وہ ایک ٹانگ سے معذور لیکن شمشیر زنی کے ماہر تھے۔ نام
عمرو بن جموح تھا،عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو چکی تھی کہ ان کے گھر میں اسلام
کی دعوت پہنچ گئی۔بیٹوں اور اہلیہ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن وہ ابھی
اڑے ہوئے تھے۔پھر بیٹوں کے ہاتھوں اپنے معبود’’منات‘‘ کی بار بار توہین پر
اس کے کوئی حرکت نہ کر پانے پر ایسے دلبرداشتہ ہوئے کہ اسلام قبول کرنے کے
علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ اسلام کی تاریخ کا پہلا بڑا معرکہ پیش آیا تو
باوجود اصرار و کوشش کے ٹانگ کی معذوری کے باعث میدان جہاد میں نہ
جاسکے۔اسلام کو اﷲ نے بدر کی عظیم فتح عطا کی تو ان کا جہاد میں نہ جا پانے
کا درد اور بھی بڑھ گیا۔اگلا بڑا معرکہ احد کا تھا۔تیاری شروع ہوئی تو وہ
ایک بار پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے اور جہاد میں
جانے کی پرزور الفاظ میں اجازت چاہی۔سب نے کہا کہ آپ تو دوڑ نہیں سکتے اور
جنگ تو آپ کے بس کا کام نہیں ۔اس پر انہوں نے لاٹھی کا سہارا لے کر شمشیر
زنی اور جنگی مہارت کا مظاہرہ کر کے دکھایا تو سبھی حیران رہ گئے اوریوں
انہیں میدان احد میں اترنے کی اجازت مل ہی گئی لیکن ان کے بیٹے خلاد رضی اﷲ
عنہ کو ہدایت ہوئی کہ وہ والد کی معذوری کے باعث ان کے ساتھ ساتھ رہیں۔
اجازت ملنے پر وہ انتہائی خوش دکھائی دیے اورکہتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ
شہادت پا کر لنگڑاتا ہوا جنت میں چلا جاؤں۔
میدان احد میں جب صف بندی ہوئی تو عمر و بن جموح صف اول میں موجود تھے جہاں
سے مجاہدین نے آن کی آن شجاعت کے جوہر دکھائے تو دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔
صحابہ کرامؓ نے ان کا پیچھا کیا اور مالِ غنیمت سمیٹنے لگے۔ دوسری طرف پہاڑ
کی جانب متعین تیر اندازوں کا دستہ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔50افراد پر مشتمل
اس دستے کو اسلامی لشکر کے عقب میں متعین کیا گیا تھا۔ دراصل یہ واحد راستہ
تھا جہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہو سکتا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظرامام
المجاہدین محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دستہ متعین کیا تھا اور انھیں
یہ ہدایت کی تھی کہ کسی بھی صورت میں یہ جگہ نہیں چھوڑنی۔لیکن جب قریش کا
لشکر تتر بتر ہو گیا تو اس دستے نے گمان کیا کہ اب جنگ ختم ہو گئی ہے اور
25 کے قریب افراد اپنے سردار کے منع کرنے کے باوجود بھاگتے ہوئے کفار کا
مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہو گئے۔
خالد بن ولید جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، جنگ کا یہ منظر دیکھ کر عقب میں
گئے اور زور دارحملہ کر دیا۔ مسلمانوں کا لشکر بے خبری میں کفار کی زد میں
آگیا اور اس ناگہانی حملہ پر گھبرا گیا۔ حملہ ہوتا دیکھ کر بھاگنے والے
کفار بھی سنبھل گئے اور اسلامی لشکر دو اطراف سے حملوں کی زد میں آ گیا۔
اس عالم میں جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے
ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے ان میں عمروؓ بن جموح اور ان کے بیٹے خلادؓ بھی
تھے۔اس دفاع کی جنگ میں دونوں یکے بعد دیگرے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور یوں
اﷲ تعالیٰ نے انہیں معرکہ بدر سے بھی بڑی سعادتوں سے نواز دیا۔جنگ کے
بعدمسلمانوں کے ستر شہداء میں عمروؓ اور خلادؓ بھی شامل تھے۔ آپ نے ان
دونوں کے لیے جنت کی بشارت دی۔ عمروؓ بن جموح اور عبداﷲؓ بن عمرو کو ایک ہی
قبر میں دفنایا گیا۔ اس موقع پرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ
دونوں زندگی میں بھی ایک دوسرے سے اﷲ کی خاطر محبت کرتے تھے۔ آخرت میں بھی
اکٹھے ہی اٹھیں گے۔‘‘اور یوں عمروؓ بن جموح لنگڑاتے ہوئے جنت میں اکیلے
نہیں بلکہ اپنے جگر پارے خلادؓ اور پیارے دوست کے ساتھ پہنچے۔
اسلام کے بیٹے ا نہی صحابہ ؓ کی زندگیوں سے روشنی لینے اور آگے بڑھنے اور
غلبہ دین کے معرکے لڑنے والے فدائیان تاریخ میں ہمیشہ دیکھنے کو ملتے
رہے۔انبیا و صلحائے کرام علیہم السلام کی سرزمین فلسطین آج بھی ان راہوں پر
چل رہی ہے۔امریکہ نے القدس کو اسرائیل کے لئے اپنا دارالحکومت بنانے اور
تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو دنیا کی مظلوم و مقہور ترین فلسطینی قوم ہمیشہ
کی طرح سارے عالم اسلام سے پیش پیش معرکہ آرائی میں مصروف دکھائی دینے
لگی۔یہاں کتنے فلسطینی کٹ گئے ہزاروں خون میں نہا گئے،مائیں،بہنیں، بیٹیاں
اپنے نونہالوں کو لئے میدان میں اتر گئیں ۔10سال سے دنیا میں سب سے بڑی اور
بدترین کھلی جیل کا منظر پیش کرنے والے غزہ نے اپنی اسرائیل کے ساتھ لگنے
والی مشرقی سرحد پر 16دسمبر کے روز عجیب منظر دیکھا۔یہاں بڑی تعد اد میں
فلسطینی نوجوان اور بچے بوڑھے اپنے الگ وطن کے پرچم اٹھائے دنیا کے اعلیٰ
ترین سامان جنگ سے لیس فوجیوں سے کنکر پتھر اٹھائے برسر پیکار تھے۔انہی میں
ایک نوجوان کا نام ابراھیم ابو ثریا تھا ۔اس کی عمر 29سال تھی لیکن یہ کوئی
عام انسانوں جیسا انسان نہیں تھا۔یہ اپنی دونوں ٹانگوں سے مکمل معذور اور
وہیل چیئر پر سوار تھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی فلسطینی پرچم اور زبان پر سب سے
جوشیلے آزادی کے نعرے تھے۔لگتا تھا ،اس سارے ہجوم کی قیادت وہی کر رہا
ہے۔اس کی یہ حالت اسرائیل کے مقابلے میں ہی ہوئی تھی۔2007میں غزہ میں حماس
کی تاریخی فتح کے بعد اسرائیل نے یہاں کا مکمل اور سختی سے محاصرہ کیا تھا
تو 2008میں اسرائیل نے یہاں بڑے پیمانے پر بم گرانے اور غزہ کو نیست و
نابود کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ابرھیم ابو ثریا تب19سال کا تھا اور غزہ
میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔اسرائیلی ڈرون کی نگاہ ایک جگہ کھڑے
8نوجوانوں پر پڑی تو اس نے اس کی خبر اپنے ہیڈ کوارٹرروانہ کی جس پر اسے ان
نوجوانوں پر میزائل داغنے کا حکم ہوا۔ ڈرون کا میزائل ان نوجوانوں پر سیدھا
آکر لگا اور سب کے نرم و نازک جسم ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ان سب کے جسموں
کے ٹکڑے اور گوشت کی بوٹیاں اکٹھی کر کے دفن کی گئیں۔یہاں ایک زخمی نوجوان
