بیت المقدس مسلمانوں کے لیے اہم کیوں ہے ؟

امریکی صدر ٹرمپ( جسے 27 ماہر نفسیات نے دماغی مریض قرار دے دیاہے ) نے نہایت تکبرانہ انداز میں اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس قرار دے کر اپنا سفارت خانہ اس شہر میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہ حکم بلاشبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ بیت المقدس اور سرزمین فلسطین ہمارے لیے کیوں اہم ہے اور ہم اس پر اپنی جانیں کیوں قربان کرتے ہیں ۔ سرزمین فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی ۔ اﷲ تبارک و تعالی نے قوم لوط پرجب عذاب نازل کیا تو حضرت لوط علیہ السلام کو اسی جانب نجات عطا فرمائی ۔حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت اختیارکیے رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا ۔حضرت سلیمان علیہ السلام اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیاپر حکومت کیاکرتے تھے ۔چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہاتھا اے چیونیٹوں اپنے بلوں میں گھس جاؤ ٗ حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج آرہی ہے ۔ یہ واقعہ اسی سرزمین کے شہر عسقلان میں پیش آیاتھا۔ جس کانام بعد میں وادی النمل( چیونیٹوں کا شہر) رکھ دیاگیا ۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہوجاؤ ۔ اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوچکے ہیں جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت مبارک ہوئی ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو اسی شہر سے آسمان پر اٹھایا گیا ۔حضرت عیسی علیہ السلام قیامت سے یہاں ہی اتریں گے ( چند لوگ شام کاذکر بھی کرتے ہیں)۔اسی شہر کے مقام باب لد پر حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے ۔ تحقیق کی کتابوں میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہی سرزمین فلسطین ارض محشر ہوگا ۔ اسی شہر سے یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد شروع ہوگا ۔اس شہر میں ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے ۔بیت المقدس( مسجد اقصی) مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے ۔خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے مسلمان مسجد اسی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ۔مسجد قبلتین مدینہ منورہ میں ہے ۔معراج پر جانے سے پہلے محمد ﷺ بیت المقدس تشریف لائے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کرام کی امامت کے فرائض انجام دیئے پھر یہیں سے آسمان کی جانب براق پر آسمان پر رب کریم سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔سیدنا ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ تھی اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصی تعمیر ہوئی ۔نبی کریم ﷺ کے جسمانی وصال کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگرکئی مشکلات سے نمٹنے کے لیے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود آپ ؓنے فلسطین( شام) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا مناسب سمجھا۔اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض بیت المقدس کی فتح کے لیے حضرت عمر بن خطاب ؓ کا خود چل کر جانا اور یہاں نماز ادا کرنا اس شہرکے تقدس اور عظمت کو اجاگر کرتا ہے ۔ دوسری بار معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ہجری کو مسلمانوں کے سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے ۔بیت المقدس کا نام پہلے قدس تھا۔ قرآن نازل ہواتو اس کانام مسجد اقصی رکھ دیاگیا ۔قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے ۔جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبرو استبداد سے بچانے کے لیے پانچ ہزار صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا اور شہادت کا باب آج بھی بند نہیں ہوا ۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر بھی ہے ۔ مسجد اقصی اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہے ۔جب قرآن پاک کی یہ آیت (والتین و الزیتون و طور سینین و ھذا البلد الامین ) نازل ہوئی تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم نے بلاد شام کو "التین " انجیر سے ٗ بلاد فلسطین کو "الزیتون " زیتون اور الطور سینین کومصر کے پہاڑ کوہ طور ۔ جس پر پہنچ کر حضرت موسی علیہ السلام اﷲ تعالی سے ہم کلام ہوا کرتے تھے ٗ سے استدلال کیا۔مسجد اقصی کی عظمت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پڑھی جانے والی ہر نماز کا ثواب پانچ سو گنا زیادہ ہے ۔یادرہے کہ یہودی صرف حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو مانتے ہیں ۔ عیسائی صرف حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں لیکن مسلمان حضرت موسی ٗ حضرت یعقوب ٗ حضرت عیسی علہیم السلام سمیت تمام انبیاء کرام اور ان پر نازل ہونے والی مقدس کتابوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور ہر نبی کی عزت اور تکریم مسلمان کے ایمان کا اہم جزو ہے ۔ ترکی کے شہر استنبول میں OIC کے زیر انتظام جو عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس میں یہ مطالبہ کیاگیا کہ دنیا بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے لیکن مطالبہ کرنے والے مسلم ممالک میں یہ ہمت نہیں کہ وہ خود بیت المقدس کو فلسطین کا دارالخلافہ باضابطہ طور پر تسلیم کرلیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں جو اسلامی فوج قائم کی گئی ہے وہ کس مرض کی دوا ہے ۔اگر یہ اتحادی فوج اسرائیل سے بیت المقدس کو ہی آزاد نہیں کرواسکتی تو پھر اسکے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا ۔ امریکہ اسوقت تک اپنا فیصلہ واپس نہیں لے گاجب تک اس کے ساتھ سفارتی ٗ معاشی ٗ اسلحی ٗ تجارتی اور ہر قسم کے تعلقات تمام مسلم ممالک منقطع نہ کرلیں ۔افسوس کہ اتنی ہمت مسلم حکمرانوں میں نہیں ہے ۔ پھر مطالبے کرنے کا کیا فائدہ۔اکیلا ترکی تو بدمست امریکہ کولگام نہیں ڈال سکتا۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.