پاکستان میں مذہبی جماعتو ں کا سیاسی محاذ پر کردار اتنا
ہی پرانا ہے جس قدر عا م سیاسی جماعتوں کا اسٹیک ہمارے نظام ِ سیاست میں ہے
، موجودہ دور میں سیاسی میدان میں بہت سی دینی جماعتیں اہل سیاست کے ہم پلہ
ہیں لیکن ان میں قدیم ترین جماعتیں جمعیت العلماء اسلام ( ان دنوں جے یو
آئی سیاسی اختلافات کے باعث مولانا فضل الرحمان اور مولان اسمیع الحق کی
زیر سرپرستی الگ الگ دھڑوں میں بٹ کر سیاست کررہی ہے) اور جماعت اسلامی ہیں
ان کا سیاسی آغاز پاکستان سے قبل کا ہے اور جے یو آئی نے رواں برس سو سال
کی ہوچکی ہے ۔سیاست سے ہو مذہب الگ تو رہ جاتی ہے چنگیزی ان کا سیاسی منشور
کا اہم حصہ ہے جس پر جماعت اسلامی کافی حد تک اس لئے کابند ہے کہ یہاں
مورثی سیاست اور بادشاہت نہیں البتہ جے یو آئی میں جمہوری تقاضے اس طر ح سے
پورے نہیں کئے جارہے جس کا اطلاق ہونا ضروری تھا۔ جماعت اسلامی سے بعض لوگ
جداہوئے لیکن انہوں سیاسی جماعت تشکیل دینے کی بجائے مذہبی و تبلیغی انداز
اپنایا جبکہ جے یو آئی میں اختلاف کی وجہ اسلامائزیشن بالخصوص مولانا سمیع
الحق کے ہم خیال افراد کا طالبان کی جانب جھکاؤ تھا جس کے مخالف مولانا فضل
الرحمان ہیں اور اسی وجہ سے وہ ہر اس حکومت کی آنکھ کا تارہ بھی بنے رہتے
ہیں جو طالبان مخالف ہوتے ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلک کی بنیاد پر سیاست کا
انداز رفتہ رفتہ ملکی سیاست میں آنا شروع ہوا جو ان دنوں بہت عروج حاصل
کرچکا ہے اور اس کی وجہ سے ملک میں مذہبی سطح پر مسائل بھی جنم لیتے رہے
ہیں تاہم پابندیوں کے باوجود اس میں کمی واقع نہیں ہوسکی ۔ مذہبی جماعتوں
کا پاکستانی سیاست میں مجموعی طور پر ایسا موثر کردار نہیں رہا جس کیلئے یہ
اس میدان میں جدوجہد کرنے نکلی ہیں ، ان میں بنیادی کمزوری فرقہ ورانہ
تقسیم کے باعث اتحاد کا نہ ہونا ہے ، جماعت اسلامی نے اس کمی کو کئی بار
محسوس کیا اور مختلف اوقات میں اتحاد بنایابھی ، اسلامی جمہوری محاذ،
اسلامک فرنٹ اور آخری اتحاد کا نام متحدہ مجلس ِ عمل دیا گیا، ایم ایم سے
سے قبل تمام اتحاد وہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوئے جس قدر مقبولت اسے
حاصل ہوئی ، اس اتحاد کی بدولت قومی اسمبلی میں پہلی بار اسلامی جموعتوں کے
اتحا د پر مبنی اپوزیشن بنی جو تاریخی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔متحدہ مجلس
عمل پاکستانی سیاست میں مشرف پالیسیوں کیخلاف بننے والا اتحاد تھا جس کی
بدولت ملک میں سیاسی جماعتوں کیلئے ایندھن فراہم ہوا گو کہ یہ اتفاق مشرف
کو پسند اور قابل ِ قبول نہیں تھا اس کے باوجود بیرونی دباؤ جو ملکی سا
لمیت کیلئے نقصان دہ تھا ایم ایم اے کی بدولت کم درجہ پر آتا رہا اور کئی
پالیسیوں میں اسے ہم خیال رکھنا ناگزیر ہوگیا تھا ، اس کا فائدہ جہاں
2002میں بننے والی حکومت کو وہیں ایم ایم اے کو بھی سیاسی قد بڑھانے میں
آسانی ہوئی ، مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد میں کئی ایسے لوگ بھی موجود تھے جو
مجبوری تھے ان میں مولا نا فضل الرحمان قابل ذکر ہیں جنہیں نا چاہتے ہوئے
اپوزیشن لیڈر منتخب کیا گیا تاکہ وہ حکومتی سازشوں کے جال میں نہ آسکیں
لیکن ا ن کی طبیعت میں اہل اقتدار سے راہ رسم رکھنا ہے سو وہ مشرف کے سازشی
جال میں گرفتار ہوئے اور اس اتحاد میں دراڑ کا باعث بنے۔یہ اتحاد ایسا ٹوٹا
کہ پھر اس کا نام لیوا2008 سے2013تک کوئی نہیں دکھائی دیا ۔ ایم ایم اے
اپنی سیاسی ہیت اور حیثیت کھو بیٹھی اور اس کی ساری محنت کو اکارت ہوئی
ساتھ ہی لوگوں کا مذہبی جماعتوں پر سے اعتماد بھی اٹھتا چلا گیا اس کی واضح
مثال آپ پچھلے دو عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی پالیمان میں نمائندگی
ہے جو انتہائی کم ترین سطح پر آچکی ہے۔2013کے انتخابات سے قبل ایم ایم اے
کی بحالی اور اسی کے پلیٹ فارم پر انتخابات لڑنے کی بازگشت سنی گئی جو
مفادات کے دھندلکوں میں دب گئی اور تمام مذہبی جماعتوں ایک بار پھر اپنی
اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر انتخاب لڑا ، کراچی میں پولنگ کے دوران
دھاندلی کا شور اٹھا ، پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں دیگر نے بائیکاٹ کا
اعلان کیا جبکہ عمران خان نے پورا الیکشن ہی دھاندلی زدہ قرار دے دیکر ایک
اختلافی مہم شروع کی جس پر آج تک احتجاج کیا جارہا ہے ۔
مولانا فضل الرحمان ہر دور میں کوشش کرتے ہیں کہ وہ وزارت کے مزہ لیتے رہیں
چاہے دنیا کچھ بھی کہہ لے وہ ا س سے ہمیشہ ہی بے پرواہ رہے ہیں ، اختلاف
ہونے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کی طرح سے حکومت ہی کے گن گانا ان کا
فطری عمل ہے ۔ختم نبوت کے بل میں ترمیم کے مسئلہ کی نشاندہی بھی ان ہی کے
سینیٹر حمداﷲ نے کی لیکن انہوں نے اسے غیر معمولی ہونے سے بچانے کی حکومتی
مہم میں حصہ لیا اور قوم کو اسے قابل معافی قرار دینے کی ہدایت کی جبکہ
یہیں سے ایک اور مذہبی جماعت جس نے NA-120سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا
اس نے ملک میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل کرلی ہے ۔ملک کی موجودہ سیاسی
صورتحال میں ایک اور تہلکہ علامہ طاہرالقادری نے ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر ِ
عام پر آجانے کے بعد کرڈالا ہے جس سے محسوس ہورہا ہے کہ ملک میں جہا ں دیگر
سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنی ہے وہیں مذہبی جماعتوں کا اتحا د ایک بار پھر
ناگزیر ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق ایک وقت میں کئی
محاذوں پر طبع آزمائی کررہے ہیں وہیں ایم ایم اے کی بحالی کیلئے بھی کوشاں
نظر آرہے ہیں تاکہ ایک بار پھر تمام دینی جماعتیں ایک سیاسی پلیٹ فارم پر
جمع ہوجائیں اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ ہوسکے۔مولانا سمیع الحق اور مولانا
فضل الرحمان میں بنیادی اختلاف طالبان کے موضوع پر جبکہ سراج الحق کا
مولانا فضل الرحمان سے فاٹا اصلاحات پر مزاج نہیں ملتا اس کے باوجو د جماعت
اسلامی کا خیا ل ہے کہ وہ اس اتحاد کی بحالی کیلئے کوشش جاری رکھے ۔مولانا
سمیع الحق کا تحریک انصاف کے چیئرمین سے بھی سیاسی اتحاد کا معاملہ زیر غور
ہے ، خیبر پختون خواہ میں اس کی حلیف جماعت اسلامی سے بھی معاملات بہتر
کرنے کی کوشش جاری ہے تاکہ آئندہ برس ہونے والے انتخابات سے قبل رنجشوں کا
ازالہ کیا جاسکے جبکہ عمران خان کا جہاں نواز شریف اور ذرداری سے چھتیس کا
آکڑا ہے وہیں وہ مولانا کے سخت خلاف ہیں اور اپنی تقریروں میں ہمیشہ انہیں
آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور مولانا بھی عمران خان کو یہودی لابی کا آلہ ء کار
کہنے سے چوکتے نہیں۔اطلاعات ہیں کہ جماعت اسلامی اب تحریک انصاف کے بجائے
ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کو ترجیح دے ہی ہے البتہ مولانا سمیع الحق کی زیر
صدارت پارٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں جے یو
آئی (س) تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد کرے گی ، میڈیا کو بریفنگ دیتے
ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ پارٹی کی مجلس شوری ٰ نے پی ٹی آئی
سے اتحاد کی منظوری دیدی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی
صوبائی حکومت نے اپنے دور میں اسلامائزیشن کیلئے بہت کام کیا ہے جو قابل
ستائش ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دینی جماعتوں کا اتحا د وقت کی ضرورت ہے تاہم
مجلس شوریٰ نے دینی جماعتوں سے اتحاد کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے
اتحاد کی منظوری دی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ
جب مجلس عمل فعال تھی ، صوبے میں اس کی حکومت قائم تھی اس وقت بھی انہیں
ایم ایم اے کی پالیسیوں سے اختلاف تھا ، اس اختلاف کے باعث مولانا فضل
الرحمان نے انہیں پارٹی سے بے دخل کیا کیونکہ وہ اس وقت پارٹی میں بادشاہ
بنے ہوئے تھے، ان کی مرضی ہو تو کوئی بھی اس اتحاد کا حصہ رہ سکتا تھا اور
