آج میں حسب روایت اپنے آفس کے کاموں میں مشغول تھا کہ
مجھے ایک ٹیکسٹ پیغام ملا جیسے ہی میں نے اپنا سیل چیک کیا تو میری ہنسی
نکل گئی اس کی وجہ یہ نہیں کہ تھی کہ وہ کوئی ہنسی مزاح والا پیغام بلکہ اس
کی وہ ایک سنجیدہ قسم کا پیغام تھا جس میں لکھا تھا کہ : SAY NO TO
CRUPTIONیہ پیغام مجھے اس ادارے کی طرف سے ملا تھا جس کا کام پورے پاکستان
سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے اب ہنسی نکلنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پچھلے دنوں
کسی میٹنگ میں اسی کرپشن کا ذکر ہوا تو ایک صاحب کی طرف سے معانی خیز الفاظ
میں کہا گیا کہ جناب نیب نے پورے پاکستان میں لوگوں کو SAY NO TO CRUPTION
کا پیغام ان کے موبائیلوں بھیج بھیج کر کرپشن کا مکمل خاتمہ کر دیاہے جناب
اگر ایسے خالی خولی پیغام دے دے کر کرپشن ختم ہو سکتی تو کب کی ہو چکی ہوتی
پاکستان کے عوام آج خوشحال ہوتے لیکن ہم ایسی قوم ہیں جو اور کسی کام میں
ترقی کریں نہ کریں اس کرپشن میں ہم گردن تک دھنسے ہوئے ہیں قومی احتساب
بیورو پر اس کی ساری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس نے ماضی میں بہت سے مواقع پر
سیاسی نظریہ ضرورت کو پروان چڑھایا لیکن اب نئے چئیرمین کے آنے کے بعد لوگ
پر امید ہیں بہتری کے اور ہونی بھی چاہیے نئے آنے والے چئیرمین کی
ایمانداری کی کئی مثالیں ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں آنے والا الیکشن صرف ایک
ایشو پر لڑا جائے گا اور وہ ایشو ہو گا کرپشن ،کرپشن ہے کیا ؟ یہ سوال اہم
ہے کرپشن ایک ایسی دھیمک ہے جو معاشروں کو کھا جاتی ہے بدنصیبی ہے بیچارے
غریب ممالک کی، کے جن کے عوام دہرے عذاب سے گزرتے ہیں ایک تو انکے حکمران
ان کا خون نچوڑتے ہیں اور دوسرے ان کے پیسے کو ایسے لوٹتے ہیں کہ جیسے ان
کا یہ حق ہوپھر انھیں پیسوں کو استعمال کر کے ملکی اداروں کو خریدتے ہیں
اور بعد ازاں انھیں کی مدد سے پھر سے اقتدار میں آکر اپنے کالے کرتوتوں کو
سفید بنا کر پھر سے زندہ باد ہو جاتے ہیں مگر حقیقت میں وہ لوگ زندہ باد
نہیں بلکہ مردہ باد ہی رہتے ہیں پانامہ لیکس کے انکشافات کے وجہ سے دنیا
بھر میں کئی کرپٹ حکمرانوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ایسے میں پاکستان کی عوام
بھی انھیں دکھی قوموں میں شامل ہے جس کے وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر بھی
الزامات ہیں مگر ہمارے وزیرا عظم زراو کھری ٹائپ کہ ہیں کہ وہ کسی بات پر
وضاحت دینے کے بجائے وضاحت طلب کرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالاپانامہ لیکس کی
افشا ہونے والی ہزاروں دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دولت چھپانے کے لیے کس
طرح سے ’ٹیکس ہیون‘ کا استعمال کیا جاتا ہے مالی رازداری کرنے والے سرفہرست
دس ممالک میں سوئٹزرلینڈ، ہانگ کانگ، امریکہ، سنگا پور، لگزمبرگ، لبنان،
جرمنی، بحرین، متحدہ عرب امارات شامل ہیں دیکھا جائے تو دنیا کے امیر ترین
ممالک وہ سانپ ہیں جو غریب ملکوں کی دولت کو چوس رہے ہیں اور ان غریب ملکوں
