مجھے بچوں نے پوچھا کہ میں کہا ں پیدا ہوا تو مجھے اپنے
ایک استاد یاد آ گئے۔وہ ایبٹ آباد کے نزدیک ہزارہ کے ایک گاؤں کے رہنے والے
تھے۔ میٹر ک کاامتحان پاس کیا تو مزید پڑھائی کے لئے لاہور آ گئے۔ ان دنوں
لاہور بڑا مختصر تھا۔اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا اور رہائش کے لئے کافی
تلاش کے بعد ایک بوسیدہ سا کمرہ تھوڑے سے کرایہ پر حاصل کیا۔ طالب علم کے
وسائل کے حساب سے یہ کمرہ ٹھیک تھا۔استاد محترم نے سات سال وہاں گزارے ۔چھ
سال ایم اے کرنے کے دوران اور ایک سال نوکری کے دوران ۔ اس دوران سکالر شپ
پر وہ انگلینڈ مزید پڑھائی کے لئے چلے گئے۔ انگلینڈ میں ان کی کلاس میں بیس
پچیس طالب علم تھے ۔تدریس بڑے خوشگوار ماحول میں ہوتی۔ گپ شپ بھی جاری رہتی۔
ایک دن کلاس ہو رہی تھی ، استاد محترم اپنے استاد سے کسی بات پر تبادلہ
خیالات کر رہے کہ اچانک ان کے استادنے پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں ۔ جواب دیا،
پاکستان سے۔ اگلا سوال تھا کس علاقے سے۔ استاد محترم نے سوچا کہ ایبٹ آباد
اور ہری پور کے گاؤں کا بتاؤں گا تو انہیں کیا پتہ چلے گا۔سات سال لاہور کے
مکین رہے ہیں، واپس بھی لاہور ہی جانا ہے اسی کے بارے بتا دوں۔ چنانچہ
لاہور کہہ دیا۔ استاد نے ایک اور سوال داغ دیا۔ کس ایریا میں۔ جواب دیا،
میں رنگ محل میں رہتا ہوں۔ استاد نے عجیب سا منہ بنایا اور بڑے ہی عجیب
لہجے میں رنگ محل کہا، جیسے جاننے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ کونسی جگہ
ہے۔کلاس میں ایک اور پاکستانی بھی موجود تھا،فوراً بولا ، سر یہ کلرڈ پیلس
میں رہتا ہے۔ استاد نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا، کلرڈ پیلس میں رہتا ہے؟ اوہو،
تو یقیناً یہ کوئی پرنس ہو گا۔استاد محترم نے جواب دینے اور جعلی حسب نسب
بتانے کی بجائے ایک مسکراہٹ پر قناعت کی اور اس وقت معاملہ ختم ہو گیا۔مگر
اس کے بعد پوری یونیوسٹی میں استاد محترم کے بارے مشہور ہو گیا کہ وہ رنگ
محل کے شہزادے ہیں اور انہیں دوستوں اور ساتھیوں کی طرف سے باقاعدہ شہزادے
کا پروٹوکول ملتا رہا۔ دو سال بعد جب وہ واپس آ رہے تھے تو بہت سے ساتھیوں
نے ان کے قدیم محل کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی
کہ وہ جلد ان سے رابطہ کریں گے۔استاد محترم نے پاکستان آنے کے بعد کبھی
پیچھے مڑ کر نہیں دیکھامبادہ کوئی ان کا قدیم محل ،جو اصل میں ایک کال
کوٹھری ہے، دیکھنے نہ آ جائے۔
میں نے بچوں کو استاد محترم کی ساری رام کہانی سنائی اور بتایا کہ میں اسی
رنگ محل کا اصلی شہزادہ ہوں کیونکہ میری پیدائش اسی جگہ کی ہے۔شاہ عالمی سے
سیدھا چلتے آئیں تو جہاں وہ سڑک ختم ہوتی ہے وہاں دائیں طرف کشمیری بازار
شروع ہوتا ہے۔یہ رنگ محل کا علاقہ ہے۔ شاہ عالمی سے کشمیری بازار مڑنے کی
بجائے سیدھا دیکھیں تو سامنے ایک چھوٹی گلی ہے ۔ اس گلی میں داخل ہوں تو
کوئی سو گز کے فاصلے پر گلی انگریزی حرف V کی شکل میں دو حصوں میں تقسیم ہو
