حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں جب مصر میں قحط آیا تو
آپ نے قحط سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی سات سال کا غلہ اکھٹا کرلیا تھا
قحط کے سالوں میں آپ یہ غلہ سستے داموں فرخوخت کرتے تھے اور فقراء اور
مساکین کو غلہ مفت تقسیم کرتے تھے اور یہ سارا کام اپنی نگرانی میں فرماتے
تھے۔
ایک دفعہ اسی طرح فقراء میں غلہ تقسیم ہو رہا تھا فقراء اور مساکین کی قطار
لگی ہوئی تھی باری باری سب اپنا حصہ وصول کررہے تھے اور گھروں کو جا رہے
تھے
آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک نوجوان انتہائی غریب اور خستہ حالی کے ساتھ
حاضر ہوا اپنے حصہ کا غلہ وصول کیا اور اسے ایک طرف رکھ کر دوبارہ قطار میں
لگ گیا آپ نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ اسکی ضرورت زیادہ ہوں چلو لینے دو
دوسری دفعہ لینے کے بعد وہ پھر قطار میں لگ گیا
آپ علیہ السلام نے پھر بھی چشم پوشی فرمائی چوتھی دفعہ جب وہ نوجوان قطار
میں جا کر کھڑا ہوا تو آپ علیہ السلام نے اسے بلوالیا اور اس پر برہمی کا
اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ تو بار بار ایسا کیوں کرتا ہے وہ کہنے لگا کہ
حضرت اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ میں کون ہوں تو یقیناً آپ ایسا نہ کہیں آپ
علیہ السلام نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟
اپنا تعارف کرا وہ کہنے لگا میں وہی بچہ ہوں جس نے آپکی پاکدامنی کی گواہی
دی تھی جب کہ آپ پر زلیخا نے جھوٹا الزام لگا دیا تھا،
قرآن مجید کی آیت میں اسی گواہی کا تذکرہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام اس
نوجوان کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اسکا انتہای اکرام کیا اسے اپنے پاس مہمان
بنایا اور اپنی طرف سے اسے کپڑوں کا قیمتی جوڑا بھی دیا سواری کے لیے اعلی
نسل کا گھوڑا بھی دیا کئی من غلہ اور رقم وغیرہ دیکر رخصت کیا
اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام پر وحی فرمائی کہ اے یوسف جس شخص نے تیری
پاکیزگی کی گواہی ایک دفعہ دی تو اس پر کتنا خوش ہوا اور کتنا انعام واکرام
دیا بھلا جو شخص میری توحید کی گواہی دیتا ہے میں اس پر کتنا خوش ہوتا ہوں
گا وہ کس طرح میری عنایات سے محروم رہ سکتا ہے اور ایک موذن یا ایک داعی پر
میں کتنا لطف وکرم کرونگا۔ |