کے امیر حکمران دولت لوٹ لوٹ کر وہاں انبار لگا رہیں اور ان انباروں سے ان
امیر ملکوں کی معیشتیں مضبوط سے مضبوط تر اوران غریب ملکوں کے بچے تک مقروض
ہو چکے ہیں پاکستان میں ہر پیدا ہوانے والا بچہ مقروض ہے اس کے ذمے جو قرض
ہے وہ ہر سال اسی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے اس کی وجہ بھی کرپشن ہے
جو بڑھتی ہی جا رہی ہے آج حکومتی جماعت کے لیڈران کو پاکستانی عوام کے
سوالوں کا جواب دینا ہو گا کہ کہ ان کے پاس دولت کے انبار کہاں سے آئے اور
وہ جو حلال دولت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ریکارڈپیش کرنے سے کیوں قاصر ہیں
اب تمام جماعتیں اس ایشو پر حکومت کے خلاف ہیں عوام کرپشن کا خاتمہ کرنا
چاہتی ہے کرپشن اور حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ جو حکمران ملکی
دولت لوٹتا ہے پھر اگر اس پر ہاتھ پڑ جائے تو جمہوریت کے کھاتے میں ڈال کر
خود کو جمہوریت کی آڑ میں معصوم بنا کر پیش کرتا ہے پانامہ لیکس پر سیاسی
جماعتوں کے موقف سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ
جمہوریت برقرار رہنی چاہیے اور کرپشن ختم ہونی چاہیے اس سے کسی کو انکار
نہیں ہے پوری قوم کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن یہ نہیں چاہتی کہ کرپشن کے
خاتمے کی آڑکسی بھی بیگناہ کے خلاف کاروائی کی جائے حکومت نے جس ادارے کو
کرپشن ختم کرنے پر لگایا ہو اہے اسے اتنا بااختیار بنایا جائے کہ وہ خود سے
فیصلے لے سکے اس کے لئے اگر کسی بڑے سے بڑے آدمی پر ہاتھ بھی ڈالا جائے تو
کوئی شور شرابہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسی پالیسی کی وجہ سے ماضی میں بھی
کئی بار کرپشن کے خاتمے کے لئے چلائی جانے والی مہم متاثر ہوتی رہی ہے اور
اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ جب بھی کسی باثر شخص پر ہاتھ ڈالا
جاتا ہے مجبورا وہ مہم روک دینی پرتی ہے یا پھر ملتوی کر دی جاتی ہے وہ
مجبوری کیا ہوتی ہے یہ بات عوام سے ہضم نہیں ہو تی ۔مگر ہم لوگ شاید اس بات
کے عادی ہوچکے ہیں کہ جب سانپ نکل جاتا ہے تو لکیر پیٹنے کو ترجیح دیتے ہیں
اور اسی وجہ سے باقی دنیا اگے کی طرف اور ہم پیچھے جا رہے ہیں ۔آج کے حالات
اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اگر ہم نے دنیا سے
بھیک نہیں مانگنی بلکہ اپنے وسائل میں رہ کر کامیاب ہونا ہے تو سب سے پہلے
کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وہ کرپشن جس نے ہماری ترقی
کو روک رکھا ہے جس نے ہماری آنے والی نسلوں کو مقروض بنایاہوا ہے اس کوختم
کیا جا سکے ہر پاکستانی کو پتا ہو کہ وہ جو ٹیکس دے رہا ہے وہ ملکی ترقی پر
خرچ ہو رہا ہے نہ کہ کسی کی جیب میں جا رہاہے کیونکہ کرپشن ملکی ترقی کی سب
سے بڑی دشمن ہے اور اس کے خاتمے سے ہی ملکی ترقی ممکن ہو سکتی ہے اس حوالے
سے نئے آنے والے چئیرمین نیب کی طرف عوام کی نظریں ہیں اور آتے ہی انھوں نے
میگا کرپشن سکنڈلز پر پیش رفت کی نویدسنائی ہے اس سے عوام کافی مطمئن ہیں
مگر عوام اور پاکستان کی جیت تب ہی ممکن ہو گی جب اس ناسور کا پاک سرزمین
سے خاتمہ ہو گا۔ |