گزشتہ ماہ چین کے وو یونگنگ اپنا وہ شوق پورا کرنے نکلے
جو انہیں بے حد پسند تھا یعنی بغیر کسی سہارے یا تحفظ کے بلند عمارت پر
چڑھنا اور اس دوران اپنی فلم بنانا۔اور اگلے ہی لمحے جو ہوا وہ غیر متوقع
تھا جس میں وو یونگنگ 62 منزلہ بلند عمارت سے گر کر موت کے منہ میں چلے گئے۔
|
|
وو یونگنگ کے ہزاروں فالورز پریشان تھے کہ آج کل ان کے کرتب کی ویڈیوز شائع
کیوں نہیں ہو رہی ہیں کیونکہ کسی کو ان کی موت کا علم نہیں تھا تاہم ان کی
گرل فرینڈ اور حکام نے آخر کار ان کی موت کی تصدیق کی۔
ان کے آخری لمحات کی چونکا دینے والی ویڈیو اس ہفتے آن لائن دیکھی جا رہی
تھی۔ان کی موت کے بعد اس بات پر غور کیا جانے لگا کہ انٹرنیٹ انڈسٹری میں
پیسوں کے لیے ویڈیوز کی دوڑ کس حد تک صحیح ہے اور یہ سوال بھی کیا جا رہا
ہے کہ کیا اس طرح کی ویب سائٹس اور انہیں دیکھنے والے لوگ بھی اس طرح کی
اموات کے لیے ذمہ دار ہیں۔
حال ہی میں بیجنگ میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وو یونگنگ نے 'ہوشیان' نام
کی ویب سائٹ پر پانچ سو سے زیادہ مختصر ویڈیوز اور لائیو سٹریمز شائع کی
ہیں جن سے دس لاکھ فالورز اور 83 ہزار ڈالرز کمائے۔
یہ ویب سائٹ جون تک ان کے ویڈیوز شائع کرتی رہی تھی۔
|
|
تاہم 'ہوشیان' نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ اس نے وو یونگنگ کے
کرتب کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ادارہ کھیلوں اور اس سے متعلق صلاحیتوں کی حمایت
کرتا ہے لیکن ساتھ ہی محتاط بھی ہے۔ ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ادارہ کسی کے
ساتھ کسی طرح کے معاہدے پر دستخط نہیں کرتا۔
اب اگر کسی نے وو یونگنگ کو یہ کرتب کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا تو کیا
ناظرین پر بھی ان کی موت کے ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ بحث اب زور پکڑ رہی ہے کیونکہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگ عمارتوں
پر چڑھ کر اپنی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں۔
لیکن خاص طور پر چین اس بارے میں زیادہ بات کی جا رہی ہے کیونکہ لائیو
سٹریمز اور وائرل ویڈیوز بنانے والے براہِ راست اپنے مداحوں سے ورچوئل تحفے
قبول کر سکتے ہیں جنہیں کیش میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور کچھ پلیٹ فارم اس
سب کی اجازت دیتے ہیں۔
چین تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک ارب ڈالر کی انٹرنیٹ ویڈیو انڈسٹری کو کنٹرول
کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے اور چین کے نصف سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین یہ
ویڈیوز دیکھ رہے ہیں۔
|