کھلا میدان تھااوردوکمرے،وہ بھی نیم پختہ۔بارش ہوتی توجگہ
جگہ برتن رکھنے پڑتے۔میں نے اپنی بہت سی راتیں وہاں گزاری ہیں،بہت سے دن
بتائے ہیں۔چاروں طرف کھیت تھے۔تین اینٹیں رکھ کر چولہا بنایا ہوا تھا۔جب
ہوا تیز ہوتی تو ہم وہ اینٹیں کہیں اوررکھ دیتے۔چلتا پھرتا چولہا تھاوہ۔
لیکن وہاں کا مکیں بڑا با کمال تھا۔ بہت سادہ،کوئی فوں فاں نہیں،مسکراتا
ہوا،ہر ایک کیلئے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے ہوئے۔جس کی باتوں سے خوشبو آتی
تھی۔وہ مجسم اپنا پن تھا۔کوئی رعب داب نہیں ۔ سراپا دعا تھا وہ۔مجھے جب بھی
وقت ملتا وہا ں پہنچ جاتا اورپھرزندگی کارس خوب جی بھر کرپیتاتھا۔ ان کے
ہاتھ کاپکاکھانا بھی ملتااوران کے پندونصائح سے روح بھی خوب سیراب ہوتی۔
عجیب شخص تھا وہ،میرے بے ہودہ لایعنی سوالات کواتنے غورسے سنتاکہ مجھے
خودحیرت ہوتی۔پھرہرسوال آسودہ جواب ہوتا۔اس کارہن سہن،بول چال،رنگ ڈھنگ،سب
ہی تو میرے سامنے تھا۔
صرف زاہدِخشک اورعابدِ شب گزارہی نہیں تھاوہ،زندگی کاہررنگ لئے ہواتھا۔ میں
اسے مختلف شعراء کاکلام سناتااوروہ مجھے ترنم کے ساتھ بہت خوبصورت شاعری سے
محظوظ کرتا۔ اپنے گردوپیش کے لوگوں کے تنازعات،ان کی شادی بیاہ کے
بکھیڑے،زمین جائدادکا جھگڑا،جڑی بوٹیوں سے علاج اورپیار سے رب کی طرف
بلانااس کے کام تھے۔کسی بیمار سے کبھی کوئی پیسہ یا کوئی تحفہ تک نہیں لیتا
تھا۔دو تین ملازم رکھے ہوئے تھے جو حکمت کی جڑی بوٹیوں کو ان کی سخت نگرانی
میں آنے والے مریضوں میں تقسیم کرتے تھے۔ایک دن میرے سامنے ایک بزرگ مریض
کودوائی کے ساتھ نرم غذا کھانے کا جونہی مشورہ دیا تو وہ مریض دوائی لینے
کی بجائے بڑے غصے سے اٹھ کھڑاہواکہ میرے پاس زہرکھانے کیلئے پیسے نہیں
اورمجھے تم نرم غذا کھانے کامشورہ دے رہے ہو؟ فوراًمعافی پراتر آیا اوراپنی
قمیض کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کرجو کچھ بھی تھا اس کے حوالے کردیا
اوردروازے تک خود اس مریض کوچھوڑنے گیا۔میں کچھ کہناچاہتا تھاکہ مجھے اپنی
مخصوص مسکراہٹ سے خاموش رہنے کااشارہ کر دیا۔
اسی کچے گھر کے صحن میں ہر شام بچوں کو نہ صرف قرآن کریم پڑھانے کا بندوبست
تھا بلکہ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ہر ماہ کسی نہ کسی تعلیمی مقابلہ کی
بنیاد پر بچوں میں انعامات کی تقسیم بھی جاری رہتی تھی اور انعام میں ان
بچوں کو پہلے سے منتخب کرلیا جاتا تھا کہ جن کے تن کے لباس بوسیدہ یا پھٹے
ہوتے تھے۔ان کی خودداری کا کس خوبصورتی سے خیال رکھا جاتا تھا۔ان کے ساتھ
گھر کے باہر میدان میں خود کھیلتے تھے۔ ہفتے میں دو دن ان تمام بچوں کو مفت
پینے کیلئے دودھ بھی اپنی بھینسوں کا پلاتے تھے ۔اس میدان کے کونے پر
باقاعدہ ایک جگہ مسجد کیلئے مخصوص تھی جہاں انہی بچوں میں سے کوئی اذان
دیتاتھااورپھرانہی بچوں میں کسی کوامامت کیلئے آگے کھڑاکردیاجاتاتھا۔ان
تمام کاموں کیلئے کسی صلہ کی کبھی امید نہیں رکھی اورتمام اخراجات اپنی گرہ
سے خرچ کرکے یک گونہ تسکین محسوس کرتاتھاوہ۔
ہرسو پیارومحبت کی خوشبو بکھیرے ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، طبیب
تھا،معلم تھا ،منصف تھا،چارہ گرتھا،ایک گھناچھتناردرخت....... پھلوں سے
لداہوا،جھکا ہوا۔ایک درخت لگانے کیلئے آپ کیا کرتے ہیں؟پھل دار درخت......
