گارے سے عمارت،یا سیمنٹ سریے کا خوبصورت رنگ وروغن کا
شاہکار تو بن سکتا ہے ، ادارہ نہیں۔کسی بھی ادارے کو افراد بناتے ہیں اور
انہیں تباہ بھی وہی کرتے ہیں۔میں نے بہت بڑے بڑے درخت دیکھے ہیں،اوپر سے
بالکل صحیح و سالم اور اندر سے دیمک زدہ۔ایسے درخت کسی بھی وقت زمیں بوس ہو
جاتے ہیں۔ہمیں اس پر کھلے دل و ذہن سے سوچنا چاہئے،صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ
عمل پیرا بھی ہو نا چاہئے۔ اداروں کی قطار نہیں،بے لوث افراد بنانے پر توجہ
دیجئے ۔
مجھ سے رہا نہ گیا اور اس معاملہ کی تہہ کو تلاش کرنے کی ٹھانی۔''آپ ان
کاموں پر تمام اخراجات اپنی جیب سے اداکرتے ہیں یا کوئی آپ کی اس میں مدد
کرتا ہے؟'' میرے اس سوال پر وہی ہلکی سے مسکراہٹ مگر آسمان کی طرف انگلی
اٹھا کر اشارہ کیا اور کہامیں بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ ماں باپ
ورثے میں زمین چھوڑگئے 'شہری جائداد بھی کافی ہے لیکن وہاں رہنے کوجی نہیں
چاہتا،کرایہ پراٹھا رکھی ہیں۔ انہی غریب بچوں کے والدین زمین کاشت کرتے
ہیں،کبھی ان سے شکائت نہیں ہوئی۔آج تک اس زمین میں کسی فصل کو کوئی نقصان
نہیں پہنچابلکہ زرعی یونیورسٹی کافی رقبہ تجرباتی تحقیق کیلئے استعمال
کررہی ہے۔جانتے ہو ان باغات کے پھل فروٹ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار
وں اوربیرونِ ممالک کے سربراہوں کوروانہ کئے جاتے ہیں ۔ ایک عام شہری توان
باغات کے قریب بھی نہیں جاسکتے لیکن یہ تمام بچے انہی باغات کے ہرموسم کے
پھل کھاتے ہیں۔ میں نے شروع دن سے ان باغات میں کچھ درخت ان بچوں کیلئے
مخصوص کر دیئے تھے ۔
تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی ۔تمہارے پڑوس میں ایک بہت بڑاادارہ ہے
لیکن تم نے کبھی اس ادارہ سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔''میں آپ کی بات سمجھا
نہیں؟''میں کل تمہارے پاس آرہا ہوں اس ادارہ سے دونوں مل کرفیض یاب ہو
نگے۔حسبِ وعدہ اگلے دن وہی مسکراتاہواچہرہ موجودتھا۔اپنے ساتھ آنے کو کہا۔
تھوڑی دیر بعد سڑک کے کنارے ایک ریڑھی کے پاس بیٹھ گئے ۔میں برسہا برس سے
اس ریڑھی سے واقف تھا کیونکہ اس کے اوپر ایک نامکمل انسانی لاشہ لیٹا
رہتاتھااوراس ریڑھی کی خاص نشانی یہ تھی کہ ہروقت اس ریڑھی پرسبزہلالی پرچم
لہراتارہتاتھااوران کے پہلومیں ایک چھوٹاریڈیوجوہروقت بجتا رہتا تھا۔مجھے
اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کچھ افراد محض ثواب کی خاطر اس لاشہ کی دیکھ
بھال کرتے تھے۔اس لاشہ کے دونوں ہاتھ اور ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔سلامت ٹانگ
بھی اس قدرکمزورہوگئی تھی کہ کھڑے ہونے میں کوئی مددنہیں ملتی تھی ۔ کوئی
ان کوکھاناکھلادیتااورکوئی ان کی ضروریاتِ زندگی کاخیال رکھتاتھا۔وہی ریڑھی
ان کے شب وروزکاٹھکانہ تھا۔گرم سردموسم بھی اسی ریڑھی پرگزرتے تھے ۔گرمیوں
میں ایک چادراوپرتنی دیکھی جاتی تھی اورسردموسم میں ایک موٹا ساکپڑاان
کوڈھانپے رکھتاتھا۔
