امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو درپیش چیلنجز کے
تناظر میں قومی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر ان ہی الفاظ میں
پاکستان سے اپنے ہاں مبینہ طور پر موجود دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار
ادا کرنے کا کہا ہے۔
گو کہ امریکی صدر کے اس تازہ بیان پر پاکستان نے باضابطہ طور پر کوئی ردعمل
تو ظاہر نہیں کیا لیکن اس کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ پاکستان
میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کر دیے گئے ہیں اور اب یہاں عسکریت پسندوں
کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری کا خواہاں ہے
لیکن "ہمارا اصرار ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں اور
دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کے خیال میں پاکستان کی یقین دہانیوں اور
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں کی گئی کوششوں کے باوجود امریکی بیانیہ اس بات
کی غمازی ہے کہ پاکستان سے متعلق اس کا تاثر منجمد ہے اور اس میں ماضی کی
نسبت کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "میرے خیال میں یہ
مسئلہ تیار کرنے کی ترکیب ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ، پاکستان کو یہ سب کہتا
ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ افغانستان میں وہ پاکستان کے بغیر خاطر
خواہ پیش رفت نہیں کر سکتا۔۔۔بدقسمتی سے پاکستان کے بارے میں امریکی خیال
کی شفافیت نظر نہیں آتی۔ آپ چار پانچ سال پہلے کے بیانات دیکھ لیں یا یہ
بیان دیکھ لیجیے مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔"
ایک روز قبل ہی پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ نے یہ
دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر
عائد کر رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحدی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک سمیت مختلف
دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے علاوہ مشرقی افغانستان میں داعش کے بڑھتے
ہوئے اثرو رسوخ کی خبریں بھی آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں اور اسلام آباد کا
کہنا ہے کہ اس نے سرحد پر اپنی جانب تو موثر اقدام کیے ہیں لیکن سرحد پار
ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے نمٹنا افغانستان اور وہاں موجود بین الاقوامی
افواج کی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ یہ امریکی سوچ خطے میں دہشت گردی کے چیلنج سے
نمٹنے کے لیے بھی سود مند نہیں اور اس رویے سے پاکستان کا جھکاؤ امریکہ کی
بجائے خطے کی دیگر بڑی طاقتوں کی طرف بڑھنے کے تاثر کو بھی تقویت ملے گی۔
یہاں تک وائس آف امریکہ کے الفاظ ہیں جو ظاہرا امریکہ اور پاکستان کو آپس
میں قریب لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت پر پردہ ڈالنا اور ہاتھی کے
دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور والی پالیسی پر چلنا وائس آف امریکہ کی
پرانی عادت ہے وائس آف امریکہ ہمیشہ امریکی حکومت کو امن و امان کا گہوارہ
اور دنیا کے لئے مشعل راہ ہونے کے عنوان سے تعارف کرواتا ہے حالانکہ معاملہ
اس کے بالکل بر عکس ہوتا ہے امریکہ میں کیا کچھ نہیں ہو رہا جس ملک میں
انسان سے زیادہ ایک کتے کو ترجیح دی جاتی ہو اس ملک کو کس طرح انسانیت کے
لئے نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
اب اصلی موضوع کی بات کرتے ہیں کس کو نہیں پتا کہ پوری دنیا میں دہشت گردوں
کی پشت پناہی امریکہ اور اس کے حواری کرتے آ رہے ہیں اور امریکہ کا سب سے
بڑا حامی سعودی عرب ہے جو ظاہرا اسلام کے پیرو ہیں لیکن حقیقت میں امریکہ
کے حکم پر چلتے ہیں اور آج کے سادہ مسلمان ان کے ظاہر کو دیکھ کر ہمیشہ
دھوکہ کھا جاتے ہیں اور یہ لوگ ان سادہ مسلمانوں کی سادگی سے بھرپور
استفادہ کرتے ہیں اگر آج پوری دنیا کے مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں اور
امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف قیام کریں تو امریکہ اور اسرائیل اور اس
کے حواری ایک منٹ سے پہلے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے لیکن جب تک مسلمانوں کے
درمیان منافقین موجود ہیں یہ کبھی بھی مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیں گے ۔
پاکستان کو آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ دہشت گردوں کو ختم کرنا ہے یا
ان کی حفاظت کرنا ہے جب تک پاکستان امریکہ کی طرف دیکھتا رہے گا اسی طرح بے
گناہ معصوم بوڑھوں ، جوانوں ، بچوں اور عورتوں کی لاشیں اٹھاتا رہے گا پتا
نہیں کب تک پاکستان امریکہ کی طرف دیکھتا رہے گا ۔ |