاوت کلام مجید کے وقت دوم حالت نماز میں سوم ذکر و شغل۔ اور عارف کی شناخت یہی ہے کہ وہ ہر شے میں حصول عبرت کے لئے غور فکر کرتے ہوئے خود کو حمد و ثنا میں مشغول رکھے اور اطاعت الہی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔

ایک دن آپ رح کے پاس حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ آئے اور سوال کیا کہ آپ نے دنیا سے فرار کیوں اختیار کیا؟ فرمایا کہ اپنے دین کو آغوش میں لئے صحرالبصحرا قریہ بہ قریہ اس لئے بھاگتا پھرتا ہوں کہ دیکھنے والے مجھے یا تو مزدور تصور کریں یا دیوانہ تاکہ اپنے دین کو سلامت لے کر موت کے دروازے سے نکل جاؤں ۔

ایک یوم آپ کو کھانا نصیب نہ ہوا تو شکرانے کی چار سو رکعتیں ادا کیں اور جب اسی طرح مکمل سات یوم گزر گے اور آپکے ضعف و کمزوری میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو آپ نے اللہ تعالی سے بھوک کا اظہار کیا۔ چنانچہ اسی وقت ایک نوجوان آپ کو اپنے مکان پر لے گیا اور آپ کو پہچان کر عرض کیا کہ میں آپ دیرینہ غلام ہوں اور میری تمام املاک آپ ہی کی ملکیت ہے۔ یہ سن کر آپ نے اسے آزاد کر کے تمام جائیداد اسی کے حوالے کردی اور یہ عہد کر لیا کہ اب کبھی کسی سے کچھ طلب نہ کروں گا۔ کیوں کہ روٹی کے ایک ٹکڑے کی طلب پر پوری دنیا پیش کر دی گئی۔ (جاری)
 

M. Asim Raza
About the Author: M. Asim Raza Read More Articles by M. Asim Raza: 13 Articles with 30243 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.