قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا فرمانا ہے کہ انہیں
خدشہ ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری نہیں ہونے دی جائے گی اور یہ کہ وہ گریٹر
پلان بنتا دیکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ مشرف دور میں بھی اتنے مایوس
نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ان کی چھٹی حس ان سے کہہ رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
انہیں چیزیں نارمل دکھا ئی نہیں دے رہے ، ان کا خیال ہے کہ کچھ ہونے والا
ہے۔کہتے ہیں کہ انہیں بے بسی دکھائی دے رہی ہے۔ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے
اسپیکر ایاز صادق نے اقرار کیا کہ فیض آباد دھرنے میں بھی واضح طور پر
حکومتی بے بسی نظر آئی کیونکہ حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے خوفزدہ تھی
اس لیے وہ دھرنے والوں کے خلاف سخت موقف اپنانے سے گریزاں رہی ۔یہاں ایاز
صادق کو دھرنے والوں کے ساتھ وہ قوت نظر نہیں آئی جس نے اس دھرنے کو خوش
اسلوبی سے ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ حکومت تو نا کام ہی نظر
آرہی تھی۔حکومت کی جانب سے اگر طاقت کا استعمال کیا جاتاتو ملک میں ایک اور
بلکہ اس سے بھی بڑا سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوجانا تھا۔اسپیکر صاحب کہتے ہیں کہ
خدا کرے اسمبلی اپنی مدت پوری کرے، وہ اسمبلی کی مدت پوری ہوتے نہیں دیکھ
رہے ۔ یہ ہیں ہمارے قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحب جنہیں اپنی جماعت کی حکومت
ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کاش اسپیکر ایاز صادق کی طرح نواز شریف اور ان کے
درباری بھی ہوش کے ناخن لیں اور انہیں بھی سچ اور حق نظر آنا شروع ہوجائے۔
نا اہل سابق وزیرا عظم نے اپنی جماعت کے ساتھی ایاز صادق کی باتوں کو
سنجیدگی سے صرف اس حد تک لیا ہے کہ انہوں نے لندن سے جلد واپس وطن آنے کا
پروگرام تشکیل دے لیا ہے۔ انہیں عدالت میں تو انیس کو پیش ہونا ہے لیکن قبل
از وقت آنے کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک اسپیکر ایاز صادق کے وہ
اندرونی و بیرونی خطرات بھی ہیں جن کا اظہار انہوں نے دو روز قبل کیا تھا۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر اسپیکر صاحب ا ن خطرات کی جانب بھی اشارہ کردیتے جو
انہیں اسلام آباد میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا کیاجائے ہمارے سیاست داں
اشارو کناروں میں بات کرنے کے عادی ہے۔ کھل کر ، صاف انداز سے بات اس لیے
نہیں کرتے کہ انہیں ڈر و خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کسی شخص کا یاادارے کا
نام لے لیا تو اس کی گرفت میں آجائیں گے اس لیے سارے ہی لیڈر گول مول بات
کرکے قوم کو مشکل اور مخمسے میں ڈال دیتے ہیں۔
ایاز صادق کے خدشات میں وزن ہے، وہ جو خطرہ محسوس کر رہے ہیں وہ خطرہ صرف
انہیں ہی نظر نہیں آرہا بلکہ بہت سو کو نظر آرہا ہے ، دیگر سیاسی جماعتوں
کو تو چھوڑ دیں خود نون لیگ کا سنجیدہ طبقہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ خطرے کے
بادل دکھائی دے رہے ہیں ۔ نون لیگ کے چودھری نثار تسلسل سے کھلے الفاظ میں
کہہ رہے ہیں کہ اداروں سے ٹکراؤ مناسب نہیں، عدالت کے فیصلوں پر گھناؤنے
انداز سے تنقید درست نہیں، فوج سے لڑائی مناسب نہیں۔ لیکن افسو س اور دکھ
کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے سربراہ نا اہل نواز شریف ، ان کے خاندان
اور ان کے چند درباریوں کو اس خطرہ کی بو تک محسوس نہیں ہورہی۔ وہ سب اسی
ڈگر پر رواں دواں ہیں۔ وہ مسلسل عدلیہ اور ججوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے
ہیں۔ فوج کو برائے راست نہیں لیکن اشاروں کناروں میں وہ سب کچھ کہہ ڈالتے
ہیں جو نہیں کہنا چاہیے۔ ایاز صادق نے یہاں تک کہہ دیا کہ انہوں نے یہ بات
کھلے الفاظ میں کہہ دی اس سے ان کے اندر کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ میاں صاحب کو
ایاز صادق کے خدشات کو سنجیدگی سے لینا چاہیں ، اپنی زبان کو بھی کنٹرول
میں رکھیں اور میدان میں چھوڑے ہوئے اپنے چند ہلکاروں کو بھی سختی سے منع
کریں کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نا بنیں۔ میاں صاحب کو احساس نہیں
کہ یہ جو اس وقت آپ کے حق میں زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں کسی اور کے دربار
میں عیش و عشرت کے دن گزارتے رہے ہیں۔ ڈکٹیٹر سامنے سرنگو رہے ہیں۔ اس کی
تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ یہ وہی سیاسی گرگے ہیں جو پرویز مشرف کی کابینہ
میں وزارت کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ یہ جب اپنے سابق لیڈر کے نہیں ہوئے تو
انہیں منٹ نہیں لگے گا آپ سے جدا ہونے میں اور پھر یہی گھر کے بھیدی ثابت
ہوں گے۔ پہلے بھی آپ ہی کی پارٹی کو چھوڑ کر ڈکٹیٹر کی گود میں جابیٹھے تھے
اب جب کہ آپ کی کشتی جو ابھی تو بھنور میں ہے جوں ہی انہوں نے اس کشتی کو
ڈوبتے دیکھا یہ آپ کی کشتی سے فوراً چھلانگ لگا کر کسی اور کشتی کے مسافر
بن جائیں گے۔
اسپیکر ایاز صادق نے یہ اقرار کر کے کہ فیض آباد کے دھرنے میں حکومت خوفزدہ
تھی ، بے بس نظر آرہی تھی سچ گوئی سے کام لیا ہے۔ سب نے دیکھا کہ فیض آباد
کے دھرنے میں نون لیگ کے تما درباری بلوں میں گھس گئے تھے، منہ بند ، تالے
پڑگئے تھے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال بھی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں
دکھائی نہیں دیررہے تھے۔ تاہم وہ حکومت کو ڈیفنڈ کرتے دکھائی دئے۔ جب دھرنا
ختم ہوگیا اس کے بعد سارے درباری بلوں سے نکل آئے اور انہوں نے وہی بے پر
کی ، فضولیات بیان کرنا شروع کردیں۔فیض آباد کے دھرنے کے علاوہ بھی کئی
مواقع ایسے آئے چکے ہیں جن سے محسوس ہوا کہ ملک میں اب کچھ ہونے والا ہے ۔
شکر ہے جس جانب سے کچھ ہوسکتا ہے انہوں نے بہت ہی تحمل سے، برداشت سے نون
لیگ کی خرافات کو برداشت کیا اور کر رہے ہیں۔ کئی تجزیہ نگار وں نے بھی اسی
قسم کے خدشات کا ذکر کیا ہے۔ انہیں خدشات دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت کی
کارکردگی جس قسم کی ہے، وزیر اعظم خاقان عباسی بقول ایک تجزیہ نگار انہوں
نے الوداعی تقریریں شروع کردی ہیں۔ وہ عدالتی فیصلوں پر خاموش نظر آرہے ہیں
،بالکل اسی طرح جیسے چودھری نثار خاموش رہتے ہیں ۔البتہ وہ اپنے خیالات،
اداروں سے ٹکرنہ لینے کی بات مسلسل کررہے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایک سے زیادہ
بار ٹیکنوکریٹ حکومت کی جانب اشارہ کیا گو پاکستان کے آئین میں اس کی کوئی
گنجائش نہیں، لیکن ماضی میں گنجائشین نکلتی رہی ہیں۔ خدا نہ کرے یہ نوبت
آئے۔ ایک گمان یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے
اسمبلیوں کی تحلیل کے بارے میں سوچ بچار شروع کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی
جارہی ہے کہ حکومت کے بے شمار معاملات ان کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ بعض
وزرا ء انہیں خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ملک کی معیشت وقت کے ساتھ ساتھ نیچے کی
جانب ہے ، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ جس ملک کا وزیر خزانہ اشتہاری
قرار دیا جاچکا ہو اور اسے انٹر پول کے ذریعہ ملک میں لانے کی باتین ہورہی
ہوں ، اور وہ بدستو ر ملک کا وزیر خزانہ ہو اس ملک کی معیشت کا یہی حال
ہوجائے گا جو اس وقت پاکستان کی معیشت کا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر
اسپیکر ایاز صادق کے خدشات کا ادراک ضروری ہے۔ خود ان کی پارٹی اور پارٹی
کے نا اہل سربراہ کو اس جانب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ملک رہے گا تو سیاست
ہوگی، اقتدار ہوگا، حکومت ہوگی، جب ملک کو خدا نہ کرے کچھ ہوگیا تو سب کچھ
برباد ہوجائے گا۔ آج16دسمبر ہے ، سقوط ڈھاکہ اسی دن ہوا تھا، اسی دن ہمارا
ملک دو لخت ہوا تھا، افسوس ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا ، سیاست دانوں کو
صرف اقتدر کی فکر لائق رہتی ہے اس کے حصول میں وہ ملک کی فکر کو بھول جاتے
ہیں۔ مانا کہ سیاست نام ہی حصول اقتدار کا ہے لیکن ملک کی فکر اول ترجیح
ہونی چاہیے۔ سب سے پہلے پاکستان۔ (16دسمبر2017) |