ان کی مرضی کے خلاف بولنے والا پارٹی سے باہر کردیا جاتا تھا۔ ایم ایم اے
کی دیگر جماعتوں سے رابطے ضرور ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر
کام کرنے کا سوچا نہیں جاسکتا۔
مولانا سمیع الحق کا پاکستان میں سیاست کرنے والی دینی جماعتوں میں ایک اہم
کردار ہے تاہم اس اختلاف کے باعث معاملات میں تعطل نظر نہیں آرہا ۔ ذرائع
کہتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل پرانے کرداروں کے ساتھ نئی دینی جماعتوں کے
ساتھ مل کر 2018کے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی۔ ایم ایم اے نے اگلے
برس ہونے والے عام انتخابات کیلئے 550سے زائد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے
حلقوں میں جہاں دینی جماعتوں کا مضبوط ووٹ بینک ہے ، لڑنے کی منصوبہ بندی
تیا کرلی ہے اور اس اتحاد کو فعال کرنے کیلئے آخری مراحل میں کام کیا جارہا
ہے ، جن حلقوں میں 2002 میں مجلس نے کامیابی حاصل کی تھی وہاں کاکنان کو
بھی فعا ل کیا جانے لگا ہے ۔مجلس عمل کو فعال کرنے والوں کا خیال ہے کہ وہ
ملک بھر سے اس پلیٹ فارم ک بدولت بڑ ی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے جبکہ
صورتحال اب بہت بدل چکی ہے ۔ 2002سے 2018کے درمیان 16سال کا گیپ آنے سے کئی
دیگر مذہبی جماعتیں سیاسی میدان میں فعال ہو چکی ہیں جو اپنی ذات میں ایک
انجمن کی حیثیت رکھتی ہیں ۔حال ہی میں ختم بنوت بل میں ترمیم کیخلاف احتجاج
کرنے والی جماعت جس نے NA-120 میں بھی ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اب کافی نام
کماچکی ہے ، دسری جانب ملی مسلم لیگ بھی میدان میں وارد ہوچکی ہے جس کے
سربراہ حافظ محمد سعید ہیں ، وہ رہائی کے بعد سیاسی منظر نامہ کا حصہ بننے
کو تیا ر ہیں اور سرگودھا سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-67سے الیکش لڑنے کیلئے
مشاورت کررہے ہیں ، حافظ سعید کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے اور وہ کشمیر کے
معاملے پر عالمی شہرت رکھتے ہیں جو ان کی پارٹی کی مقبولیت کی وجہ بن سکتی
ہے ۔ مجلس عمل میں ملک بھر کی دینی جماعتیں شامل ہیں لیکن کا ان ووٹ بینک
صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں اس کا سیاسی
اثرورسوخ کافی کم ہے ۔پنجاب ایک بڑا صبہ ہے اور یہیں سے مرکزی سطح پر حکومت
تشکیل دی جاتی ہے اور سندھ میں اب بھی بھٹو ازم لوگو ں میں اپنی مقبولیت
رکھتا ہے ۔ اگر مرکزی سطح پر ایم ایم اے حکومت سازی کو ترجیح دے گی تو اس
کیلئے ضرور ی ہوگا کہ وہ یہاں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائے یا پھر اس
کے اتحاد میں مقامی سطح پر سیاست کرنے والی دینی جماعتوں سے اتحاد کا
سوچے۔نون لیگ کا ووٹ اب تنزلی کی جانب ہے ، پی پی پی اپنی بقا کی جنگ اور
پی ٹی آئی اس محاذ پر کامیابی سمیٹنے کیلئے سیاسی جوڑ توڑ کررہی ہے ، یہ
سیاسی صورتحال 2013سے اور شاید ملکی تاریخ میں سب سے مختلف ہوگی جب چاروں
طرف لوگ بٹ جائیں گے ۔ ملک میں مذہبی جماعتوں نے سیاسی دانشوروں اور سیاست
دانوں کو نئی صورتحال میں ڈال دیا ہے ، عوام میں پہلے کی نسبت مذہب سے لگاؤ
بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے اور خیلا کیا جارہا ہے کہ اس بار معرکہ حق و باطل
ہوگا ، لوگ مذہبی جماعتوں کو ایک بار پھر آزمائیں گے ۔ یہ ان سیاسی
کھلاڑیوں کے لئے آزمائش ہے جو عرصہ دراز سے عوام پر حقوق کی فراہمی کی
بنیاد پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں ۔2013کے الیکش سے قبل نواز شریف کا کہنا
تھا کہ وہ ایسی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں ایک ہی جماعت کو اکثریت
حاصل ہو تاکہ فیصلہ سازی میں دشورای کا سامنا نہ کرنا پڑے ، ان کی یہ خواہش
بھی پوری ہوئی البتہ وہ اس خواہش کی تاب نہ لاسکے ، اس بار یہ خواہش کسی کی
بھی پوری ہونے والی نہیں ، بلکہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی مثال غالباً
صادق آئے گی ۔ |