یہی ناں!کہ بیج لیتے ہیں۔اصل تو بیج ہی ہوتا ہے ناں۔زمین کا انتخاب کرتے
ہیں اور پھر ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر بیج کو اس میں دفن کر دیتے ہیں جی ،اس
گڑھے کی مٹی کے سپرد کر دیتے ہیں۔پھر کبھی کبھی اس کو پانی بھی دیتے ہیں
اور صبر کرتے ہیں۔ آپ بیج کے سر پر سوار نہیں ہوتے،اس کے اندر سے کھینچ
کرکونپل نہیں نکالتے۔پھراللہ جی کونپل نکالتاہے اوروہ ننھاسا بیج زمین کا
سینہ چیرتاہواباہر جھانکنے لگتا ہے ۔ پھرسردوگرم کامقابلہ کرتا ہے،ہواؤں
کا،طوفانوں کا،بادوباراں کا،اپنے گردو پیش کے کیڑے مکوڑوں کا......اور ایک
دن تن کرکھڑاہوجاتاہے۔پھراس میں پھل لگ جاتے ہیں اورتناہوا درخت جھکنے لگتا
ہے...... درخت جھکتا اس لئے ہے کہ لوگ اس کا پھل کھا سکیں،اس سے فیض پا
سکیں۔
آپ نے کسی درخت کو دیکھا ہے جو اپنا پھل خود کھا رہا ہو،یہ کہتے ہوئے کہ
جاؤ میں اتنی راتیں کھڑے ہوکر گزار دیں،سردراتوں کی کپکپی میرے اندر سے
گزرتی رہی،اتنے دن جھلسا دینے والی دھوپ میں جلتا رہا ہوں،اب ان پھلوں پر
میرا حق ہے۔نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔لوگ کھاتے ہیں پھل اس کا،اس کی چھاؤں
میں بیٹھتے ہیں۔اس نے کبھی بھی اپنی چھاؤں سے ان لوگوں کو بھی محروم نہیں
کیا جو گاہے بگاہے اس کو کاٹنے کیلئے اپنے کلہاڑوں کو تیز کرتے رہے،اگر اس
کا کوئی بازو کٹ بھی گیا تو وہ کسی کے ہاتھ کی چھڑی بن کر اس کے چلنےمیں اس
کامددگاربن گیا، اس کی میت کواپنے اندرسموکر اسی دھرتی میں دفن ہوگیااوراس
کی کہنہ مکرنیاں کویادنہیں دلایا۔بس وہ ایک پھل داردرخت تھا۔آپ اگر شورزدہ
زمین میں بیج ڈال دیں تو درخت نہیں لگتا۔بیج مر جاتا ہے،کبھی نہیں پنپتا ۔وہ
ٹوٹے پھوٹے کمروں کی عمارت تھی اوراس کاچراغ وہ خودتھا۔روشن چراغ، مینارۂ
نور،چشمہِ فیض جس سے سب سیراب ہوتے۔
ہمارے ہاں ادارے بنانے پربہت زوردیاجاتاہے،ہرکام کیلئے ادارہ بناؤ۔آپ کی
بات سوفیصدصحیح ہے،بنائیں ضرور بنائیں۔ہم مٹی گارے،لوہے سیمنٹ کی عمارت کو
ادارہ کہتے ہیں،ایسا ہی ہے ناں!بس ایک خوبصور ت عمارت،بہترین رنگ و روغن،
پھولوں کے گملے،الماریاں،کمپیوٹر،میز کرسیاں اور سجاوٹ........ بس یہی کرتے
ہیں ہم،اورا سے کہتے ہیں ہم ادارہ۔اس عمارت کی پیشانی پراس کا نام بھی لکھ
دیتے ہیں اورخوش ہوتے رہتے ہیں کہ واہ جی زبردست ،ہم نے ادارہ بنا لیا جس
کے سنگِ بنیاد کی تختی ہمیشہ ہمارے نام کوزندہ رکھے گی۔ ایسی ہی ایک
مزارِقائد اعظم کی عمارت کے سنگِ بنیاد کی تختی جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں
آج تک نصب ہے۔
میں اس سے زیادہ توکچھ نہیں کہناچاہتااورنہ ہی زیادہ جانتا ہوں لیکن اتنا
جانتا ہوں کہ کہ ادارے کی عمارت اہم نہیں ہوتی بلکہ افراد اہم ہوتے ہیں۔درو
دیوار اہم نہیں ہوتے مگرافراداہم ہوتے ہیں۔ادارے افرادسے بنتے ہیں ،ایسے
افراد سے جو جھکے ہوئے ہوں،پھل دار ہوں،بے غرض ہوں، بے لوث ہوں،دیدہ و دل
فرشِ راہ کئے ہوئے ،مینارہ نور ہوں،جو مجسم اپنا پن ہوں،جن پرآنکھیں بند
کرکے اعتبار کیا جاسکے۔زبانی کلامی نہیں،ان کا عمل ان کی شخصیت کا پرتو
ہو۔وہ تبلیغ نہیں بلکہ مجسم دعوت وفکر ہوں ۔ان کی گفتگو نہیں ان کی شخصیت
سحرانگیز ہو۔وہ اندرباہر سے ایک ہوں۔جوکہتے ہوں وہی کرتے بھی ہوں۔ نری
تبلیغ نہیں،باعمل بھی ہوں۔ان پرکوئی انگلی نہ اٹھاسکے،اتنے اجلے ہونے
چاہئیں وہ۔ اس لئے کہ وہ ادارے کی روح ہوتے ہیں۔عمارت اچھی ہواوربے روح
ہوتوپھرکھنڈراور خوبصورت عمارت میں کیافرق رہ جاتاہے۔ہم صرف ادارے بنانے
کیلئے ہلکان ہیں حالانکہ ہمیں ایسے افرادکی ضرورت ہے جن پر آنکھیں بند کرکے
یقین کیا جا سکے۔وہ زبانی کلامی ہمدرد نہ ہوں،عملاًہمدردی کاپیکرہوں۔ جب تک
ایسے افراد نہ ہوں،ادارے بنانے سے کچھ نہیں ہو گا۔(جاری ہے) |