بے ہوش پڑا تھا جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں۔زندگی کی امید کے ساتھ اسے
ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ہفتوں مہینوں کے جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعد اس
کی زندگی کی سانسیں تو رواں ہو گئیں لیکن اس کی دونوں ٹانگیں مکمل طور پر
کٹ چکی تھیں۔اسے ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو اس نے اپنے معاش کے لئے روز
گار کی تلاش شروع کی۔کرتے کراتے بات یہاں تک پہنچی کہ اس نے گاڑیاں دھونے
کا کام شروع کیا۔وہ وہیل چیئر پر بیٹھا بیٹھا اسے خود ہی حرکت دیتا اور پھر
سارا کام کرتا جاتا۔ایسے ہی حالات میں اس نے اپنے گھر کو پالنا شروع کر
رکھا تھا لیکن جب کبھی اور جہاں کہیں اسرائیل کے خلاف اور آزادی کے لئے
نعرہ بلند ہوتا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس طرف جا نکلتا۔امریکی صدر کے تازہ
اعلان نے تو اس کے تن بدن میں آگ لگا رکھی تھی اور اس اعلان کے بعد اہل غزہ
نے جب کبھی اور جہاں کہیں مظاہرہ کیا وہ وہاں موجود تھا۔آج بھی اس کا جوش
پورے جوبن پر تھا اور وہ اب فلسطینی پرچم ہاتھ میں لئے اسی حال میں بجلی کے
کھمبے پر چڑھ رہا تھا۔بغیر ٹانگوں کے اور ایک ہاتھ میں پرچم تھامے ابراھیم
ابو ثریا کے جسم میں جیسے بجلی سی بھر گئی تھی اور وہ کھمبے کی بلندی پر
پرچم آویزاں کر کے تیزی سے نیچے اترا۔دوسری طرف انسانیت کے بدترین دشمن
اسرائیلی یہودی کھڑے سارا منظر دیکھ رہے تھے جنہوں نے اس کے نیچے اترتے ہی
اپنی بندوقوں سے آگ اگلنا شروع کی اور ایک فوجی نے وہیل چیئر پر بیٹھے
ابراھیم کے سر کا نشانہ لے کر سیدھی گولی داغی جو دماغ کے آر پار ہو گئی۔
خون کا فوارہ پھوٹا اور ابراھیم اپنے جد امجد ابراھیم کی راہ پر عظیم
قربانی پیش کر کے ابو ثریا ہونے کاصد فی صدحق ادا کر کے آسمانوں کی بلندیوں
کو چھو چکا تھا۔ ابراھیم کا بغیر ٹانگوں کے جسد خاکی غزہ میں لایا اور
جنازہ کے لئے اٹھایا گیا تھا تو اس کے ساتھیوں نے بتایا ، وہ اس وقت یہ
کہتا جا رہا تھا کہ معذوری اسکے جذبات کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ یہ
زمین ہماری ہے اور ہم کسی صورت بھی ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس
نے امریکی فیصلے کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوری طور پر القدس
کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کا ارادہ تر ک کر دیا جائے۔
عمروؓ بن جموح کا ایک اور روحانی فرزند دشمنوں سے اسی حال میں لڑتا بھڑتا
اپنی منزل مراد کو پہنچ گیا اور بتاتا گیا کہ اگر دنیا کے 57مسلم ممالک،ان
کی پونے دو ارب کے قریب آبادی اور دنیا کے ہر طرح کے وسائل کی فراوانی سے
امت کو عزت نہیں دلا سکتی تو ابراھیم عزت کی زندگی گزار کر اپنے اسی حال
میں عزت کی موت کو تو گلے لگا سکتا ہے۔ یہ ابراھیم ابو ثریا جیسے جوان ہی
ہیں جن سے اسرائیل ساری دنیا کی مدد و حمایت کے باوجود القدس پر قبضہ
جمانے، ہیکل سلیمانی کے خواب کی تکمیل کو عملی جامہ پہنانے کا صرف خواب ہی
دیکھ پا رہا ہے اور فلسطین ہر وقت ہر حال میں سرخرو اور فتح مند ہے
|