جاتی ہے۔ کبھی V کے کونے پر ایک لکڑی کا ٹال تھا۔ ٹال کے پیچھے ایک مکان
تھا اور اس مکان کے بعد میرے نانا کی خوبصورت حویلی تھی۔ میری پیدائش اسی
حویلی میں ہوئی۔
ماضی کی اس حویلی کا ذکر مجھے بہت سی پرانی یادوں کی نگر لے گیا۔ میں اداس
اداساس حویلی کی یادوں میں کھو گیا۔ وہ حویلی واقعی انتہائی شاندار اور
خوبصورت تھی۔ ایک چھوٹا سا شاندار محل۔حویلی کی دونوں اطراف میں بڑے بڑے
دروازے تھے ۔ محسوس ہوتا تھا کہ کبھی ہاتھیوں کے گزارنے کے لئے یہ بنائے
گئے تھے۔ اندر بڑا دالان تھاجس کے مرکزمیں ایک فوارا نصب تھا۔ ارد گرد بہت
سی گیلریاں تھیں جن کی لمبی لمبی کھڑکیوں میں رنگ بھرنگے شیشے حویلی کی
خوبصورتی کا عکاس تھے۔ بڑے بڑے کمرے تھے۔تین چار گھومتی ہوئی سیڑھیاں ۔ ان
میں دو ایسی بھی تھیں جو زگ زیگ بناتی ایک دوسرے سے چھو کر گزرتی ہوئی
مختلف کمروں میں لے جاتیں۔انجان آدمی ان سیڑھیوں کی بھول بھلیوں میں کھو کر
رہ جاتا۔چاروں طرف بالکونیاں تھیں۔ ایک طرف ایک بالکونی پر دو پروں والا
بڑا سا پنکھا لٹکا ہوا تھا۔گرمیوں کے موسم میں فوارا اور پنکھا دونوں چلتے
تو آج کے ائیر کنڈیشنرجیسی ٹھنڈک کا گماں ہوتا۔حویلی سے ملحقہ مکانوں کے
دروازے لان میں کھلتے تھے۔ میرے نانا کا خاندان کافی بڑا تھا اور سبھی اس
حویلی یا ملحقہ گھروں میں بڑے سلوک سے مل جل کر رہتے تھے ۔شام کو سبھی لان
میں بیٹھے ہوتے۔ کون سگا اور کون چچازاد یا پھوپھی زاد کسی خاص تفریق کے
بغیر سبھی اپنے تھے۔بہت خوبصورت ماحول تھا اور بہت انمول شاندار دن تھے جو
بھلائے نہیں جا سکتے۔
افسوس !شہر کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی مارکیٹوں نے ہر چیز تباہ کر دی۔
حویلیاں بک گئیں، اپنے اپنوں سے بچھڑ گئے وہ سلوک ،وہ پیار جو اپنوں میں
تھا اب اک خواب اور اک خیال بن کر رہ گیا ہے۔آج ہماری اس حویلی کی جگہ ایک
شاندار پلازہ ہے۔ کپڑے کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ میں آج جب وہاں سے گزرتا ہوں
تو دل جلتا ہے۔ پوری دنیااپنے شہروں کے پرانے حصے محفوظ کر رہی ہے ہم
مارکیٹوں کی نذر کر رہے ہیں۔ہمیں اب کچھ خیال آیا بھی ہے تو بس ساری تگ و د
و بس اک بازار تک ہے۔ پرانے شہر میں ہر روز ایک نیا پلازہ جنم لیتا ہے۔ہر
روز پرانا شہراپنا ایک نایاب قدیم تاریخی مکان کسی مارکیٹ کی نذر کرتا ہے۔
یہ سب کام سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر ہوتا ہے اور
کوئی نہیں پوچھتا۔جب تک حکومت شہر میں موجود مارکیٹوں کو شہر سے باہر منتقل
کرنے کا سوچے گی نہیں اس وقت تک بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی۔
حویلیاں بکتی رہیں گی۔ اپنے اپنوں سے بچھڑتے رہیں گیاور میرے جیسے بہت سے
وہاں سے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ اداس اداس شہر کے انجان کونوں میں بس جانے
والے عزیزوں کو ، ان کی پرانی الفتوں اور محبتوں کو یاد کرتے گزرتے رہیں گے۔
|