وہ ان کے پاس زمین پربیٹھ گیااورتعظیماًان کے سرپربوسہ دیکرحال احوال
پوچھنے لگا۔میراتعارف کروایا۔مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے مجھے
میرے نام سے پکارا۔ مجھے یہ توپتہ ہے کہ میں ان کے پاس سے کئی مرتبہ
گزراضرورہوں اوران کو ہمیشہ سلام بھی کرتاتھاکیونکہ ان کی ریڑھی میرے راستے
میں تھی۔ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہرسال چودہ اگست سے کچھ دن پہلے
ہی ان کی ریڑھی کے چاروں کونوں پرنئے پاکستانی پرچم نصب ہوجاتے تھے اس لئے
ان کی ریڑھی سب سے نمایاں نظرآتی تھی۔اس سے مزیدمجھے کچھ معلوم نہیں
تھا۔بڑی نستعلیق اردوزبان میں ان کی گفتگو، علامہ اقبال کے اشعاراورقائد
اعظم محمدعلی جناح کی انگریزی زبان کی تقاریرانہی کے رعب داب کے لہجے میں
جب سننے کوملی توچند لمحوں کیلئے پاؤں تلے زمین کھسکتی نظرآئی۔پتہ چلاکہ
موصوف علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔انگریزی ادب میں ماسٹر کی
ڈگری رکھتے ہیں ۔ تقسیم پاکستان میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو اپنی
آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنے جسم کے یہ تمام اعضاء بھی
اسی ملک کیلئے نچھاور کرکے پاکستان پہنچے ہیں۔اس بات پربڑانازاورفخرکررہے
تھے کہ ان شہید ہاتھوں کوکئی مرتبہ قائداعظم سے ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب
ہوئی اورشائد ان ہاتھوں کو میرے رب نے اس لئے واپس لے لیاکہ اس کے بعدیہ
کسی غدار کے ہاتھوں کو نہ چھوئیں۔نجانے اورکیا کیاکہتے رہے اورمیری حالت
تویہ تھی کہ ندامت کے مارے ان سے آنکھیں چرارہاتھا کہ ایسی عظیم شخصیت اس
قدرگمنامی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
۱۶دسمبر۱۹۷۱ءسقوط مشرقی پاکستان کی دلدوزخبرسن کرجی بہت گھبرارہاتھا ،میں
نے سوچا کہ پاکستان کے اس عظیم مجاہدکے پاس جاکراپناغم ہلکاکرتاہوں۔ میں نے
دورسے دیکھاکہ ان کی ریڑھی کے پاس لوگوں کاایک تانتابندھاہواہے۔دل زورزورسے
دھڑکنا شروع ہوگیا۔میں نے سوچا کہ میری طرح یہ سب لوگ بھی اپناغم ہلکاکرنے
کیلئے اس عظیم شخص کے پاس آئے ہیں لیکن میرے اندرکا خوف میری اس سوچ کاساتھ
نہیں دے رہاتھا۔ جب قریب پہنچاتومعلوم ہواکہ یہ عظیم شخص اس بری خبرکوسن
کراپنے دل پرقابونہ رکھ سکا اوراپنے رب کے ہاں انہی کٹے ہوئے نامکمل لاشے
کے ساتھ حاضرہوگیا ۔اب ان کی تدفین کامسئلہ تھا۔میں نے آگے بڑھ کریہ ذمہ
داری جب قبول کرناچاہی تومعلوم ہواکہ اس کا بندوبست بھی اسی شخص نے پہلے سے
کردیاہے جس نے کچھ دن پہلے میری ان سے ملاقات کروائی تھی۔اسی پاکستانی پرچم
کاکفن ان کو پہنایاگیا کہ یہ ان کی شدید خواہش تھی۔نجانے ساراشہران کے
جنازے میں کیسے امڈآیا۔لوگوں کا ایک طوفان تھاجواس سے پہلے کبھی دیکھنے میں
نہیں آیا۔بے شمارایسے ناآشناچہرے اس جنازے میں اس طرح پھوٹ پھوٹ کررورہے
تھے ،نجانے یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کاغم تھایا پھراس مردِعظیم کا!
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ |